علامہ سید شاہ تراب الحق قادریؒ کی یاد میں

تیسرا سالانہ عرس 14-15ستمبر2019 مزار مبارک متصل میمن مسجد جوڑیا بازار میں منعقد ہو رہا ہے

 اچھے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ اپنی وہ اپنی جسمانی صورت سے تو آزاد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی خوشگوار یادیں ہمیشہ دلوں میں گھر کیے رہتی ہیں ۔رب تعالیٰ اپنے مخصوص بندوں کو ایسی خصوصیات عطا کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ انسانیت کیلئے مینارہ نور بن جایا کر تے ہیں ۔موجودہ دور میں اگر آپ کسی سے زیادہ تعلق رکھنے کی کوشش کرتے ھیں تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ضرور اسکے پیچھے بھی کوئی مقصد یاضرورت پوشیدہ ہو گی،مگر اس مادی دنیا میں بھی ایسے نیک لوگ موجود ھیں جو مر نے کے بعدبھی محبت کے امین ٹھہرتے ہیں شاہ صاحب جو آج ھمارے درمیان نہیں مگر وہ اپنے حسنِ کردار کے سبب ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔کسی شاعر نے کہا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
جو کمی ہے تو روشن چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا

حضرت علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ ظاہری طور پر آج ہم میں موجود نہیں ،مگر آپ کی شیریں خطابت اور حُسنِ سلوک کی حَسین یادیں کبھی ہم سے جدا نہیں ہو سکتیں ۔شاہ صاحب 1946ء میں بھارتی ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام حضرت سید شاہ حسین قادری تھا، علامہ شاہ تراب الحق نے ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن سے حاصل کی۔تقسیم برصغیر کے وقت حیدر آباد دکن میں ہونے والے فسادات کے سبب آپ کے اہل خانہ نے پاکستان ہجرت کی اور اُس وقت کے دارالحکومت کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں رہائش اختیار کی، شاہ تراب الحق نے منقطع ہونے والے تعلیم کے سلسلے کو ایک بار پھر فیض عام ہائی اسکول سے شروع کیا۔میٹرک تک تعلیم کے بعد آپ نے دارالعلوم امجدیہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے دوران آپ نے 1966ء سے تقاریر کا سلسلہ شروع کیا، عالم کی سند حاصل کرنے کے بعد انتظامیہ نے آپ کو دارالعلوم کے مبلغ کے طور پر تعینات کیا، بعد ازاں آپ نے انتھک محنت سے ایک مقام حاصل کیا اور ایک وقت ایسا آگیا کہ آپ کی پہچان دارالعلوم امجدیہ کے خطیب کے طور پر ہونے لگا۔آپ کے اہل خانہ نے 1966ء میں آپ کا نکاح قاری محمد مصلح الدین صدیقی کی دختر سے کردیا، جس سے اﷲ نے آپ کو تین فرزند سید شاہ سراج الحق، سیدشاہ عبد الحق اور سید شاہ فرید الحق اور چھ بیٹیاں عطاء کیں، آپ نے 1968ء میں بریلی شریف حاضر ہو کر امامِ اہل سنت احمد رضا خان بریلوی کے چھوٹے صاحب زادے مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مصطفی رضا خان صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی۔

شاہ صاحب سچے عاشق رسول ﷺصاحب کمال دینی و روحانی شخصیت کے حامل تھے۔ زندگی بھر خطابت و تحریر کے ذریعے اہل ایمان کے دلوں میں عشق ِ رسول کی شمع فروزاں کرتے رہے ۔ ملک و ملت کی خدمت ، دین اسلام کی ترویج و اشاعت اور عقائد اہلسنّت کی سر بلندی کیلئے آپ نے جو خدمات انجام دیں انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا، آپ کی خدمات کو ضبطِ تحریر میں لانا محال ہے ۔صوفیائے کرام سے آپ کا گہرا تعلق تھااور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی سے عشق کا یہ عالم تھا کہ دوران خطابت بھی جابجااعلیٰ حضرت کے اشعار پڑھتے، آپ بہت ہی مختصر مگرجامع اور قابل فہم الفاظ میں تقریر کرتے تھے آپ کا انداز اس قدر دل نشین ہوتا کہ ہر لفظ دل و دماغ میں پیوست ہوکر رہ جاتا تھا ۔

