جب سے ملک میں پاکستان تحرہک انصاف برسراقتدار آئی ہے اور
عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تب سے ملک میں تبدیلی کا عمل جاری ہے اور یہ
عمل حکومت کے اندر بھی چل رہا ہے وزارتوں میں تبدیلی، اکھاڑ پچھاڑ موجودہ
حکومت کا معمول ہے اپنی حکومت کے پہلے سال میں وزیراعظم عمران خان نے کئی
وزراء سے وزارتوں کے قلمدان واپس لیے یا ان میں تبدیلی کی وزیراعظم عمران
کئی بار کہہ چکے ہیں کہ کابینہ میں ردوبدل آئندہ بھی ہوگا کسی وزیر کو
وزارت کا قلمدان مستقل نہیں دیا گیا وزراء کی کارگردگی جانچنے کا عمل جاری
رہے گا جو وزیر ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا اسے وزارت سے علیحدہ کردیا
جائے گا اوہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ وزراء اپنی پروموشن کرنے کی
بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔پی ٹی آئی کی حکومت میں اب تک چھ
سات وفاقی وزراء کو غیرتسلی بخش کارکردگی یا دیگر وجوہات پر کابینہ سے فارغ
کیا گیا یہ بھی پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہے ورنہ ہمارے ملک میں
حکمران ،وزراء ناقص کارگردگی اور عوام کے مطالبات کے باوجود بھی استعفیٰ
نہیں دیتے تھے عہدوں سے چمٹے رہتے زیادہ دور کی بات نہیں سابق وفاقی وزیر
خزانہ اسحاق ڈار کرپشن کے الزامات میں ملک سے بھاگ گئے عدالتوں سے اشتہاری
ہونے کے باوجود جناب نے استعفیٰ دینا گوارا نہیں کیا بحرحال وزیراعظم عمران
خان نے ملک میں یہ روایت ڈالی ہے کہ وزراء کو کارگردگی دکھانا پڑے گی ورنہ
وزارت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔اﷲ کرے ہمارے حکمرانوں اور وزراء میں اپنی ذمہ
داریوں کا احساس پیدا ہوجائے کہ انھیں ملک اور عوام کی خدمت کرنی چاہیے
ورنہ ماضی میں حکمرانوں کوئی پوچھ نہیں سکتا تھا گزشتہ دنوں ایک تقریب کے
دوران مشیراطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم کے دائس کے قریب
جانے کی کوشش کی تو انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا جس پر ایک سیکیورٹی
اہلکار ڈاکٹر فردوس عاشق کو سٹیج کے دوسری طرف لے گیا یہ علم نہیں ہو سکا
کہ ڈاکٹر فردوس عاشق وزیراعظم کے ڈائس کے قریب کیوں جانا چاہتی تھیں اور
وزیراعظم نے ناراضگی کا اظہار کیوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد وزیراعظم عمران
خان اپنی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کی کارگردگی سے مطمئن نہیں ہیں اس
بارے میں سیاسی حلقوں کے اندر مختلف رائے کا اظہار کیا جارہا ہے مذکورہ
واقعہ کے ایک دو دن پہلے مشیراطلاعات نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی
ہونے کی ٹوئیٹ کی تھی جس کے بارے وزارت خزانہ کی طرف سے تردید پر
مشیراطلاعات نے اپنی ٹوئیٹ واپس لے لی تھی اسی طرح محترمہ نے وزیراعظم کی
پالیسی اور ویژن کے برعکس نیب کے حوالے تنقید کی تھی کہ اس ادارے کیوجہ سے
کاروباری لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے حالانکہ وزیراعظم کی طرف سے
بارہا نیب کی کارکردگی کو سراہا گیا کیونکہ نیب کا کام کرپشن کی روک تھام
ہے کرپشن جہاں ہوگی اس کے خلاف نیب کو کاروائی کا اختیار ہے کاروباری
اداروں کی سرگرمیوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں لیکن کسی پس منظر میں
مشیراطلاعات کی غلط تشریح سے نیب کی کارگردگی پر حرف آیا وزیراعظم کا مشیر
اطلاعات کا منصب ایک اہم ذمہ داری ہے اس میں بڑی احتیاط اور انتہائی ذمہ
داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے اس میں کسی کوتاہی اور غلط کی گنجائش نہیں
