اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں جب انسانوں کو تمام
حقوق دیئے جانے کے دعوے ہو رہے ہیں۔جب حیوانوں یہاں تک کہ سمندروں اور
جنگلوں کے جانداروں کے حقوق کے لئے سول سوسائٹی ، این جی اوز، سرکاری اور
نیم سرکاری ادارے میدان میں ہیں۔ مگر دنیا کے اس خطہ کشمیر میں انسانوں کے
کوئی حقوق نہیں۔ آزادی اظہار رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ شہری آزادیاں کوئی
معنیٰ نہیں رکھتیں۔ آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں ہیں۔ کیوں کہ یہ خطہ
انڈیا کی کالونی ہے۔ جو گزشتہ 24دنوں سے مسلسل بھارتی جنونی اور شدت پسند
فوج کے محاصرے میں ہے۔جہاں کی آبادی کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر مفلوج کر
دیا گیا ہے۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس لائے گئے مریضوں میں 40فی صد
ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ پہلے آزاد میڈیا کے نام نہاد علمبردار پریس کلب آف
انڈیا نے دہلی میں کشمیر پر سول سوسائٹی کی ویڈیوز اور تصاویر دکھانے کی
اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ اب انڈیا میں پریس کی آزادی کی آواز پریس
کونسل آف انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر پابندیاں اور آزادی اظہار
رائے پر بھارتی فوج کے لاک ڈاؤن اور کرفیو کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
حکومت نے ایڈوائزری جاری کی ہے کہ ریاست کے مفاد کے سامنے کشمیریوں کے حقوق
کی کوئی اہمیت نہیں۔ بھارت کے یہ ادارے بھی کشمیر کو اپنی نو آبادی اور
کالونی سمجھنے پر مجبور ہیں۔اسی لئے یہ اپنے منڈیٹ کو یکسر فراموش کر بیٹھے
ہیں۔ بھارتی ادارے ایک کروڑ سے سے زیادہ انسانوں کو اپنے غلام قرار دیتے
ہیں۔ اس لئے یہ مقبوضہ ریاست کی سرحدوں کے باہر ہی آزادی اظہار کو جائز
سمجھتے ہیں۔ یہی حال سپریم کورٹ آف انڈیا کا ہے۔ 24دن کے لاک ڈاؤن، کرفیو،
10ہزار سے زیادہ لوگوں کی گرفتاریوں ، کریک داؤن، ماورائے عدالت قید و بند
پر قابض فورسز کو روکنے کے بجائے انہیں مزید وقت دینے کے ریمارکس دیتی ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت
کی اس سب سے بڑی عدالت کے سامنے کشمیریوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ اپنی فوج
کے ہر سنگین جنگی جرم کو درست قرار دیتی ہے۔ یہ عدالت کئی ایسے فیصلے صادر
کر چکی ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدل ا انصاف پر کشمیریوں کا کوئی حق نہیں۔
افضل گورو سمیت کئی کشمیریوں کو بھارتی عوام کے دل کی تسکین کے لئے پھانسی
پر لٹکا دیا گیا۔5اگست سے سپریم کورٹ میں ایک درجن سے زیادہ درخواستیں دائر
کی گئیں۔ لیکن عدالت نے حکومت کو کچھ وقت دینے کے نام پر24دن گزار دیئے۔
24دن بعد سماعت ہوئی، اس میں بھی کشمیری عوام کو کوئی ریلیف نہ ملا۔ اب
اکتوبر میں بینچ تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔مودی سرکار سے جواب طلبی
علامتی ہے۔بھارتی اٹارنی جنرل یہ کہہ کر سچ چھپا رہے ہیں کہ عدالت جو بھی
ریمارکس دے گی ، اسے اقوام متحدہ میں پیش کر دیاجائے گا۔سپریم کورٹ نے ملک
کے آرٹیکل 14اور19کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ مساوات یا آزادی اظہار پر
صرف اکژیت کا حق ہے۔ جب کسی ملک کی اعلیٰ عدالتیں عوام کی تسکین اور
خواہشات کو پورا کرنے کے لئے فیصلے کرنے لگیں اور اور مظلوموں کو عداوت اور
تعصب کی وجہ سے انصاف فراہم نہ کریں تو ایسے ملک کے بارے میں دنیا کی
خاموشی کسی المیہ سے کم نہ ہو گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کا یہ
امتحان ہے کہ وہ قومی مفاد پر سچ کو قربان کرتے ہیں یا عدل و انصاف کی مثال
قائم کرتے ہیں۔پریس کلب آف انڈیا، پریس کونسل آف انڈیا، سپریم کورٹ آف
انڈیا، نیشنل انٹلی جنس ایجنسی، انڈین آرمی سمیت کسی بھی بھارتی ادارے کے