آپ علم و استقامت کا سر چشمہ ،بے باک اور نڈر انسان تھے ،سانحہ نشتر پارک دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود اسلام اور ملک دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ آپ کی بے خوفی و جرأت مندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سانحہ نشتر پارک سے قبل دفتر جما عت اہلسنّت میں شاہ صاحب کو دھمکی آمیز خطوط اور فون کال موصول ہوئیں جس میں شر پسندوں نے حضرت کے گھر سے دفتراور میمن مسجد آنے جانے کے وقت اور روٹ کا بتاتے ہوئے جان سے مارنے کی کھلی دھمکیاں دیں ۔ا س موقع پر احباب نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حضرت کواحتیاط کا مشورہ دیا تو حضرت نے یہ کہا کہ تراب الحق ایسی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتا ، جب تک میری زندگی ہے اس وقت تک موت میری محافظ ہے ،اور جو رات قبر میں لکھی ہے وہ قبر میں ہی ہو گی۔

شاہ تراب الحق قادری نے مذہبی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1985ء میں آپ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 190 سے منتخب ہوکر رکن قومی اسمبلی بنے، بعد ازاں آپ نے قومی اسمبلی میں نظام مصطفی گروپ بناکر اس میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ناموس رسالت کے قانون 295-C (اس قانون کے تحت گستاخ رسالت کی سزا موت ہے)کی منظوری میں شاہ صاحب کا کلیدی کردار ہے ۔ ایک موقع پر پارلیمنٹ میں اذان سے قبل درود و سلام پر پابندی کی تجویز پیش کی گئی اس سے پہلے کہ یہ شیطانی سازش کامیاب ہوتی شاہ صاحب نے ہم خیال اراکین سے رابطہ کیا اور اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر حکومت کو باور کرایا کہ تم تو مسجد میں اذان سے پہلے دورود شریف پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہوہم یہاں پارلیمنٹ میں بھی درود و سلام پڑھا کریں گے اور کوئی نہیں روک سکتا۔اسی وقت مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام اور یانبی سلام علیک،پڑھنا شروع کردیا اس صورتحال کے بعد حکومت نے فوری طور پر درود پر پابندی کی قرار داد واپس لینے کا اعلان کیا۔
آپ علمی و ادبی شخصیت کے ساتھ بہترین پروف ریڈر بھی تھے ،مجھے یاد ہے ایک میگزین کے ایڈیٹر شاہ صاحب سے ملنے آئے اور میگزین حضرت کو پیش کیا ،ٹائٹل صٖفحے پر جناب رسالت مآب ﷺ کے روضہ اقدس سبز گنبد کی تصویر کے ساتھ یہ جملہ تحریر تھا ’’ گنبد خضراء کا دل فریب منظر‘‘ شا ہ صاحب نے ایڈیٹرصاحب کی فوری توجہ دلائی کہ اس مقام سے دلوں کو فریب نہیں ملتا بلکہ یہاں آرام فرما ہستی تو دکھی دلوں کا سہار اہے ۔

علامہ شاہ تراب الحق قادری نے تفسیر، حدیث شریف، فقہ حنفی، عقائد، تصوف اور فضائل وغیرہ کے موضوعات پر کتب لکھ کر علمی میدان میں خدمات سرانجام دیں، آپ کی مشہور تصانیف میں تفسیر سورۃ فاتحہ، جمالِ مصطفی، تفسیر سورۃ و الضحیٰ تا سورۃوالناس،تصوف و طریقت، ختم نبوت، ضیاء الحدیث، فلاح دارین، رسول خدا کی نماز، امام اعظم ابوحنیفہ، مزارات اولیاء اور توسل،حضور ﷺ کی بچوں سے محبت،دعوت و تنظیم،دینی تعلیم ،مبارک راتیں،فضائل صحابہ و اہل بیت،مسنون دعائیں ،فضائل شعبان ،خواتین ا ور دینی مسائل، وغیرہ شامل ہیں۔

رب تعالیٰ شاہ صاحب کے فرزند و جانشین صاحبزادہ علامہ سید شاہ عبد الحق قادری کو حضرت کا نیک مشن جاری رکھنے کی ہمت و حوصلہ عطا فرمائے۔آمین
٭٭

Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 14 Articles with 12507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.