معروف شاعرہ و افسانہ نگار شگفتہ شفیق کے قلم سے
سنجیدہ متین ہمہ صفت ادیب ۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
شاءع شدہ ماہنامہ ’’سچی کہانیاں ‘‘ کراچی ، اگست 2019ء
میرے پیارے قارئین شگفتہ شفیق آج ایک ایسے ادیب، شاعر و محقق کا تعارف آپ
سے کرارہی ہوں جو گزشتہ چار دھائیوں سے ستائیش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے
بغیر دن رات ادبی چراغ روشن کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ جن کی روشنی راہیں
جگمگا اُٹھی ہیں ۔ اُ کا اسلوب سادہ اور آسان ہے ان کو ہم اور آپ پروفیسر
ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی کے نام سے جانتے ہیں وہ ایک بہترین مصنف ہیں جن
کی33کتابیں اور600سے زیادہ مضامین و کالم منشہ شہود پر جگمگا رہے ہیں
پروفیسر رئیس احمد صمدانی پنجاب کے شہر میلسی میں 1948ء میں پیدا ہوئے لیکن
ان کی زندگی زیادہ تر روشنیوں کے شہر کراچی میں گزری ۔ اپنی جنم بھومی کے
بارے میں صمدانی صاحب فرماتے ہیں ۔
میلسی ہے ایک شہر پانچ دریاؤں کی سرزمین پر
میں ہوں رئیس اسی آسماں کا ایک ستا رہ
ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی نے 1972ء میں جامعہ کراچی سے لائبریری سائنس اور
1985ء میں سیاسیات میں ایم کیا پھر جامعہ ہمدرد سے 2009ء میں پی ایچ ڈی کی
ڈگری حاصل کی ۔ ان کی تحقیقی مقالے کا عنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک
کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم محمدسعید شہید کا کردار تھا ۔ حکیم
محمد سعید شہید پر پہلا پی ایچ ڈی آپ نے ہی کیا ۔ ہماری ویب پر ڈاکٹر
صمدانی کی شاءع شدہ تحریروں کا مجموعہ آن لائن پڑھا جاسکتا ہے ۔ اس ای بک
کے علاوہ ۔ ۔ ہماریب ویب ۔ ۔ پر ڈاکٹر صمدانی کے بے شمارپرمغز مضامین بھی
پڑھے جاسکتے ہیں ۔
صمدانی صاحب منفرد اسلوب اور مثبت سوچ کے ہمہ صفت ادیب ہیں ۔ وہ سلیس اور
رواں زبان استعمال کرتے ہیں ان کے ہاں فن کی پختگی اور مشاہدے کی عمق واضح
دکھائی دیتی ہے یعنی خالصتاً ادبی طرز نگارش ہے ۔ صمدانی صاحب نے اپنے
بہترین شخصی خاکوں کی وساطت سے خاکہ نویسی میں اپنے لیے ایک نمایاں جگہ
بنالی ہے ان کے خاکوں میں فنکارانہ مہارت اور ریاضت جھلکتی ہے ۔ ڈاکٹر
صمدانی نے زندگی درس و تدریس میں گزاری ۔ مختلف کالجوں میں تدریسی و پیشہ
ورانہ خدمات انجام دی ہیں ، منہاج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنس کے صدر رہ چکے ہیں ۔ اس سے قبل آپ نے سرگودہ یونیورسٹی
میں بھی تدریس کے فراءض انجام دیے ۔ علامہ اقبال اوپن ہونیورسٹی کے بھی
ٹیوٹر ہیں جہاں آپ کو یونیورسٹی کے جانب سے بیسٹ یونیورسٹی ٹیچر2013 اعزاز
بھی ان کے پاس ہے ۔
ڈاکٹر صمدانی کی پہلی کتاب ’پاکستان میں سائنسی و فنی ادب‘ کے نام سے 1975ء
میں شاءع ہوئی پھر تو جیسے راستہ کھل گیا دوسری کتاب 1977ء میں ’کتب خانے
تاریخ کی روشنی میں ‘ کے نام سے پبلش ہوئی اور اس کے بعد تو جیسے مضامین و
کتب کی برسات شروع ہوگئی ایک سے ایک اعلیٰ علمی کتب انہوں نے لکھیں جن کو
تعلیمی بورڈ اور ملک کی جامعات کے نصاب میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے
یہ کتابیں اتنی زبردست و جاندار ہیں کہ کئی کتابوں کے ایڈیشنز شاءع ہوئے
ہیں ۔
صمدانی صاحب نے شخصیت نگاری میں سب سے پہلے 1978ء میں حضرت علی کرم اللہ
جہہ کی سیرت پر مضمون تحریر کیا تھا ۔ جس کی برکت سے شخصیت نگاری و کالم
نگاری و مضامین آج بھی ہر طرف ان کا قلم رواں دواں ہے کم سے کم الفاظ میں
جامع تحاریر لکھنے میں ان کو ملکہ حاصل ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی
شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں لیکن شاعری کو کبھی اپنی شناخت نہیں بنایا ،
کبھی کبھی حسب ضرورت و حسب ضرورت و منشاء اشعار کہتے ہیں ویسے شاعری میں ان
کا زیادہ تر رجحان حمد و نعت نگاری کی طرف ہے ۔ صمدانی صاحب کچھ اشعار ۔
