جمہوری دور ۔۔۔۔۔ مگر عوام پریشان، سبب کیاہے؟

سیاست خدمت ہے اگر اس کےلیے دین اسلام سے رہنمائی لی جاتی تو یہ جمہوریت پسند سیاستدان عوام کی خدمت نیکی سمجھ کر کرتے اور عوام خوشحال ہوتے۔

اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ کو وزٹ کیا جائے تو معلوم ہوتا ایک سو بائیس سیاسی پارٹیا ں اقتدار کے حصول کےلیے کمر بستہ ہیں۔جو لوگ ان پارٹیوں سے اختلاف رائے رکھتےیا پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہتےہیں تو وہ پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے اُبھرتے نظر آتےہیں۔ریاست ان سیاسی پارٹیوںاور آزاد امیدواروں کو اقتدار میں آنے کےلیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جو کہ نظام جمہوریت کے طور پر معروف ہے۔اس نظام کے تحت عوام کا اعتماد حا صل کرنا ضروری ہوتاہے۔لہذا س مقصد کے لیے یہ سیاسی لوگ عوام کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ڈور ٹو ڈور سیاسی مہم چلاتے ہیں۔عامتہ الناس کی فلاح و بہبود ، تعلیم وتربیت ،صحت اورسکیورٹی کےلیےسہولیات فراہم کرنے کا عہد وفا کرتے اور جائز مطالبات کو پورا کرنے کےلیے یقین دہانی کرواتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو ہی بہترین نظام گردانا گیا ہےاس لیےلوگ اپنے دروازے کی دہلیز پر ووٹ کی بھیک مانگنے والے پر بھروسہ کرتے اور "ووٹ ایک امانت ہے " ہے کہ نقطہ نظر سے نہ گرمی کی شدّت وحدّت کو دیکھتے نہ سردی کی ٹھنڈک، نہ قدرت کی برکھا کودیکھتے نہ تیز آندھی،نہ بہتے ہوئے پسینے کو دیکھتے نہ سردی سے ٹھٹرتے جسم ۔اےسی کی پُرلطف ٹھنڈی ہوا یا پُرسکون گرم رضائی کو خیربادکہتے اور کاغذ کے ٹکڑے پر مہر ثبت کرنےکےلیے لمبی لائنوں میں گھنٹوں انتظار کرتے نظرآتےہیں۔جوش ملیح آبادی نے اسی لیے کہاتھا۔

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

سبب کیاہے؟ صرف ایک ہی مطلوب و مقصود ہوتا ہےکہ یہ لوگ اقتدار میں آجائیں گے ،ہماری امیدوں کو چار چاند لگائیں گے،خدمت خلق کےلیےاپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے،ریاست کے وقار کو مجروح نہیں کریں گے بلکہ اسکے عوام کی خوشحا لی کے لیےاپنا تن من نچھاور کردیں گےجو کہ ایک قومی فریضہ بھی ہے۔بلآخر جو سیاسی امیدوار عوام کا اعتما دحاصل کرنے میں کامیاب رہتےہیںتو وہ ریاست کے اہم عہدوں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست تک رسائی پا لیتے ہیں۔اقبالؒ نے اسی لیے کہا تھا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

"جیسا کرو گے ویسا بھرو گے" کے تحت اقتدارپرجلوہ افروز ہونے والوں کا حق بنتا ہے کہ جس طرح عوام نے چنائو کے وقت اعتماد کا اظہار کیابالکل اُسی طرح اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچا ئی جائےبلکہ ایک ایک وعدے اوراُمید کو عملی جامہ پہنایاجائےتاکہ یہ عوام منتخب ہونےوالے پر انگلی نہ اُٹھا سکیں۔ یہ بات ایک اٹل حقیقت ہےجس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ دنیا کا نظام اعتماد پر چل رہاہے۔اگر اعتماد دم توڑ جائے تو معاملات زندگی فالج کاشکار ہو جاتے ہیں۔مسافر اگر بس پر سوار ہوتا ہے تو اس کاڈرائیور پر اعتماد ہوتا ہےکہ یہ اچھی گاڑی چلا لیتا ہوگا ۔ تاجر اگر بینک میں لاکھوں، اربوں روپے جمع کرواتا ہے تو یہ بینک انتظامیہ پر اعتماد کی بنیاد پر ہوتاہےکہ وہ اس کے جمع پونجی کامحافظ ہوگا۔اظہر فراغ نے اسی لیے کہاتھا۔

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

پاکستان کو وجود میںآئے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکاہے ۔ ان سالوں میں عوام نے جمہوریت پسند، ووٹ کے حصول کےلیے مارے مارے پھرنے والوں کو ریاست کے تخت پربٹھایاہے ۔حق تو یہ تھا کہ یہ تخت نشین جہاں سے کامیاب ہوئے اُن علاقوں میںچکر لگاتے ،لوگوں کے حالات زندگی دیکھتے،حلقے کے مکینوں کے معاملات زندگی بہتر کرنے کےلیے عملی اقدامات کرتے ۔مگر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ یہ ووٹ مانگنےوالے پھر اُس علاقے کی طرف رُخ نہیں کرتےہیں۔ بلکہ انھوں نے جہاں سے گزرنا ہوتا ہے اُس راستے کو دو دن قبل ہی بند کردیاجاتاہے۔شاہراہوں پر لگے اشاروں کااحترام نہ کرکے وطن عزیز کے قانون کو آڑے ہاتھ لیا جاتاہے ۔ سُر خ بتی کے تقدس کو پامال کرنا تو ان کے لیے معمولی ہے بلکہ ان اشاروں کو بند ہی کردیا جاتاہے۔ لوگوں کا کاروبار ٹھپ کردیا جاتاہے۔معاملات زندگی جام کردیے جاتےہیں۔راہ گیروں کی پریشانی میں آضافہ کردیا جاتاہے۔ایمبولینس میں زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا کاکچھ خیال نہیں کیا جاتاہے۔مزدور کا روزگارچھین لیاجاتا پتا کرنے پر معلوم ہوتا کہ آج یہاں سےایم پی اے، ایم این اے،صدرمملکت ،وزیراعظم یا اورکسی عہدیدار کا گرز ہونا ہے۔جسے انگلش میں وی آئی پی موومنٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔شاعر نے اسی لیے کہاتھا۔

