لکھنے والے سرحدوں میں قید نہیں ہوتے ۔ان کی سوچ آفاقی
اور موضوع بحث انسان ہوتا ہے ۔جب کہیں بھی انسانوں کی فطرت کے خلاف قوانین
سامنے آتے ہیں یا انسانوں کو ان کی فطرت کے مغائر قید کرنے کی کوشش ہوتی ہے
۔لکھنے والے پہلے لوگ ہوتے ہیں جو معاملات کی حساسیت کو سمجھتے ہیں ۔شعراء،ادیب
اور کالم نگار دنیا کی قانون سازی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ،مگر ہمارے ہاں
انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔روسو اور وولیٹائر انقلاب فرانس کے پیچھے متحرک
سوچ دینے والے لوگ تھے ،جنہوں نے انقلاب فرانس کی سوچ کے بیج بوئے ،چنگاریاں
پھیلائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انیسویں صدی 1889ء اور 1917ء کے انقلابات
پھوٹے اور پوری دنیا پر اس کے اثرات نمایاں ہوئے ۔
کشمیر میں 5اگست سے کرفیو لاگو ہے ،خوراک،ذرائع نقل و حمل ،ادویات اور
ضروریات زندگی کے تمام امور ٹھپ پڑے ہیں ۔بھارتی حکومت کی بے حسی سیکولر
اور جمہوری بھارت پر طمانچہ ہے ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ ’’مودی سرکار نے
کشمیر پر شب خون مارا‘‘حالانکہ کوئی فرق نہیں پڑتا اگر بھارت میں کانگرس کی
حکومت ہوتی یا بی جے پی کی ،دونوں کشمیر کے لئے ایک ہی طرز کی سوچ رکھنے
والے لوگ ہیں ۔کشمیر ایک الگ وجود رکھتا ہے ،جس پر 27نومبر کو مودی سرکار
نے غاصبانہ قبضہ کیا۔
شیخ عبداﷲ نے 370اور 35A کے تحت کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملایا۔بظاہر اس
قانون سے کشمیریوں کو ریاست کی حد تک خود مختاری حاصل تھی ،مگر ریاست جموں
و کشمیر کا تشخص 84471کو مسخ کر کے رکھ دیا گیا تھا۔شیخ عبداﷲ کی غلطی آج
ان کا بیٹا اور پوتا سر عام تسلیم کر رہے ہیں ۔آج فاروق عبداﷲ یہ کہنے پر
مجبور ہے کہ کشمیر کے رہنے والے بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ۔اب جموں
وکشمیر میں کرفیواٹھنے کے بعد پتہ چلے گا کہ ہزاروں افراد بزرگ ، بچے اور
خواتین اپنی جانوں سے گئے ہیں ،وہاں کے ہسپتال کشمیری عوام کے لئے بند ہیں
۔ اس صورت حال میں پاکستان کا کردار کیا ہے؟عوام کے جذبات تو صاف نظر آ رہے
ہیں۔عوام اپنے کشمیری بھائیوں،بہنوں کے لئے ایل او سی توڑ کر سری نگر جانے
کے لئے بے تاب ہیں ،لیکن ہماری حکومت کا اس معاملے پر غیر سنجیدہ رویہ
تشویش کا باعث ہے ۔جوٹویٹر ،فیس بک ، واٹس اپ اور میڈیا پر زبردست جنگ لڑ
رہی ہے ۔لیکن حقیقت میں عملی قدم کچھ نہیں کیا جا رہا۔جمعۃ المبارک کو
12بجے آدھے گھنٹے کے لئے احتجاج کیا گیا،جس میں تمام دفاتر سے زبردستی
لوگوں کو باہر نکال کر اور سڑکوں پر ٹریفک روک کر دنیا اور کشمیریوں کوکیا
پیغام دیا جا رہا ہے ؟پاکستان نے کشمیریوں کے لئے بہت بڑا کارنامہ انجام دے
دیا۔مودی سرپھرا حیوان صفت شخصیت ہے ۔اسے اسی کے انداز میں مات دی جا سکتی
ہے ۔جس کے لئے لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔مودی اسرائیل کے نقشہ قدم پر چل رہا
ہے ۔ اسرائیل نے جیسی پالیسیاں فلسطین کے لئے بنائی ہیں، بالکل ویسی ہی
پالیسیاں مودی سرکار نے کشمیر کے لئے بنا رکھی ہیں ۔جو ایک تشویش ناک صورت
حال ہے ۔اس کا تدارک ہم کیسے کر سکتے ہیں ؟
ملکوں اور قوموں کے درمیاں مسائل کے حل کے لئے مختلف راستے ہوتے ہیں ۔ان
میں عام،مقبول اور مروجہ راستہ سیاسی ہے ۔جس سے گفت و شنید سے مسائل کو حل
کیا جاتا ہے ۔دوسرا راستہ جنگ کا ہے ۔جنگ تباہی و بربادی کے ناقابل فراموش
قصے چھوڑ جاتی ہے ۔ایسے نقوش چھوڑتی ہے ،جسے دھونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں
۔تیسرا راستہ سفارت کاری کا ہے ۔یہ ایک محفوظ اور مہذب راستہ ہے ۔لیکن اس
میں محنت ،صبر اور وقت طلب راستہ ہے ۔
اگر ہم پاک بھارت معاملے میں کشمیر کے مسئلے پر بات کریں تو صورت حل پیچیدہ
ہے ۔مودی ایک انتہا پرست دہشگرد اور سفاک ذہنیت کا مالک ہے ۔مودی کے ذہنی
انتشار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔اس سے مزاکرات ،باہمی مکالمے سے مسئلہ
کے حل کی جانب سوچنا عقل مندی کا تقاضا نہیں ہے ۔مودی جنگ وجدل اور خون
ریزی کا دائی ہے ۔اس کا ماضی اس بات کا گواہ ہے ۔گجرات میں جس طرح سے
مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔اس سازش کا سربراہ اور ماسٹر مائنڈ یہی جانور
صفت شخص ہی تھا۔اپنی پچھلی حکومت میں بھی مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں جس
انداز سے انسانیت سوز حالات رہے ہیں یہ دنیا سے پوشیدہ نہیں ہیں ،مگر
کیونکہ امّۃ مسّلمہ زر کے حوس میں اس قدر پھنس چکی ہے ۔اسے اپنے دین اور
دینی بھائیوں کے بارے میں کوئی احساس نہیں رہا ہے ۔بھارت کے ہندو حکمران
ہمیشہ سے مسلمانوں کے جانی دشمن رہے ہیں ۔لیکن انہوں نے دنیا بھر کے مسلم
ممالک کو تجارت کے ذریعے اپنا غلام بنا رکھا ہے ۔پاکستان میں عرب امارات کو
چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے ۔لیکن بھارت میں
70ارب ڈالر سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر لیتا ہے ۔بھارت نے اپنی جنگی
جنون میں اسلحے کا بڑا ذخیرہ سنبھال رکھا ہے ۔دنیا اس کا بھر پور ساتھ دیتی
ہے ۔اس لئے بہتر یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ سب سے پہلے سفارت کاری کے میدان
میں لڑا جائے ۔سفارتی محاذ پر دنیا کا سب سے بڑا اور طاقت ور فورم اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل ہے ۔پاکستان کی کاوشوں کی وجہ سے سلامتی کونسل کا
بند کمرے کا اجلاس ہوا، جس میں کشمیر کے موضوع پر گفتگو ہوئی ۔اس اجلاس سے
اگرچہ کوئی ٹھوس تجویز سامنے نہیں آئی ،مگر پھر بھی یہ اجلاس اہم تھا
کیونکہ پچاس برس بعد دوبارہ مسئلہ کشمیر پر اس بڑے فارم پر بات ہوئی ۔اقوام
متحدہ اور سلامتی کونسل سے زیادہ امیدیں نہیں باندھنی چاہیں ۔کیونکہ ان بڑے
فارم کا تاریخی کردار کوئی مثالی نہیں رہا ہے ۔اسرائیل فلسطین تنازعے میں
بھی ان کا کردار قابل رشک نہیں رہا ہے ۔اقوام متحدہ کل وقتی طور پر اسرائیل
اور فلسطین کے تنازعے میں ملوث ہونے اور انتہائی متحرک کردار ادا کرنے کے
باوجود اس باب میں کوئی قابل ذکر پیش رفت کرنے میں نا کام رہی ہے ۔فلسطینی
آج بھی بے گھرہیں ۔آزادی تو دور کی بات ہے ،ان کی گھروں میں واپسی بھی ممکن
نہیں ہو سکی ہے ۔اقوام متحدہ میں جتنی مرضی قراردادیں پاس ہو جائیں،جب تک
سپر پاورکی منشا نہیں ہو گی ،نظر انداز کر دی جائے گی ۔لیکن2003ء میں عراق
پر حملے کی قرارداد منظور ہوئی تھی ۔اس وقت برطانیہ اور امریکہ نے کس پھرتی
سے نہ صرف قرارداد منظور کروائی بلکہ اسی وقت اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔
اب جبکہ مودی تکبراور غرور میں اپنے تیور دکھاتا ہے اورکہتا ہے کہ ہم ایک
ارب بیس کروڑ لوگ ہیں ،ہمیں کوئی دباؤ میں نہیں لا سکتا ہے ۔ہم معاشی اور
عسکری اعتبار سے ایک بڑی قوت ہیں ۔وہ دنیا کو سننے کی بجائے سننانے جارہا
ہے ۔ان حالات میں صرف سفارت کاری پرمکمل تقویٰ کرنا ممکن نہیں ہے ،اس لئے
دوسرے آپشن کو بھی کھولنے کی تیاری تیزی سے کرنی چاہیے ۔مانا کہ جنگ تباہی
و بربادی کا دوسرا نام ہے ،یہ نہ بھرنے والے زخم اور اندوہناک غم چھوڑ جاتی
ہے ،لیکن ضرورت پڑنے پر اسی راستے کو اپنانا پڑتا ہے ۔کیونکہ جب کوئی جانور
خود سر ہو جائے تو اسے کنٹرول میں کرنے کے لئے اسلحہ کا استعمال کرنا نا
گزیر ہو جاتا ہے ۔
دنیا میں آج’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘کا قانون ہے ۔ان زمینی حقائق کو
مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے ۔لیکن
جب تک ہم معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوں گے ۔ہمارے ساتھ ایسے
معاملات بدستور رہیں گے ۔اس لئے جو بھی حکمران اس ملک پر اقتدار پر آئے،اسے
چاہیے کہ معاشی اور سیاسی استحکام کو بدستور جاری رکھے ۔ایک دم سے انقلاب
کی باتیں موجودہ دور میں کرنا انتہائی غیر دانشمندانا اقدام ہے ۔اصلاحات کا
سلسلہ تسلسل کا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے ۔زمینی
حقائق کو مدنظر رکھ کر ملک اور قوم کی ترقی کی پالیسیاں بنانی چاہیں اور ان
پر عمل درآمد بھی ہو جانا چاہیے ۔حکومت کو مسئلہ کشمیر کی آڑ میں روزمرہ
زندگی کی مشکلات سے جڑے عوام کے تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا
چاہیے۔حکومت کو عوام کے ساتھ اپنا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔جس پر
حکمرانوں کی توجہ بالکل نہیں ہے۔عوام کے لئے یہی لمحہ فکریہ ہے ۔
|