سیاسی جماعتوں کی انتخابی مجبوریاں

پانچ صوبائی انتخابات کا بگل بجا چاہتا ہے۔ وطن عزیز میں انتخابی مشق سے مسلمانوں کو سب سے کم فائدے حاصل ہوتے ہیں اس کے باوجود نہ صرف مسلمانوں کو اس میں سب سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کی بڑی فکر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا رحجان کس جانب ہے۔ اس لیے ہندو سماج ذات پات میں منقسم ہے اور وہ سب کبھی بھی کسی ایک پارٹی پر متفق نہیں ہوتے جبکہ مسلمان اکثرو بیشتر یکمشت ووٹ دیتے ہیں۔ اس بار اگر امت مسلمہ اپنی رائے دہندگی کا حق استعمال کرنے سے قبل ایوانِ پارلیمان میں طلاق ثلاثہ بل کی منظوری اور کشمیر کی آئینی ترمیم کو پیش نظر رکھے تو سیاسی جماعتوں کی مجبوریوں کو اس کے سامنے اجاگر ہوجائیں گی اور وہ بہتر حکمت عملی اختیار کرسکیں گے۔

فسطائی بی جے پی کے علاوہ ملک میں تین قسم کی سیاسی جماعتیں ہیں ۔ ان میں سے ایک قومی جماعت کانگریس ہے جس کا حلقۂ اثر دن بہ دن سمٹتا جارہا ہے اور کمیونسٹ ہیں جو اپنے وجود کی بقاء میں مصروفِ عمل ہیں کیونکہ کسی بھی وقت ان کا ٹمٹاتا چراغ بجھا چاہتا ہے ۔ اس کے علاوہ علاقائی جماعتیں مثلاً این سی پی ، ایس پی ، بی ایس پی ، ٹی ایم سی ،ڈی ایم کے اور ٹی آر ایس وغیرہ ہیں ۔ ان علاقائی جماعتوں کے ساتھ ساتھ کچھ ملی جماعتیں بھی ہیں مثلاً مسلم لیگ،مجلس اتحاد المسلمین، نیشنل کانفرنس ، یونائیٹیڈ ڈیموکرٹیک پارٹی ، ایس ڈی پی آئی اور ویلفیئر پارٹی وغیرہ۔ ان سب کی بھی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں ۔ کانگریس کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ نہیں جاسکتی ۔ اس کے ارکان پارٹی چھوڑ کر ببانگِ دہل بی جے پی میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ عمل وہ پارٹی کی حیثیت سے نہیں کرسکتی ورنہ اس کا جواز ختم ہوجائے گا ۔

کرناٹک میں کانگریس کے ۱۴ ارکان اسمبلی کو معطل کردیا گیا اور بہت جلدوہ بی جے پی میں چلے جائیں گے اس کے برعکس جے ڈی ایس کے صرف ۳ لوگوں نے غداری کی مگر بی جے پی کے اقتدار میں آ جانے کے بعد جے ڈی ایس کے سابق وزیر جی ٹی دیوے گوڑا نے اعتراف کیا کہ ہمارے کئی ارکان اسمبلی اب بی جے پی کی حمایت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ ماضی میں وہ بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت سازی کرچکے ہیں ۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا اختلاط نہیں کرسکتے یہ ان کی مشترکہ مجبوری ہے ۔ انہیں چاہے نہ چاہے ایک دوسرے کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ علاقائی جماعتیں کھل کر اور پس ِپردہ دونوں قومی جماعتوں کی حلیف بن جاتی ہیں ۔ ان علاقائی جماعتوں میں شاید ہی کوئی ایسی ہو جس نے کبھی نہ کبھی کانگریس کے ساتھ الحاق نہ کیا ہو اور ایس پی و جے ڈی یو کے علاوہ ہر کسی نے بی جے پی کی حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے یا اس کو اپنی سرکار کا حصہ بنایا ہے۔

علاقائی جماعتیں اس معاملے میں آزاد ہیں لیکن ان کی مجبوری حلقہ ٔ اثر کا اپنے صوبے تک محدود ہونا ہے اس لیے وہ اپنے بل بوتے پر مرکز میں حکومت نہیں قائم کرپاتے ۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ان کی بھی مخلوط حکومت وجود میں آچکی ہے لیکن وہ اپنی مدت کار مکمل نہیں کرسکی کیونکہ ان میں سے ہر رہنما وزیر اعظم بننے کا آرزو مند ہوتا ہے ۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کانگریس یا بی جے پی عارضی حمایت کرکے انہیں آپس میں لڑا کر حکومت بنواتے ہیں اور موقع ملتے ہی سرکار گرا دیتے ہیں ۔ صوبائی سطح پر یہ ہوتا ہے کہ بی جے پی اول توعلاقائی جماعتوں کے کندھوں پر سوار ہوکر آتی ہے اور ان کو اپنے شانوں تک اٹھا کر پٹخ دیتی ہے۔ اس طرح کا معاملہ کئی ریاستوں میں ہوچکا ہے مثلاً مہاراشٹر میں شیوسینا کے سہارے بی جے پی نے پر پھیلائے اور اس کے پر کتر دیئے۔آسام میں اے جی پی کی مدد سے اپنے قدم جمائے اور اس کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ کرناٹک میں جے ڈی ایس کو گلے لگایا اور اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ بہار میں نتیش کے ساتھ یہ کھیل ہنوز جاری ہے اور بی جے پی اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔

ملی سیاسی جماعتوں کا معاملہ علاقائی جماعتوں سے بھی ا بتر ہے۔ ان کو نہ صرف کانگریس بلکہ علاقائی جماعتوں پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دیگر جماعتوں سے برعکس ملت کا معاملہ اپنے رہنماوں کے تئیں بندھوا مزدور کا سا نہیں ہے۔ امت اس قدر خوددار و بیدار ہے کہ وہ ان جماعتوں کو کھل کر بی جے پی کی حمایت کرنے کی اجازت نہیں دیتی اور اگر کوئی ایسی غلطی کرے تو اسے فوراًٍ سبق سکھا دیا جاتا ہے۔ کشمیر کے اندر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے یکے بعد دیگرے صفایہ کی بنیادی وجہ ان کا بی جے پی کی مرکزی سرکار میں شامل ہونا اور صوبائی حکومت میں شامل کرنا ہے۔ اس لیے کوئی یہ خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں کرپاتا ۔ اس بابت مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان کی حلیف جماعت بی جے پی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ مثلاً آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ نے تلاوت کلام سے اسمبلی کے اجلاس کا افتتاح کرکے مسلمانوں کا من موہ لیا۔ ایک مسلمان کو نائب وزیر اعلیٰ کے قلمدان سے بھی نواز دیا بلکہ جگن موہن ریڈی کے بارے میں سنا ہے کسی موقع پر انہوں نے نماز بھی پڑھی لیکن مرکزمیں کھلے عام شریعت میں مداخلت کی اور بہت سارے معاملات میں این ڈی اے کا حصہ بنے بغیر کر بی جے پی کی ہمنوائی فرما دی ۔ اس منافقت کو ‘پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی’ کہتے ہیں۔
ٹی آر ایس نے اپنے صوبے میں مجلس کے ساتھ الحاق کررکھا ہے ۔ ایک مسلمان کو نائب وزیر اعلیٰ بھی بنادیا ہے لیکن مرکز میں بی جے پی کے عملاً حلیف بنی ہوئی ہے۔ چندر شیکھر راو نے جب قبل از وقت انتخاب کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اگر بی جے پی کو لوک سبھا چناو کے بعد ایوان زیریں میں ضرورت پڑے گی تو اندر یا باہر سے وہ حمایت کریں گے ۔ لوک سبھا میں تو خیر ضرورت نہیں پیش آئی مگرراجیہ سبھا میں یہ سچ ثابت ہو گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایوان پارلیمان میں مسلمانوں کے موقف کا بہترین دفاع کرنے والا رہنما بی جے پی کی پرزور مخالفت کرتا ہے اور اس کی حلیف جماعت بی جے پی کی حمایت کردیتی ہے جس سے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے مگر ان کے باہمی تعلقات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ تلنگانہ کے اندر چندر شیکھر راو کے بارے میں جوبات کہی جاتی ہے مہاراشٹر میں اسی طرح کے اندیشوں کا اظہار پرکاش امبیڈکر کے تئیں کیا جاتا ہے لیکن مجلس ان کی ونچت اگاڑی میں بھی شامل ہے۔ یہ سب دیکھ کر بھولا بھالا عام مسلمان تذبذب کا شکار ہوجاتاہے ۔

ملک کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کےلیے ایک انتخابی حکمت عملی وضع کرنا خاصہ پیچیدہ عمل ہو گیا ہے۔ اس معاملے کو بیرسٹر اسدا لدین اویسی کی ایوانِ پارلیمان کے اندر یو اے پی اے کے خلاف کیے جانے والے خطاب کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ۔ انہوں نے پہلے تو انسانی حقوق کی روشنی میں اس کالے قانون کے چیتھڑے اڑا دیئے اس کے بعد کانگریس کے بارے میں بتایا کہ یہ ظالمانہ قانون اس نے بنایا تھا ۔ اس لیے پہلا قصور تو اس کا ہے ۔ کانگریس پر بجا طور سے تنقید کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریسیوں کو اس کے تحت سب سے پہلے گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے تاکہ انہیں دال آٹے کا بھاو معلوم ہو۔ اس جملے نے امیت شاہ کو خوش کردیا اور وہ بی جے پی والے جن پر اویسی ہمیشہ ہی آگ برساتے ہیں قدرے شاد ہوئے۔ اس تقریر کا ماسٹر اسٹروک وہ جملہ تھا کہ جب کانگریس اقتدار میں ہوتی ہے تو ایسےظالمانہ قوانین بناتی ہے جس سے بے قصور مسلم نوجوانوں کو اپنی زندگی کا بہترین وقت جیل میں گزارنا پڑتا ہے لیکن جب وہ اقتدار سے محروم ہوتی ہے مسلمانوں کا بڑا بھائی بن جاتی ہے۔ یہ صد فیصد درست بات ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس کے بعد جب بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اس طرح کے قوانین کو مزید سخت بنادیتی ہے اور بے دردی سے اس کا استعمال کرتی ہے۔ ایسے میں مسلمان کیا کرے ؟

