تحریر
بابرالیاس (قلمدان )
عنوان ..واقعہ معراج ( حصہ سوم ) آخری
وسلم)قرآن و حدیث اور جدید سائنس کی روشنی میں
اسراءاور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا ہے، تاریخ
پر ایسے دوررس اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی
وسعت حاصل ہوئی ہے۔ چودہ سو سال بعد ذہنِِ انسانی کے ارتقاءنے سائنس اور
ٹیکنالوجی کی ترقی کے سہارے معراج اور اس سے متعلقہ واقعات کو ایسی حقیقت
میں تبدیل کردیا ہے جو ناقابلِ تردید ہے۔ عہد ِ حاضر کا انسان ان کے ماننے
میں جھجک اور پس و پیش کا شکار نہیں۔ یہی باتیں جب مخبر ِ صادق صلی اللہ
علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور
بعید از ممکنات تھیں۔آج ہم گھر بیٹھے ٹیلی فون کے ذریعے یورپ و امریکہ میں
مقیم اُن عزیز واقارب سے باتیں کرتے ہیں جو ہزاروں میل دور بستے ہیں۔
مواصلاتی سیاروں کے ذریعے دوسرے براعظموں میں ہونے والے کرکٹ اور ہاکی کے
میچ ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں۔ نیویارک میں ایک سو دو منزلہ امپائر اسٹیٹ کی
فلک بوس عمارت میں لفٹ کے ذریعے منٹوں میں اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچ جاتے
ہیں۔نیل آرمسٹرانگ کے چاند کی سطح پر پہنچ کر بلندیوں سے کرہ ارض کی
خوبصورتیوں کے بیان پر کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارا
یقین متزلزل ہوتا ہے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی قیامت خیز
ہولناک تباہیوں کو ثابت کرنے کے لیے کسی عینی شاہد کی ضرورت نہیں ہوتی
کیونکہ آج کا انسانی ذہن ان تمام باتوں سے مانوس ہے۔ بہ اندازِ دیگر یہی
باتیں چودہ سو سال پہلے اُمّی لقب، معلم کتاب و حکمت اور مخبر ِ صادق نے
سنائیں تو دنیا ماننے کو تیار نہ تھی۔ وحی، براق، اسراء، معراج، قیامت،
حساب و کتاب، جزا و سزا، جنت دوزخ وغیرہ وغیرہ تو یہ سب باتیں ناقابلِِ فہم
اور ناقابلِِ یقین تھیں۔ اللہ کا وہ آخری نبی جو نذیر و بشیر بن کر اِس
دنیا میں آیا اُس کی باتوں کی صداقت، کلام کی بلاغت، ارشاد کی حکمت کی
تصدیق کرنے کے لیے کسی بالغ نظر ابوبکرؓ کی ضرورت تھی، یا پھر سائنس اور
ٹیکنالوجی کی ترقی کی، کہ زمانہ قرآن اور ارشادات ِ نبوی کی تصدیق کرتا
جارہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج انسانی تاریخ کا اچھوتا اور
محیرالعقول واقعہ ہے۔ یہ واقعہ کس مہینے میں ہوا، قطعیت سے کچھ نہیں کہا
جاسکتا۔ سیرت نگاروں کا عام رجحان یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال یا ڈیڑھ سال
پیشتر یہ واقعہ پیش آیا، وہ پیر کا دن اور رجب کی ستائیسویں تاریخ تھی۔
قرآنِ پاک میں تین مقامات پر اس واقعہ کا ذکر ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی
آیت ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚإِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١﴾
”پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کوسیر کرائی، مسجد ِ حرام (مکہ)
سے مسجد ِ اقصیٰ (بیت المقدس) تک ، اس کے اطراف کو ہم نے بڑی برکت دی ہے،
تاکہ اپنی نشانیاں اسے دکھائیں۔ بلاشبہ وہی ذات ہے سننے والی اور دیکھنے
والی۔“
دوسرا اشارہ اسی سورت کی 60ویں آیت اور تیسرا سورہ نجم کی آیات میں ہے۔
مفسرین اور محدثین کے نزدیک جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے
وقت مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک براق کا سفر ”اسراء“ کہلاتا ہے۔ مسجد ِ
اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف سدرة المنتہیٰ تک کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے۔
اس موقع پر عام طور سے ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ معراج بحالت ِ جسم
تھی یا بحالت ِ خواب؟ سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود
اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ
کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا
رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و
مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کے لیے
نسبتاً آسان ہے۔
بیت الحرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا
جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے براق پر کیا۔ براق، برق
(بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی
ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ
تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض
سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ
کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا
مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب
واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس جانب حکیم الامّت علامہ اقبال نے اشارہ
کیا ہے
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب
میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو
نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔ عام روایت کے
مطابق حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چچازاد بہن اُمِّ ہانی کے گھر
تھےاور بعض روایات میں حطیم کا ذکر ہے کہ آپ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ صبح آپ نے
اپنی چچا زاد بہن سے اس بات کا تذکرہ فرمایا۔ اس نے حیرت انگیز اور ناقابلِ
یقین واقعے کو سن کر آپ کی چادر پکڑ کر روکا اور عرض کیا کہ خدارا اسے
