مقبوضہ کشمیرمیں زندگی مسلسل مفلوج ہے۔ نظام زندگی درہم
برہم ہے۔ لوگ گھروں پر قید ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق دس تا 15ہزار کشمیری
گرفتار ہیں۔ مگر گرفتاریوں کی درست تعداد کوئی نہیں جاتنا۔ لا تعداد
کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ مگر تعداد کسی کو معلوم نہیں۔ پیر کو
29ویں روز بھی کشمیر دنیا سے کٹا ہو اہے۔ کوئی موبائل، ٹیلیفون، کام نہیں
کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ بند ہے۔ ٹی وی کیبل نیٹ ورک بند ہیں۔ ہر گھر کے سامنے
فوجی کھڑا ہے۔ فوج جگہ جگہ نئے بنکرز تعمیر کر رہی ہے۔ سرکاری عمارتوں اور
تعلیمی اداروں پر فوج کا قبضہ ہے۔ بازار، سکول، دفاتر بند ہیں۔ ٹرانسپورٹ
بھی بند ہے۔ عملی مارشل لاء اور ایمرجنسی جیسی صورتحال ہے۔ یہ سب معلومات
ہمیں صرف بی بی سی، الجزیرہ، ٹی آر ٹی جیسے عالمی میڈیا اداروں سے حاصل ہو
رہی ہیں۔ یا سرینگر سے دہلی پہنچنے والوں کی زبانی پتہ چل رہا ہے۔ تا ہم
بھارت کشمیر کے حالات سے دنیا کو مسلسل بے خبر رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کی
سول سروسز امتحانات میں کشمیری ٹاپر محمد فیصل کو دہلی ائر پورٹ سے واپس
سرینگر روانہ کرنے کے بعد ایک کشمیری صحافی گوہر گیلانی کو دہلی ائر پورٹ
پر گرفتار کیا گیا ہے جو جرمنی میں منعقدہ ایک میڈیا کانفرنس میں شرکت کے
لئے جا رہے تھے۔ البتہ برطانوی نشریاتی اداروں کے ساتھ منسلک کشمیری صحافی
نعیمہ احمد مہجور کسی طرح سرینگر سے لندن پہنچنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے لوگ بھی سرینگر ائر پورٹ سے کسی بڑے ہوٹل میں پہچائے جاتے
ہیں۔ ان کی میزبانی بھارتی فورسز کرتے ہیں۔ وہ سنسان شہر میں گھوم پھر کر
اور کرفیو زدہ علاقوں کا فضائی دورہ کرنے کے بعد حالات کے پرسکون ہونے کا
پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جب کشمیر کے لاک ڈاؤن
زدہ بند پڑے بازار میں سب اچھا ہونے کا ڈرامہ رچاتے نظر آئیں تو دہلی کی
پالیسی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ترکی کے ٹی آر ٹی ٹی وی چینل کی انگریزی
میں نشریات یورپ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ چینل بعض حقائق پر سے پردہ ہٹا
رہا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایک بھی ٹی وی چینل انگریزی میں نشریات نہیں دکھا
رہا ہے، جو دنیا تک کشمیر کے حالات یا مسلہ کشمیر کا پس منظر پہنچا سکے۔ اس
جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ جو بھارتی صحافی غیر ملکی میڈیا کے ساتھ
وابستہ ہیں، ان میں سے بعض موجودہ ماحول میں بھی کسی قدر اپنی غیر جانبداری
کا حساس کر تے ہیں۔ مگر بیشتر بھارتی حکومت کی سخت سنسر شپ کی زد میں ہیں
یا نیشنلزم کی حصار میں کام کر رہے ہیں۔ بھارت میں جو لوگ کبھی نام نہاد
سیکولرزم کی بات کرتے تھے ، وہ آج اکھنڈ بھارت اور ہندوتوا ایجنڈے پر کام
کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد
سخت کرفیو اور پابندیوں کے باوجود لوگوں نے مظاہرے کئے۔ صٖفاکدل سرینگر کے
ایک نوجوان کو بھارتی فورسز نے ایک مظاہرے کے دوران دریائے جہلم میں غرقاب
کر دیا۔ سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اﷲ اور محبوبہ مفتی کی پارٹی کے لوگ بھی
کوئی احتجاج نہ کر سکے۔ تا ہم نوجوانوں کو جب بھی موقع ملتا ہے کرفیو توڑ
کر مظاہرے کرتے ہیں۔
عمر عبداﷲ کے والد فاروق عبد اﷲ کے دور حکومت میں آزادی پسندوں کو بھارتی
فورسز گرفتاری کے بعد ٹارچر کے لئے فورسز کیمپوں اور اذیت خانوں میں ڈال
دیتی تھی۔ ان میں سے ایک’’ پاپا۔ٹو‘‘ تھا۔ یہ ٹارچر سنٹر جھیل ڈل کے عقب
میں سخت پہرے والے علاقے میں تھا۔ میں بھی اس ٹارچر سنٹر میں بھارتی فورسز