اس سوال کا جواب آنجہانی کانشی رام کے مشہور قول میں پوشیدہ ہے۔ کانشی رام کہا کرتے تھے ہمیں مضبوط نہیں مجبور سرکار چاہیے کیونکہ ظالم جتنا طاقتور ہوگا اتنا زیادہ ظلم کرے گا اور جتنا مجبور ہوگا اس کا عتاب اتنا ہی کم ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کانگریس کے اقتدار کو کمزور تر رکھنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اس کے لیےفسطائی بی جے پی کو تو مضبوط نہیں کیا جاسکتا اس لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت ہونی چاہیے تاکہ کانگریس پارٹی کومذکورہ من مانی سے روکا جاسکے لیکن جب کانگریس اقتدار سے بے دخل ہوتو کیا کیا جائے؟ اس صورت میں یہ حکمت عملی نقصاندہ ہوجاتی ہے اس لیے کہ علاقائی جماعتیں جس طرح کانگریس کی حمایت سے دریغ نہیں کرتیں اسی طرح بی جے پی کا ساتھ دینے میں بھی پس پیش نہیں کرتیں ۔طلاق ثلاثہ کے علاوہ ، یو اے پی اے اور آر ٹی آئی کے ترامیم میں بھی یہ لوگ بی جے پی کے ہمنوا بن گئے۔ برسرِ اقتدار جماعت نے طاقت کی دھمکی اور دولت کی لالچ سے انہین خرید لیا ایسے میں بی جے پی کو کمزور کرنے کے لیے مسلمانوں کے پاس کانگریس کو مضبوط کرنے کے سوا کوئی متبادل نہیں بچتا۔ ایسے میں وہ حلقہ ہائے انتخاب استثنائی ہیں جہاں ملی جماعت کے کامیابی کا امکان ہو یا آر جے ڈی و ایس پی جیسی پارٹی موجود ہوجس نے ابھی تک بی جے پی کا ساتھ نہیں دیا ہے ۔ اس صورتحال میں بی ایس پی اورٹی آر ایس وغیرہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

شطرنج کی بساط پر صرف سیاہ و سفید مہرے ہوتے ہیں لیکن سیاسی بساط پر کئی بھورے مہرے بھی ہوتے ہیں جو حسبِ ضرورت کبھی کالوں کے ساتھ تو کبھی اجلوں کے ساتھ ہوجاتے ہیں اس لیے ان کا استعمال حسبِ موقع بہت سوچ سمجھ کرکیا جانا چاہیے ۔ ان کی وفاداری چونکہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اس لیے ان کے ساتھ مستقل وفاداری کا رشتہ استوار نہیں کیا جاسکتا ۔ انتخابی جوڑ توڑ سے عارضی فائدہ تو ہوسکتا ہے مگر وہ مستقل حل نہیں ہے۔ مفاد پرستانہ جمہوریت میں کوئی کسی کا مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ ابن الوقت سیاستداں غیروں کے تو دور خود اپنی جماعت کے لوگوں کے بھی دوست نہیں ہیں۔ وہ اپنوں کا گلا کاٹنے کے لیے موقع کی تاک میں رہتے ہیں ایسے میں غیر ان سے کسی خیر کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت نے سیاستدانوں کو اپنے نرغے میں لے کر مادہ پرست حیوان بنا دیا۔ اس نظام کی قباحتیں ہندوستان سے لے کر امریکہ تک آئے دن ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔عالمِ انسانیت اس کے چنگل سے نکالنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ امت مسلمہ کے پاس اس نظام کا متبادل موجود ہے لیکن علم و اعتماد کی کمی اس کے پیروں زنجیر بن گئی ہے ۔ آج بھی اگر اسلامی نظام ِ سیاست کو شرح وبسط کے ساتھ پیش کیا جائے تو لوگ اس پر توجہ دے کر اسے اپنا سکتے ہیں ۔ اسی میں طلاق ثلاثہ و یو اے پی اے اور جموں کشمیر جیسے مسائل کا حل اورعالم انسانیت کی فلاح و کامیابی مضمر ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.