لوگوں کے سامنے بیان نہ فرمائیے، وہ اس کا مذاق اڑائیں گے۔ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے پُرعزم لہجے میں فرمایا: میں ضرور بیان کروں گا۔ یہ عزم خود
اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ معراج بحالت ِ جسم و جاں ہے۔ پیغمبرِ آخر
الزماں کے مشاہدات ِ معراج میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جن کا فیصلہ روزِ
جزا پر منحصر ہے، یعنی دنیوی اعمال کی جزا و سزا۔ قیامت سے پہلے انہیں آپ
کو ممثّل کرکے دکھلایا گیا۔ اس سے باری تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ جن چیزوں
کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اور نذیر بناکر بھیجے گئے
ہیں ان کے عینی گواہ بن جائیں۔
مختصراً تفصیلات ِ معراج میں ایک اہم واقعہ جملہ انبیاءکی جماعت کی امامت
کا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ میں یہ نماز پڑھائی گئی۔ بعض روایتیں ہیں کہ یہ معراج
(آسمانی سفر) سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں، اس گھر کے
متولی رسول ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام انبیاءنے (حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ
تک) مسجد ِ اقصیٰ میں جمع ہوکر رسولِ آخریں کا استقبال کیا۔ تمام پیغمبروں
نے مل کر اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پذیرائی فرمائی کہ اب آپ اللہ
تعالیٰ کی ملاقات کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ جنہوں نے لکھا ہے کہ انبیاءکی
امامت کا شرف آپ کو معراج سے واپسی کے بعد پیش آیا، ان کی دلیل یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ سے ملاقات نے آپ کا شرف اتنا بلند کردیا کہ امام
الانبیاءبنادیا ۔ معراج کے سفر میں سید الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام
رفیق سفر تھے۔ ہر آسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور ہر
آسمان میں ان انبیاء علیہم السلام سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین
آسمان میں ہے ۔چھٹے آسمان کی سیر کرواتے ہوئے جب ساتویں آسمان پر پہنچے تو
اس آسمان کے عجائبات ہی کچھ اور تھے۔ یہاں فرشتوں کا کعبہ بیت المعمور ہے
جو کعبة اللہ کے عین اوپر واقع ہے۔ ایک وقت میں ستّر ستّر ہزار فرشتے اس کا
طواف کرتے ہیں اور ان کی دوبارہ طواف کی باری نہیں آتی ۔ یہاں حضرت ابراہیم
علیہ السلام ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ سیدالملائکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ان سے تعارف آپ کے جدامجد کہہ کر کروایا۔ یہاں سے آپ بلند ہوئے تو
سدرة المنتہیٰ پر آئے جو ایک بیری کا درخت ہے، اس کی جڑ ساتویں آسمان پر ہے
اور یہ بہت بلند ہے۔ سدرة المنتہیٰ عالمِ خلق اور رب السموٰت والارض کے
درمیان حدِّفاصل ہے۔ اس مقام پر تمام خلائق کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے
آگے جو کچھ ہے وہ عالم الغیب ہے جس کی خبر نہ مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی
پیغمبر کو۔ نیچے سے جو کچھ آتا ہے یہاں وصول کیا جاتا ہے۔ اور اوپر سے جو
کچھ صادر ہوتا ہے وہ بھی یہاں وصول کرلیا جاتا ہے۔ اسی مقام پر جنت الماویٰ
ہے جس کا سورہ نجم میں ذکر ہے۔ صاحب المعراج کو جنت الماویٰ کا مشاہدہ
کروایا گیا۔ اس میں وہ تمام نعمتیں تھیں جنہیں کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ
کسی کان نے سُنا۔اسی طرح دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔اسی جگہ آپ نے حضرت
جبرئل کو ان کی اپنی اصلی شکل میں دیکھا اور 50 نمازیں بھی فرض ہوئیں۔ یہ
خوشخبری بھی ملی کہ شرک کے سوا تمام گناہوں کی بخشش کا امکان ہے۔وغیرہ
وغیرہ
اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا، آپ(ﷺ) براق پر سوار مکۃ المکرمہ تشریف
لائے، اس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، سب سے پہلے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)
نے اس کا ذکر ام ہانیؓ سے کیا، احتیاطاً کہنے لگیں کہ یہ اس قدر عجیب واقعہ
ہے آپ(ﷺ) اس کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ ورنہ کفار تمسخر اڑائیں گے، لیکن خانہ
کعبہ میں نماز کے بعد وہی ہادی برحق، صادق و امین سردار انبیاء اٹھا اور
رات کو پیش آنے والے اس واقعہ کا اعلان کر دیا۔ کفار یہ سن کر ہنسنے لگے،
تمسخر اڑانے اور تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وہ آپ(ﷺ) کے پیچھے
پیچھے آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو(نعوذ باللہ) حضرت محمد(ﷺ) بہک گئے
ہیں، نعوذ باللہ کافروں کی ان باتوں کا کچھ اثر بعض کم عقل مسلمانوں پر بھی
ہوا اور کسی نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بہکایا اور بولا دیکھو تمہارا دوست
کیا کہہ رہا ہے کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک
رات میں اتنے لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر
صدیقؓ نے جو جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے،
آپؓ نے فرمایا کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات
مانتا ہوں کیونکہ حضرت نبی اکرم(ﷺ) ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
آپ(ﷺ) کے پاس آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام
اور وحی بھی لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرم(ﷺ) نے آپؓ
کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