کا تشدد برداشت کر چکا ہوں۔ اس کا نام ہری نواس ہے۔ ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ
کے نام پر تعمیر کردہ محل نما اس عمارت کا نام بھارتی فورسز نے پاپا ٹو
رکھا ہوا تھا۔ آج سابق وزیراعلیٰ عمر عبد اﷲ کویہاں ہی نظر بند رکھا گیا
ہے۔ یہ مکافات عمل ہے۔ عمر عبداﷲ کو یہاں کشمیری کے بہائے گئے خون کے دھبے
اور لہو کی بو آتی ہو گی، اگر چہ اس کی تزئین و آرائش بھی کی گئی ہے ۔ اسی
ہری نواس کے قریب مغلوں کے تعمیر کردہ چشمہ شاہی کے ایک ٹورسٹ ہٹ میں
محبوبہ مفتی نظر بند ہیں۔ جو اپنے والد مفتی سعید کے بعد کبھی بی جے پی کی
اتحاد اور حمایت سے وزارت اعلیٰ کے مزے لوٹ چکی ہیں۔ انہیں اس علاقے میں
کشمیری نوجوانوں کی چیخ و پکار اور لاشیں نظر نہیں آئیں گی ۔ مگر تاریخ میں
یہ ضرور تحریر ہو گا کہ جس چھت اور در و دیوار نے آزادی پسندوں چیخیں سنیں
، جنھوں نے دہلی کو سہارے دیئے، وہ خود بھی دہلی کے عتاب اور دھوکوں سے بچ
نہ سکے۔ گو کہ یہ لوگ پھر اقتدار کے لئے دہلی کے مہرے بننے میں ایک دوسرے
پر سبقت لیتے نظر آ سکتے ہیں، مگر یہ احساس ان کے لئے کسی موت سے کم نہ ہو
گا کہ انھوں نے ہمیشہ قوم کی آزادی پر اپنے اقتدار کو ترجیح دی۔ قوم کا
سودا کیا۔شاید وقت نے انہیں ایک موقع فراہم کیا ہے۔اگر وہ بدنما داغ مٹانے
اور فاش غلطیوں کے ازالے کے لئے تحریک آزادی میں شامل ہو جائیں، تو عوام
انہیں معاف کرنے پر غور کر سکیں۔
بھارتی میڈیا سنسان اور ویران سڑکیں اور بازار دکھا کر کہہ رہا کہ کشمیر
میں سب ٹھیک ہے۔ لوگ خاموش ہیں۔ جب لوگ گھروں میں بھوکے پیاسے ہوں ، خوراک
کی قلت ہو۔ علاج و معالجہ سہولیات ناپید ہوں ، تو پھر بھی کمال ہے کہ وہ بے
خوف و ڈر کے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں۔ آزادی کے
نعرے لگا رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کے مقبوضہ ریاست کے دیگر شہروں اور
دیہات میں کیا حالات ہیں۔ عالمی میڈیا اعتراف کر رہا ہے کہ ہسپتال قبرستان
بن رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ فورسز نے
کوئی ریکارڈ رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ہسپتالوں کا عملہ سخت دباؤ میں
ہے۔ جو لوگ بھارتی فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ یا پیلٹ فائرنگ کی زد میں آ کر
شہید ہوئے، ہسپتالوں میں ان کا اندراج بھی نہیں کیا گیا۔ شہدا ء کے ورژاء
کو ڈیتھ سرٹیفکیٹس نہیں دی گئیں۔ بھارت ہر لحاظ سے یہ ظاہر کر رہا ہے کہ
کشمیر کے حالات کا دنیا کو پتہ نہ چلے۔ ٹی وی سکرینوں پر فوجی بندوقیں تانے
نظر آ رہے ہیں اور بھارتی میڈیا رپورٹر کہہ رہے ہیں کہ بازار کھل چکے ہیں
اور یہاں عوام کی چہل پہل ہے۔ بھارتی فورسز کی فلیگ مارچ کو عوامی رش کے
طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
عالمی ریڈ کراس یا کسی بھی عالمی ادارے نے 29روز سے کرفیو اور پابندیوں کے
ستائے کشمیریوں کے لئے ادویات یا خوراک کا انتظام کرنے کی جانب توجہ نہیں
دی ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی امن فوج(UN Peace keeping Force)کے داخلے
اور یو این ملٹری آبزرور گروپ(UNMOGIP) کی تعداد میں اضافے کیضرورت محسوس
نہیں کی گئی ہے۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز بھی خاموش ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ
بھارتی لابی دنیا کو اپنے موقف کو درست قرار دینے میں مصروف ہے۔ جب کہ
کشمیریوں کی آواز بلند کرنے کے لئے پاکستان سرگرم ہے ، مگر پاکستان کی
لابنگ دنیا کے بااثر حلقے کو متاثر نہیں کر سکی ہے۔ دنیا کے اہم ترین خطوں
اور دارالحکومتوں میں موجود پاکستانی سفارتکار میڈیا اور سفارتکاروں کی روز
مرہ کی بریفننگ پر توجہ دیں تو بھارتی پروپگنڈہ کا توڑ کیا جا سکتا ہے۔
|