حضرتِ اقبالؓ نے رَبّ ِ لَم یزل کے حکم کو شعری قالب
میں ڈھالتے ہوئے فرمایا
خُدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہماری معاشی، معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
معاشی طور پر تباہ حال معاشرت مستعار لی ہوئی، فرقوں میں بٹا ہوا مذہب اور
اخلاقی پستیوں کے نمونے سیاسی جماعتوں نے جابجا بکھیرے ہوئے۔ جنہوں نے درسِ
خودی و خودداری دینا تھا، وہ خود اخلاقی پستیوں کا شکار۔ سروں پردشمن کی
لٹکتی تلوار اور ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں پر ۔ تاریخ میں درج کہ
جب ہلاکو خاں بغداد کی فصیلوں پر کمندیں ڈال رہا تھاتو بغداد میں پانچ سو
جگہوں پر ایسے ہی مناظرے ہو رہے تھے جیسے آجکل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر۔
بغداد کا حشر تاریخ کے صفحات میں محفوظ مگر بات وہی ’’تاریخ کا سبق یہ کہ
تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا‘‘۔
آج سے پانچ دن بعد ہم یومِ دفاع بڑے تزک واحتشام سے منا رہے ہوں گے۔ یہ وہی
دن ہے جب بزدل بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا۔ اُس وقت
صدر ایوب خاں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’دشمن کو نہیں معلوم کہ اُس نے
کس قوم کی غیرت کو للکارا ہے۔ بڑھو اورکلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے میدان
میں کود جاؤ، اﷲ تمہارا حامی وناصر ہو‘‘۔ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی
اور ہر محاذ پر بھارت کو دنداں شکن جواب دیا۔ اِس جنگ میں قوم کو ایک صفحے
پر لانے کا سہرا ایوب خاں کے سر تھاجنہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو
ایوانِ صدر آنے کی دعوت دی اور اُن کا بھرپور استقبال کیا۔ایوب خاں نے اپنے
شدید ناقد سیّد مودودی سے درخواست کی کہ وہ جہاد کا اعلان کریں۔ سیّد صاحب
نے ریڈیو پر اعلانِ جہاد کیا جس پر پوری قوم جذبۂ شوقِ شہادت میں سَربکف ہو
گئی۔ آج معاملہ مگر مختلف ۔۔۔۔۔ بالکل مختلف۔
26 اگست کو قوم سے خطاب سے ذرا پہلے وزیرِاعظم نے اپوزیشن کو اُنہی الفاظ
میں یاد کیا جو اُن کی فطرتِ ثانیہ بن چکے ہیں حالانکہ جنگ کے گہرے ہوتے
سایوں میں ایسے الفاظ کے استعمال کی ضرورت تھی نہ موقع۔ غلام اسحاق خاں
انسٹی ٹیوٹ صوابی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا ’’مجھے لوگ
کہتے ہیں عمران خاں نے بڑے یوٹرن لیے ہیں لیکن میں کہتا ہوں ، یہ کیسا کمال
یوٹرن ہے کہ میں یوٹرن لیتے لیتے وزیرَاعظم بن گیا اور میرے مخالف جیلوں
میں ہیں۔ میرے مخالفین صرف ایک چیز چاہتے ہیں، این آر او لیکن جس دن میں نے
اِن کو این آر او دیا، میں اپنے وژن پر سمجھوتہ کر جاؤں گا‘‘۔ پتہ نہیں خاں
صاحب کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ این آر او ہمہ مقتدرآمر پرویز مشرف نے دیا
جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیرآئینی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کر دیا۔
اب اگر کوئی شخص، خواہ وہ صدر، وزیرِاعظم یا آرمی چیف ہی کیوں نہ ہو، کسی
کو این آر او دیتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق غیرآئینی ہے۔ پھر
بھلا کوئی خاں صاحب سے این آر او کیوں مانگے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ
عمران خاں کی سیاسی جدوجہد یوٹرنوں سے بھری پڑی ہے۔ جنہیں وہ چور، ڈاکو،
لٹیرے، چوکیدار اور دہشت گرد کے القابات سے نوازا کرتے تھے، آج وہی تحریکِ