جس دور میں ُلٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے حاکم سے بہت بھول ہوئی ہے

جمہوری دور میں جیتنے والوں نے خود کو وی آئی پی کہلوا کر عوام کے ساتھ بے وفائی کی ہے۔کیونکہ اس سے عام اور خاص کا نظریہ جنم لیتاہے۔یہ نظریہ امیر کی اہمیت کو اُجاگر اور غریب کی غربت کا مذاق اڑانے کا باعث بنتاہے۔مگر اقتدا رکے نشے میں ڈوبے ہوئےاس بات کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اس کو پروٹوکول کانام دے کر مسلسل ایسا کرتے چلے جاتےہیں۔معاملہ یہاں ہی ختم نہیںہوتا بلکہ ان وی آئی پیز نےعوام کی رسائی بھی اپنے تک ناممکن بنادی یعنی خود کو بادشاہ سلطنت ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ خدمت گزار بن کر آئے تھے اور اس کے اثرات نچلےطبقے تک اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سرکاری محکموں میں بھی عام عوام کی ایک نہیں سنی جاتی بلکہ رشوت کا چال چلن عام نظرآتاہے۔ شاعرنے اسی لیے کہاتھا۔

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا

رہی بات دیگر وعدوں کی جن میں تعلیم،صحت،اور سکیورٹی جیسےدوسرے معاملات شامل ہیں ۔شاید ووٹ کے حصول کےلیےان کا نعرہ لگانا ضروری ہوتاہے،لیکن ہر فرد کےلیے یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ وعدے بھی سیاست کی نظر ہوجاتے ہیں۔ سیاست نام تو خدمت کا ہونا چاہیےمگر یہ بطور دھوکہ فریب اورغلط بیانی مقبول ہوچکاہے اور اسی پر عمل پیرابھی ہیں۔مذید یہ کہ گزشتہ حکومت پر بھرپور کیچڑ اچھالا جاتاہےکہ انھوں نے نظام تعلیم کا بیڑہ غرق کردیا،عدالتی نظام کی دھجیاں بکھیردیں اور صحت کے معاملے کو کچھ ترجیح نہیں دی بلکہ اپنی تجوریاں بھرتے رہےہیں۔اگر اورکچھ کہنے کو نہ ملے تو خزانہ خالی ہے کہہ کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔حالانکہ ہر دور میں عوام بھاری ٹیکسس کی مدمیں سرکاری خزانہ بھرتے رہیں ہیں۔بس ان بیانات پر ہی عوام کوٹھرکا دیا جاتاہے اور صاحب اقتدار کرسی کے مزے لوٹ کر اپنا وقت پورا کرتے ہیں۔عوام میں ناکامی کے ڈر سےپھر کسی دوسری سیاسی پارٹی میں شامل ہوکر سبزباغ دکھانا شروع کرتے ہیں۔ انھی جمہوری ادوار میں قوم کاٹیکس کا پیسہ کرپشن کی نظر ہوجاتاہےاور عوام بدحالی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔نتیجتًا نہ عوام کو انصاف ملتاہے نہ سرکاری ہسپتالوں میں تسلی بخش علاج۔بیچارےعوام مہنگائی کا رونا روتے نظرآتےہیں۔ تعلیم وتربیت کی بات کی جائے تو سوشل میڈیا منہ بولتا ثبوت ہے جس پر مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اخلاقیات سے گری پوسٹیں لگائی جا تیں جن میں مخالف سیاسی پارٹیوں کا استہزا،عزت وابرو پر حملہ واضح طور پر ملتاہے۔جس سے عوام میںباہمی کدورتیں،لڑائی جھگڑے، رنجشیں اور انتقامی سوچ جنم لیتی ہے۔شاعر کے الفاظ میں

احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ھوئی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میںآیا ہے۔1956،1962 اور 1973کے دستور میں لکھا ہےکہ ملک پاکستان کے تمام قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے گا۔اسلامی نظام زندگی کے تمام پہلوؤوں معاشرتی ،اخلاقی ،سیاسی ،مذہبی اور معاشی شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔یہ ا سلامی نظام قرآن ، سنت رسول ﷺ اور احادیث پر مشتمل ہے۔ اگر آج سیاست کےلیےدین اسلام سے رہنمائی لی جاتی تو یہ جمہوریت پسند سیاستدان عوام کی خدمت نیکی سمجھ کرکرتے۔
 

Irfan Qayyum
About the Author: Irfan Qayyum Read More Articles by Irfan Qayyum: 12 Articles with 13470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.