ہو کیوں نہ ناز مجھے سخن وری پہ رئیس
میرے ہی اجداد کا ورثہ ہے جو مجھے ملا ہے
صاف گوئی بھی کیا بلا کی چیز ہے رئیس
کردیتی ہے اپنوں کو بھی پرایا پل بھر میں
حمد ِ باری تعالیٰ کے حوالے سے دو اشعار ۔
خالق ہے تو تیری حمد ہو بیاں محال ہے
ہوزباں سے بیاں میری کیا مجال ہے
تیرا مقام ہے ارتفاع میری وضع کچھ نہیں
میں لکھو تیری ثنا میری کیا بساط ہے
ڈاکٹر صمدانی سے جب ہم نے پوچھا کہ زندگی کو آپ نے کیسا پایا زندگی سے آپ
کو کوئی شکایت اورسچی کہانیاں کے قارئین کے لیے کوئی پیغام! تو انہوں نے
شفقت سے فرمایا ۔
۱ ۔ میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں ، مجھے اپنے والدین سے قناعت پسندی،
صبر و شکر کا درس ملا، میں انہی کے نقش قدم پر چلا ، زندگی کے تمام کام
بروقت انجام پائے ، خود بھی پڑتا رہا، بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلائی،
بروقت شادیاں کردیں سب اپنی جگہ خوش و خرم ہیں ، اپنے بچوں کی طرف سے مطمئن
ہوں اس سے بڑھ کر زندگی مجھے اور کیا دیتی، ایک بیٹا سعودی عرب میں کئی سال
سے ہے ایک ڈاکٹر ہے جس کے ساتھ اب میں اور بیگم رہتے ہیں میری بہو بھی
ڈاکٹر ہے ۔ بیٹی جرمنی میں خوش و خرم ہے، اللہ نے ابھی تک تین پوتے ایک
پوتی، ایک نواسہ اور دو نواسیاں میری زندگی کی کل کائینات ہے، اس اعتبار سے
میں اپنی زندگی کو حسین پاتا ہوں ، مشکلات تو زندگی کا حصہ ہوتی ہیں وہ
آتی رہیں اور جاتی رہیں مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہیں ، کوئی ملال نہیں
زندگی ایک عارضی شہ ہے دائمی ہر گز نہیں ۔ عارضی شہ کو عارضی سمجھ کر برتیں
تو زندگی آسان ہوجاتی ہے ۔ اصل زندگی تو اس عارضی زندگی کے بعد شروع ہوگی،
جو کہ دائمی ہوگی اگر ہم نے اُس زندگی کی تیاری کی ہے تو دنیاوی زندگی بھی
پرسکون گزرتی ہے اورآنے والی زندگی کا اطمینا ن بھی ہوتا ہے ۔
میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو پڑھانے، پڑھنے اور لکھنے کی دھن سوار
ہوگئی، جب بھی کوئی مضمون چھپتا عجب سی خوشی اور لکھنے کی جستجو لگ جاتی
دوسرا ایم اے شادی کے دس سال بعد کیا وہ بھی سیاست میں پھر ڈاکٹریٹ کرنے کی
خواہش نے دل کے کسی کونے میں جنم لیا، وقت گزرتا رہا پی ایچ ڈی کے لیے
حالات کا آپ کے ساتھ ہونا ضروری ہوتا ہے ، عمر عزیز 55کی ہو گئی کوئی20کے
قریب کتابیں لکھ لیں تھیں پھر جاکر موقع ملا ، رجسٹریشن ہوا اور جب ملازمت
سے ریٹائر ہوا تو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مل گئی ۔ اللہ نے خواہش پوری کی،
اس نے زندگی بدل دی جوعزت وقار اس ے حاصل ہوا وہ میری زندگی کا حاصل ہے ۔
اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے اور یہ ہی میرا پیغام بھی ہے کہ پڑھنے کے لیے
عمر کو نہ دیکھیں ، یا نہ سوچیں کہ بچے ہیں وہ کیا کہیں گے ، شادی شدہ ہیں
تو دونوں ایک دوسرے کو حصول علم کی ترغیب دیں ۔ اگر آپ کسی وجہ سے نہیں
پڑھ سکے تو شرم نہ کریں جھجک دل میں نہ لائیں ، آپ کو پڑھتا دیکھ کر بچوں
پر مثبت اثر مرتب ہونگے ۔ دوسرا پیغام کام کام اور کام کو اپنے اوپر سوار
کرلیں ۔ دنیا میں کام سے ہی عزت ملتی ہے ۔ اس لیے تعلیم اور کام انسان کو
بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں جس شعبہ میں بھی آپ ہیں محنت اور ایمانداری کو
اپنا شعار بنالیں ۔ سچے مسلمان محب وطن بنیں پاکستان بڑی قربانیوں سے حاصل
ہوا ہے اس کے خلاف کوئی بات نہ سنیں وطن ہے تو ہم ہیں ورنہ کچھ نہیں ۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی کے لیے مشہور شاعر خالد عزیز مقیم کنیڈا، شعری
مجموعہ ’’بیگم نامہ‘‘ کے خالق نے کیا خوب کہا ہے علم وادب اور صحافت میں
نامور ہیں رئیس
سرپرست سلسلہ ہیں اور ہیں بے حد نفیس
ڈاکٹر صمدانی کا ہر شعبے میں ہے اونچا مقام
آپ کی خدمات کا قائل ہوا ہر خاص و عام
(شاءع شدہ: سچی کہانیاں ‘ کراچی ۔ جلد36 ، شمارہ08 ، اگست 2019ء، صفحہ 70تا
73)
‘‘
|