انصاف کے صفِ اوّل کے رَہنماء ہیں۔ ایک سلگتا ہوا سوال یہ کہ جس ریاستِ
مدینہ کی تشکیل کا وہ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں کیا چودہ سو سال پہلے کی
ریاستِ مدینہ کے کسی امیرالمومنین نے یوٹرن لیا؟؟؟۔ اگر نہیں تو پھر یوٹرن
کا بادشاہ کیسے ریاستِ مدینہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ویسے بھی ریاستِ مدینہ کی
تشکیل تو تبھی ممکن ہے جب ہم اندرونی وبیرونی محاذ پر افہام وتفہیم اور
قومی وملّی یکجہتی کی فضا پیدا کریں لیکن یہاں صورتِ حال یہ کہ اپوزیشن کا
نام سنتے ہی وزیرِاعظم آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔ جب عدلیہ سے مَن مرضی کے
فیصلے لینے کے لیے ججز کو واٹس ایپ پر تبدیل کیا جا رہا ہو تو پھر قومی
یکجہتی کی خواہش احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف۔ اے این ایف گزیدہ رانا
ثناء اﷲ کی درخواست ضمانت کی سماعت کرنے والے جج کو عین اُس وقت ’’واٹس
ایپ‘‘ کے ذریعے تبدیل کر دیا گیا جب وہ فیصلہ سنانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
وزیرِاعظم کوذرا رُک کر اپنی اداؤں پر غور کرنا ہو گا کہ وقت کا تقاضہ
افہام وتفہیم ہے، انتقام نہیں۔
26 اگست کو وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ’’دنیا ساتھ دے
نہ دے ہم کشمیر کے ساتھ ہیں۔ کشمیر کی آزادی تک لڑیں گے‘‘۔ حقیقت مگر یہ کہ
کشمیر کا مسٔلہ اب جس نازک موڑ پر آگیا ہے، وہ جس توجہ اور سنجیدگی کا
تقاضہ کرتا ہے، حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔ اُنہیں شاید ادراک ہی نہیں کہ
آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کا معاملہ بہرحال طے
ہونا ہے اور اونٹ کسی نہ کسی کروٹ بیٹھنا ہے۔ بھارت اپنی خباثتوں کو بروئے
کار لاکر مقبوضہ کشمیر کو تواپنا اٹوٹ انگ بنا چکا، اب بھرپور جواب دینے کی
ہماری باری ہے۔ بدقسمتی سے اِس معاملے میں پاکستان عالمی تنہائی کا شکار
نظر آتا ہے۔ چین، ترکی اور ایران کے سوا کسی ملک نے بھی ا،س بھارتی اقدام
کی مذمت نہیں کی۔ 65ء کی جنگ میں چین اور پورا عالمِ اسلام دامے، درہمے،
قدمے، سخنے، پاکستان کے ساتھ تھا لیکن مسلم اُمّہ کا وہ بُت جس کی ہم عشروں
سے پوجا کرتے چلے آرہے ہیں، خاموش تماشائی۔ یہی نہیں بلکہ عین اُس وقت جب
کشمیر لہو لہان ہے، عصمتیں لُٹ رہی ہیں، گھر اُجڑ رہے ہیں، اسرائیل سے
درآمد شدہ پیلٹ گنوں سے کشمیری اندھے ہو رہے ہیں اور کرفیو کی بنا پر پورا
مقبوضہ کشمیر جیل میں ڈھل چکا ہے، یو اے ای اور بحرین نے نریندر ’’موذی‘‘
کوملک کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔ جواباََ ’’موذی‘‘ نے یو اے ای کا
کشمیر پر بھارتی مؤقف کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ افسوس ہے تو اِس بات پر
کہ اِس خطّے کو ذاتی مصلحتوں کا گھُن چاٹ چکا۔
وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب میں کہا ’’اگر آج کچھ اسلامی حکومتیں ہمارے ساتھ
نہیں بھی ہیں تو اُن کی تجارتی مجبوریاں ہیں، کل وہ بھی ہمارے ساتھ ہوں
گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومتوں نے پہلے کون سے تیر مارے جو اب مار
لیتیں؟۔ کیا اُس وقت ہماری حکومت سوئی ہوئی تھی جب او آئی سی کی بیٹھک میں
سشما سوراج آکر بیٹھ گئی؟۔ جب او آئی سی نے مکّہ ڈیکلیریشن سے کشمیر کا ذکر
نکالا تو کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں تھی؟۔ سات عشروں سے ہم
تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی حکومتیں فلسطین ہو یا کشمیر، شام ہو یا
لبنان، عراق ہو یا یمن، بس مگرمچھ کے آنسو ہی بہاتی ہیں اور اب تو خیر سے
آپس میں ہی جوتم پیزار۔
پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان کو اِس
بھارتی اقدام کی سُن گُن مل چکی تھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر عالمِ اسلام کو
اعتماد میں لے کو ’’گونگلوؤں‘‘ سے مٹی ہی جھاڑ لیتے ۔ جب یو اے ای کے سلطان
کا پاکستان آمد پر’’ریڈ کارپیٹڈ‘‘استقبال کیا گیا، اکیس توپوں کی سلامی دی
گئی، گارڈ آف آنرپیش کیا گیااور ہمارے وزیرِاعظم بنفس ِ نفیس ’’مہمانِ
اعلیٰ‘‘ کی گاڑی کے ڈرائیور بن کر اُنہیں وزیرِاعظم ہاؤس لے کر گئے، تب کیا
صرف چند ٹَکوں کی ’’بھیک‘‘ مقصود تھی۔جب ہمیں تین سالوں کے لیے اُدھار تیل
مل رہا تھا تب ہم خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے۔ ہمارے وزراء سینے تان کر اپنی
کامیابیوں کے ترانے سنا رہے تھے۔ کیا اُس وقت کسی نے اُدھار تیل دینے والے
’’شہنشاہِ معظم‘‘ کے کان میں کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھن جانے کی
سرگوشی کی؟۔ ہمیں تو بھیک درکار تھی جو اسلامی ممالک نے کٹورے بھر بھر کر
دی۔ بھیک ہمیں مل چکی، پھر شور کیوں، گلہ کیسا؟۔ آخر ہم یہ تسلیم کیوں نہیں
کرتے کہ ہمیں صرف بھیک چاہیے خواہ وہ کسی بھی در سے ملے، کسی گھر سے ملے۔
وزیرِاعظم اسلامی حکومتوں کے بارے میں کہتے ہیں’’کل وہ بھی ہمارے ساتھ ہوں
گی‘‘۔ صاحب! سیانے کہہ گئے ’’آج کا کام کل پر مت چھوڑو‘‘ لیکن جب سے آپ نے
وزارتِ عظمیٰ سنبھالی ہے، قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر کل پر ہی
ٹرخایا جا رہا ہے۔ کبھی 1oo دنوں میں قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے، کبھی 50
لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کی نوید، کبھی بیرونی ممالک میں پڑے ہوئے
200 ارب ڈالروں کی واپسی کے دعوے، کبھی ٹیکس کولیکشن کو آسمان کی بلندیوں
پر پہنچانے کا عزم اور کبھی ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی تشکیل کی بڑھکیں لیکن ہوا
سب اُلٹ اور سارے خواب چکناچور۔ آج معیشت برباد ، مہنگائی کا عفریت مفلسوں
کو نگلتا ہوا، ڈالر ساری حدیں توڑ چکا، سٹاک مارکیٹ کریش کر چکی، سونا 90
ہزار فی تولہ کی حدوں کو چھونے لگا اور زندہ رہنے کی ساری راہیں مسدود ہو
چکیں۔ اِس کے باوجود بھی قوم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا لیکن کشمیر
پر دیا جانے والا ’’لولی پاپ‘‘ قوم کو کسی صورت قبول نہیں، ہرگز قبول نہیں۔
اب عمل کی گھڑی ہے اور حکمرانوں کو عملی طور پر کچھ کر گزرنا ہوگا۔ جب
ایٹمی دھماکہ کرنے یا نہ کرنے پر میاں نوازشریف گومگو کی کیفیت میں تھے تو
مجید نظامی مرحوم نے اُنہیں کہا ’’میاں صاحب! ایٹمی دھماکہ کر دیں، نہیں تو
قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی‘‘۔ آج بھی قوم کے جذبات کی وہی کیفیت ہے۔ جس سے
پوچھو، یہی کہتا ہے کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ خود وزیرِاعظم
نے کہا تھاکہ وہ بہادرشاہ ظفر نہیں، ٹیپو سلطان کی تاریخ دہرائیں گے۔ یاد
رہے کہ ٹیپو سلطان نے کہا تھا ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی
زندگی بہتر ہے‘‘۔ جب قوم کا عزم یہی اور آپ بھی ’’ٹیپوسلطان‘‘ بننے کو تیار
تو پھر ڈر کاہے کا۔ |