ہوتی کیونکہ اس کے نتیجے میں مشیراطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کی کارگردگی
متاثر ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے انھوں نے
جنرل برویز مشرف کے مارشل لاء دور میں سیاست شروع کی اور پہلی بار مخصوص
نشست پر تحصیل کونسل کی ممبر بنی تھیں اور صرف ایک بار عام انتخابات میں
پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتحب ہوئیں جب پیپلز پارٹی کو
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی ہمدردی کا ووٹ ملا تھا بعد ازاں ڈاکٹر فردوس
عاشق کو دو بار عام الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی خوش
قسمتی ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں عوام کی طرف سے مسترد ہونے کے باوجود پی
ٹی آئی حکومت میں انھیں وزیراعظم کا مشیر اطلاعات مقرر کردیا وزارت اطلاعات
و نشریات محترمہ کی پسندیدہ وزارت ہے کہ اس میں نمود ونمائش اور مشہوری کے
زیادہ مواقع ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ محترمہ ہر ہفتے کی شام سیالکوٹ پہنچ
جاتی ہیں اور وہاں پریس کانفرنس کے نام پر اپنے من پسند چند صحافیوں اور
اپنے گاؤں اور حلقے کے لوگوں کو جمع کرکے کھانا وغیرہ کھلا کر اپنی ذاتی
سیاسی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ ان کا منصب اور ذمہ داری
ہے کہ وہ اپنی ذاتی شخصیت کو مضبوط بنانے کی بجائے حکومت کی کارگردگی
بڑھانے کی کوشش کریں اس حوالے سے ان کی کارگردگی زیادہ قابل تعریف نظر نہیں
آتی ۔ سیالکوٹ کے صحافیوں میں گروپ بندی ہے اور سیالکوٹ پریس کلب سیل ہے جس
کیوجہ سے صحافیوں کو اپنے صحافتی امور ادا کرنے میں مشکلات پیش ہیں محترمہ
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے شہر کے صحافیوں میں
پائی جانے والی گروپ بندی اور اختلافات ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتیں
لیکن اس کے برعکس انھوں نے الیکٹرانک میڈیا کے چند نمائندوں کو اہمیت دی
اور مقامی صحافیوں میں تفریق اور تقسیم پیدا کی اپنی پریس کانفرنس میں
الیکٹرانک میڈیا کے چند مخصوص نمائندوں کو ہی مدعو کرتی ہیں جبکہ اکثر
صحافیوں خاص طور پر پرنٹ میڈیا کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے ہیں جو ان
کے عہدے اور فرائض منصبی کیخلاف ہے ۔ دوسری طرف آئے روز یہ اطلاعات آتی ہیں
کہ فلاں اخبار یا چینل سے صحافیوں کو نوکری سے نکا ل دیا گیا ہے جس سے
سینکڑوں صحافیوں کا روزگار متاثر ہورہا ہے ضرورت اس امر کی تھی کہ مشیر
اطلاعات حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے میڈیا مالکان ،ا داروں اور صحافیوں کے
درمیان معاملات حل کرانے کی کوشش کرتیں ان کی اس کاوش سے جہاں صحافیوں میں
ان کی قدر بڑھتی اور یقینی طور پر اس طرح ان کے منصب اور وقار میں اضافہ
ہوتا اور کی کارگردگی بڑھتی۔ مشیراطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کا اس طرح کے
کاموں میں عدم دلچسپی اور عدم تعاون کا رویہ بھی ان کی کارگردگی پر
اثرانداز ہورہا ہے جو کہ وزیراعظم کے ویژن اور پالیسی کے خلاف ہے یقینی طور
پر جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وزراء کو اپنے عہدوں پر برقرار
رہنے کے لیے کارگردگی دکھانا ہوگی اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے مشیر اطلاعات
کو بھی اپنی کارگردگی دکھانے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یقینی طور پر
وزیراعظم عمران خان اپنے دیگر وزراء کیساتھ اپنی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس
عاشق کی کارگردگی سے بھی آگاہ رہتے ہونگے اور وہ ان کی کارکردگی کی بنیاد
پر آئندہ بھی کابینہ میں رد و بدل بھی کرسکتے ہیں-
|