یہ واقعہ معراج النبی(ﷺ) کا ایک اجمالی تعارف تھا، لیکن یہ بحث صدیوں سے اب
تک چل رہی ہے کہ معراج جسمانی تھا یا کہ ایک خواب تھا کیا یہ حضور نبی
اکرم(ﷺ) کا روحانی سفر تھا، پختہ ایمان والوں کیلئے اس میں کوئی الجھن نہیں
رہی اور وہ صدیق اکبرؓ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ معراج کو حضور نبی اکرم(ﷺ)
کا شعور کی حالت میں جسمانی سفر مانتے ہیں اور واقعہ معراج النبی(ﷺ) کو دین
کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ مشکل ان حضرات کی ہے جو اس واقعہ کو اپنی ناقص عقل سے
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں لگاتے کہ وہ کس
قدر عالم، سائنس دان یا عقلمند ہیں۔
معراج اور جدید سائنسی تحقیقات
موجودہ صدی میں یوں تو بہت سے سائنسی نظریات پیش ہوئے مگر ان میں سب سے
زیادہ معروف نظریہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت (Theory of Relativity)
کہلاتا ہے ۔اس نظریے کی آمد نے کائنات اور قوانین کائنات کے بارے میں ہمارے
اندازِ نظر کو ایک نیا زاویہ بہم پہنچایا اور ہمارے ذہن کو وسعت دی۔
جب کبھی وقعہ معراج کا تذکرہ ہوتاہے تو ہمارے یہاں سائنسی حلقوں سے لے کر
علمائے کرام تک اسی نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا
معراج پر جانا اور ایک طویل مدت گزار کر واپس آنا،مگر آپ ﷺ کی غیر موجودگی
میں زمین پر وقت کا نہ گزرنا نظریہ اضافیت سے ثابت ہوتا ہے۔مگر میں ا س سے
اتفاق نہیں کرتا ۔ اس کی ٹھوس دلیل چند سطور کے بعد پیش کروں گا۔تاہم پہلے
نظریہ اضافیت سے کما حقہ تعارف حاصل کرلیا جائے تاکہ طبیعات سے تعلق رکھنے
والوں کے ذہن میں نظریہ اضافیت کے نکات تازہ ہوجائیں اور ایک عام قاری کے
لیے نظریہ اضافیت کو سمجھنا آسان ہوجائے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس
دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی
ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت
کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو
فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا
ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو
سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔
یہ نظریہ دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ " نظریہ اضافیت خصوصی"(Special
Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ " نظریہ اضافیت عمومی "
(General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ
اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین
لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ)سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلا
ء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین
پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا
عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف
پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر
پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک
طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر
گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن
بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت
سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو
سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں
اسے " جڑواں تقاقضہ" (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب
خصوصی نظریہ اضافیت "وقت میں تاخیر" (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا
ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب
پہنچنےلگے تو وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی
یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو
زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔
اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا
ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر
ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے
جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے
ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ
مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺ چھوڑ کر
گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔اگر
خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش
کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں کئی
برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی "عمومی نظریہ اضافیت " ہمارے سوا ل کا
تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور
خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی
مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے
۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی
،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی )سے تعبیر کرتےہیں ،جب کہ ایک جہت زمانی ہے
جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک
چادر (Sheet)کے طور پر پیش کیا ہے ۔
تمام کہکشائیں ،جھرمٹ ،ستارے ،سیارے ،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی
اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے
تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت
بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی
بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا
جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس
قدر محدود ہے ۔
یہاں آکر ہم ایک نقطہ اٹھائیں گے اوروہ یہ کہ کیا کائنات صرف وہی ہے جو
طبعی طو ر پر قابلِ مشاہدہ ہے ؟ایسی دیگر کائناتیں ممکن نہیں جو ایک دوسرے
سے قریب ،متوازی اور جداگانہ انداز میں پہلو بہ پہلو وجود رکھتی ہوں ؟
اس کاجواب ہے " ہاں"
لیکن اگر ایسا ممکن ہے تو پھر ہم ایسی دیگر کائناتوں کا مشاہدہ کیوں نہیں
کر پاتے ؟اس بات کی وضاحت ذرا سی پیچیدہ اور توجہ طلب ہے ۔اس لیے یہاں ہم
ایک اور مثال کا سہارا لیں گے جس سے ہمیں اپنی محدود یت کا صحیح اندازہ ہو
گا۔
کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ،اپنی کتاب
"کائنات" (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی
( Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔
انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں
یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ
نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی
یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی
ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات
ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو
آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ
آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔
سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر
دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ
سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف
زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق
کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں "غائب "
ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق
اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور
جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا
تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو
جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو
بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے
ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے
قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام
کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا
ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق
صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم
وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل
طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر
نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے
ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ
کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ
زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے
انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات
میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی
ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی
طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی
نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ ﷺ معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب
آنحضرت ﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے
تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر
والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔
راقم کی ناقص رائے میں واقعہ معراج کی دلیل کے طور پر " روشنی کی رفتار سے
سفر"کے بجائے مختلف زمان ومکان کے مابین سفر والا تصور زیادہ صحیح ،اور
سائنسی ابہام سے پاک ہے جس کی مدد سے خصوصی نظریہ اضافیت کے تحت پیدا ہونے
والے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا جاسکتا ہے۔
واقعہ معراج پر اعتراضات
واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ
ایک انسان کس طرح کھربوں میلوں کا فاصلہ یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک
او رپھر زمین سے آسمانوں تک ، اور پھرسدرۃ المنتہیٰ تک چشم میں زدن میں طے
کرکے واپس آجائے اور بستر بھی گرم ہو اور دروازے کی کنڈی بھی ہل رہی ہو اور
وضو کا پانی بھی چل رہا ہو۔
ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے
لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز
ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت
ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر
انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس
حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی
سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔
اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود
ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور
ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو
بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر
یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر
موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔
ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے
دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن
اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی
سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔
آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ
دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور
اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی
کی رفتار سے زیادہ ہو۔
ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے
شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر
یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور ﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکے ۔
اعتراضات کا جواب
مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے
اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور
ﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم
رؤیا میں آپ ﷺ نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ
فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے معنی خواب کے
نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم
کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام
مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ
اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات
اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی
چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار
کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق
کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان
اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود
طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
مزید بحث میں پڑنے سے پہلے چند ضروری باتیں واضح کردی جائیں تو مسئلے کو
سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ آئن سٹائن کے مطابق مادی شے کے سفر کرنے کی آخری
حد روشنی کی رفتار ہےجو 186000 (ایک لاکھ چھیاسی ہزار)میل فی سیکنڈ ہے
دوسری رفتار قرآن حکیم نے امر کی بتائی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات
سےگزر جاتی ہے ۔
چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴿ القمر: 50﴾
" اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic
Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے
میں سے بغیرٹکرائے گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور
نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ
رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم
ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں سرن لیبارٹری میں
تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات
سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)
ایک اور بات یہ ہے کہ ایٹم (Atom) کے مرکز کے گرد الیکٹرون چکر لگارہے ہوتے
ہیں ،ان دونوں کے درمیان مادہ نہیں ہوتا بلکہ وہاں بھی خلا موجود ہوتا
ہے۔ایک اور ذرےکے بارے میں تحقیق ہورہی ہے جس کانام (Tachyon) ہے اسکا کوئی
وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن تھیوری (Theory)میں اس کا ہوناثابت
ہے۔یہ ہیں مادے کی مختلف اشکال اور ان کی رفتاریں۔
جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی
بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے
پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی
سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے
۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس
چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک
جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا
ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے
لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو
۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور
جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے
گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی
ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔
بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ
دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے
اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف
میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت
ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر
بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی
ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک میں فرمایا:
قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا
إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم
بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ
اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ
إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا
تُبْصِرُونَ ﴿ القصص: 72 تا 71﴾
"آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو
مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ
کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا
ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ"
تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب
انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی
طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول ﷺ شب معراج
میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے
والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی
تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ
اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ
ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ
کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان ازروئے
قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے
کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔
حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا
اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں
آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا؟
علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے
ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی
وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی
چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ
ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے
کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں،
وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر
چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی
حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے
بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے
لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات
کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ
علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی
تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے
اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں
آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔
کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل
تھا؟ جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سفرِ معراج سے واپس ہوئے تو معطل
نظام پھر سے روبہ عمل ہوگیا۔ بستر کی گرمی جہاں بند ہوئی تھی پھر سے محسوس
ہونے لگی، پانی بہنا جس مقام پر رُک گیا تھا وہاں سے جاری ہوگیاکنڈی جس
زاویے پر ہلنے سے تھم گئی تھی اس سے حرکت میں آگئی، جیسے کرنٹ کے آف ہوتے
ہی تمام کام رُک گئے تھے اور آن ہوتے ہی حرکت میں آگئے۔
جسم وروح کے ساتھ معراج کا حاصل ہونا آنحضرت ﷺ کا خصوصی شرف ہے،یہ مرتبہ
کسی اور نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا،اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے نبی
ورسول ﷺ کی عظمت وبرگزیدگی کا ظاہر کرنےکے لیے یہ خارقِ عادت قدرت ظاہر
فرمائی ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی
حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی
نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں
ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے
اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا
چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن
و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
ایک گزارش
کچھ دوست یہ سوچ رہے ہونگے کہ ان معاملات کو سائنس کے ساتھ بیان کرنے اور
جوڑنے کی آخر کیا ضرورت ہے ۔ کیا اسلام کی سچائی کے لیے سائنس کی تصدیق
ضروری ہے۔ تو گزارش ہے کہ
یقیناً دین اسلام ، سائنس کی تصدیق کا محتاج نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان کے
لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اللہ او ر اس کے رسول کی بات پر ہی ایمان و یقین
رکھے ، چاہے سائنسی نظریات اس کے الٹ ہی کیوں نہ ہوں ۔جیسے ڈارون کانظریہ
ارتقاء وغیرہ
سائنسی نظریات کو سچے مسلمانوں کے لیے اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن
مجید ، کثیر مقامات پر کائنات کی نشانیوں پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔یا
در ہے کہ " غوروفکر" نہ کہ سرسری نظر سے دیکھنا۔ اور بدقسمتی سے یہ کام
مسلمانوں کی بجائے غیر مسلم سرانجام دے رہے ہیں حالانکہ ان کا مقصد صرف
مادی تحقیق ہے ۔ تو جب ہم ان کی تحقیقات کو جو کہ اللہ کی عظیم والشان طاقت
و ٹیکنالوجی کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں ،پڑھتے ہیں تو ہمارے ایمان
میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً اسی واقعہ معراج کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
ہماری زمین سے باہر سماوٰت میں کچھ اور ہی طرح کےقوانین قدرت روبعمل ہیں جن
کو آج کا انسان کسی قدر سمجھنے کی کوشش کررہا ہے مگر قربان جائیے اس قدرتِ
خداوندی پر کہ جس نے تقریباً 1500 سال پہلے اس شان سے اپنے محبوب بندے کو
زمین و آسمان کی سیر کرائی کہ آج بھی عقل وعلم اس کو کما حقہ سمجھنے سے
قاصر ہیں۔
علاوہ ازیں ان سائنسی معلومات کو بیان کرنے کی غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ نام
نہاد مسلمان او ر غیر مسلم جو کہ سائنس کو ہی حرف آخر مانتے ہیں ، سمجھایا
جائے کہ آج جن باتوں یا معلومات تک سائنسدان پہنچے ہیں اگروہی قرآن و حدیث
سے بھی ملتی ہوں او ر جو تقریباً 1500 سال پرانی باتیں ہیں ،تو پھر سچا کون
ہے اور ایڈوانس کون؟علاوہ ازیں یہ قرآن مجید کے الہامی ہونے کی بھی تصدیق
کرتی ہیں کہ اگرچہ یہ معلومات صدیوں سے قرآن میں موجود تھیں مگر سائنس کی
ترقی سے پہلے کبھی کسی مفسرنے ببانگ دہل ان کا ذکر نہیں کیا تھا ، چناچہ
اگر یہ کسی انسان کا لکھا ہوتا تو ہمیں ان معلومات کا علم بھی ہوتا ؟۔
ماخذ:۔
معراج اور صاحبِ معراج ﷺ مع سائنسی انکشافات از عبداللہ مدنی
اللہ تعالی ہر قسم کی کمی معاف فرماۓ.
|