کشمیر کے حوالے سے کردار کا جائزہ لیں تو اس میں تضاد اور عناد صاف نظر آتا
ہے۔ بھارتی اداریگمان کرتے ہیں کہ کشمیرپر بھارتی قبضہ دہلی کے مفاد میں ہے۔
اس لئے کشمیریوں کی حمایت یا مخالفت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر کشمیری
بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھی بھارت کو بندوق کی نوک پر فوج اور
طاقت سے کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنا ہے۔ بھارت کو کشمیر کے وسائل کی
ضرورت ہے۔ اس لئے وہ اپنے جبری فوجی قبضے میں توسیع کر رہا ہے۔اسی بھارت نے
کشمیرپر 73سال سے لشکر کشی جاری رکھی ہے۔ مگر کسی بھی انسانی حقوق کے
چیمپئن ادارے نے کشمیریوں کی شہری آزادیاں سلب کرنے پر آواز بلند نہ کی۔
بھارت کا یک نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن بھی ہے۔ جس نے آج تک بھارتی فوج کے
ہزاروں جنگی جرائم میں سے کسی ایک پر بھی نوٹس جاری نہیں کئے۔ بھارتی فوج
کو کشمیریوں کو قتل کرنے ، ماورائے عدالت ہلاکتوں، گرفتاریوں کی کھلی چھوٹ
ہے۔
عالمی میڈیا بھی بھارتی لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔
بھارتی فوج کے رات کو کشمیریوں کے گھروں میں جبری داخلے، خواتین کے ساتھ
دست درازیاں، 8سے80سال کے افراد کی گرفتاریاں، بچوں کی حراست اور انہیں
دوران حراست غائب کرنے کی رپورٹس منظر عام پر آ رہی ہیں۔ کم سن بچوں کو
گرفتار کر کے انہیں فورسز کیمپوں میں ٹارچر کرنے کے واقعات رونما ہو رہے
ہیں۔ بچوں کے حقوق کے علمبردار خاموش ہیں۔ حقوق آزادی نسواں کے سرخیل لاپتہ
ہیں۔یہ دور ایشوز کو الجھانے کے بجائے سلجھانے کا ہے۔ بھارت دنیا پر یہ
باور کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکژیت کی وجہ سے خطہ افغانستان بن
سکتا ہے۔ جہاں سے دہشتگردی اور انتہا پسندی بھارت میں پھیلنے کا خدشہ ہے۔
اس پروپگنڈہ کا مقصد بھارتی جارحیت کو جائز ثابت کرنا اور الٹا مظلوم
کشمیریوں کو جابر قراردینا ہے۔ جیسا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے بارے میں
دنیا میں منفی تاثر قائم کیا، اسرائیلی جارحیت اور دہشتگردی پر سبخاموش ہو
گئے۔ کشمیریوں کو 24روز سے گھروں میں قید ی بنا کر، بھوکا پیاسا رکھ کر ،
ان کی آواز دبا کربھارت نے سب کو خاموش کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل نے مشاورتی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی۔ اس
اجلاس کے فالو اپ کے طور پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ
لودھی نے جنرل اسمبلی کی صدر ماریہ فرننڈا اسپنوزا سے ملاقات کی اور انہیں
مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بریفنگ دی۔ پاکستان کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہے کہ
سلامتی کونسل اجلاس کے بعد معاملہ میں کیسے پیش رفت کی جائے۔ پاکستان
سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی سفارتکار انہیں تازہ حالات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے پاکستان
کے دفتر خارجہ اور دنیا بھر میں کشمیر ڈیسک قائم کرنا کا اعلان کیا تھا۔ اس
اعلان پر کیسے عمل در آمد ہو، ا س بارے میں بھی متعلقین کے ساتھ صلاح مشورے
جاری ہیں۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ کشمیر سے متعلق خانہ پری یا محض
نمائیندگی پر توجہ نہ دی جائے بلکہ ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ماہرین
کے پینل کے لئے تربیتی پروگرام تشکیل دے کر انہیں ذمہ داریاں سونپی جائیں۔
اس میں حریت کانفرنس، آزاد کشمیر حکومت اور تحریک آزادی سے وابستہ عناصر کی
خدمات زیادہ نتیجہ خیزثابت ہوسکتی ہیں، ایسے سفارتکار جو بھارتی پروپگنڈہ
کو زائل کریں اور دنیا کو تاریخ میں گم کرنے کے بجائے براہ راست حقائق اور
انسانیت کے نام پر متوجہ کر سکیں۔
|