تبدیلی کہاں ہے

تبدیلی سرکار نے ایک برس میں وفاق اورصوبوں میں وزراء کے قلمدان کی تبدیلی کے سواکچھ نہیں کیا۔کپتان عمران خان وزراء کی کارکردگی رپورٹ طلب کرتے ہیں مگر ان کی اپنی اوروسیم اکرم پلس عثمان بزدار کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت ابھی تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ہر خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتی چلی جا رہی ہے جبکہ اسے ایک برس ہو گیا ہے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے ۔ اگر حکومت چاہے تو انتظامی پہلوؤں پر فوکس کرکے عوامی مسائل میں خاطرخواہ حدتک کمی یا انہیں پوری طرح ختم کر سکتی ہے مگر تعجب ہے کہ اس نے ایسا کچھ کرنے کا ابھی تک نہیں سوچا۔ شاید ا سلئے کہ حکمران اپنے کیمپ میں'' عوام بیزار ’’عوامی نمائندوں کو خوش کرنا چاہ رہے ہیں جو عرصہ دراز سے اقتدار کے سحر میں مست ہیں انہیں وہ یہ زحمت نہیں دینا چاہتی کہ عوامی مفاد میں کچھ کریں ،پی ٹی آئی قیادت کواپنے انتخابی وعدے یاد نہیں رہے۔ تبدیلی سرکار کی ناقص ترجیحات کے نتیجہ میں نظام حیات شدید متاثر ہو رہا ہے اور سماجی سطح پر خوفناک قسم کا منظر ابھرتا ہوا نظر آتا ہے کہ خونی رشتے پہچان سے عاری ہیں، چھینا جھپٹی ہے، جھوٹ و منافقت کی ایک لہر ہے جو اوپر ہی اوپر اٹھتی چلی جا رہی ہے ۔ افراتفری ہے، غیر یقینی ہے کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ رشوت عام ہے، سفارش کے بغیر ہر کام ادھورا اور زندگی بے کیف و سرور دکھائی دے رہی ہے۔ دراصل وطن عزیز پر خاص لوگ شروع دن سے مسلط ہیں جنہوں نے ایسی ایک فضا دانستہ قائم کر رکھی ہے۔

مقصد یہی کہ عام آدمی کو سکون میسر نہ آئے وہ بکھرا رہے روزی روٹی کی پریشانی اسے تحقیق و تخلیق سے دور رکھے کہ جہاں یہ موجود ہوں وہاں اقتدار و اختیار محدود ہوتا ہے لہٰذا انہوں نے اب تک اس نظام اس فکر کو اپنا رکھا ہے اور عوام کی حالت تشویشناک ہوتی جا رہی ہے مگر کسے خیال ہے اس کا ہو گا بھی کیوں جب دیکھنا یہی چاہیں وہ، لہٰذا اذیت ناک صورت حال ہے۔ اذیت ناک اس لیے بھی ہے کہ اب وہ ذرائع ابلاغ کی بدولت بہتر سالہ ملکی تاریخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادراک و فہم کے دریچوں سے آشنا ہو چکے ہیں لہٰذا انہیں محسوس کچھ شدید ہونے لگا ہے پہلے بھی زیادہ تر زندگی کی لذتوں سے واقف نہیں تھے مگر اس کا احساس بہت کم تھا۔ بہرحال اب ہوا یہ ہے کہ اس طبقے (اشرافیہ) نے انداز حکمرانی و تسلط کچھ تبدیل کر لیا ہے وہ بیزار ہوتے لوگوں کو جبرو ستم کے ذریعے خاموش کرنے لگا ہے۔ صرف تشدد ہی نہیں ان کی جانوں سے بھی کھیلنا ان کا معمول بن گیا ہے۔ یہ کیا زندگی ہے یہ کوئی جینا ہے۔ تبدیلی سرکار نے تو حد کر دی ہے کہ اس کے دور میں معیشت و معاشرت دونوں بری طرح سے گھائل ہیں۔ دن دیہاڑے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس نے مثالی حکومت قائم کرنے کی بات کی تھی مگر اب تک کچھ ایسا نظر نہیں آرہا۔ پولیس اور دیگر سرکاری ادارے بری طرح کا عوام کے ساتھ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ خیال ظاہر کیا گیا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی ظلم کا نشانہ باقی نہیں رہے گا۔ حرام خور چھپتے پھریں گے۔سینہ زور، غنڈے اور بدمعاش دبک کر کہیں بیٹھ جائیں گے مگر سب کچھ ویسے کا ویسا اور حیرانی یہ ہے کہ پچھلی حکومت پر سارا ملبہ ڈالا جا رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں اور کوئی منطق نہیں قصور وار موجودہ حکومت ہے۔ وہ جان بوجھ کر عوامی احساسات کو نظر انداز کر رہی ہے اور روایتی طرز عمل اختیار کرتے ہوئے حکومت کے معاملات نمٹانے کی حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔ مقصد اس کا وہی ہے جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ باشعور اور باخبر عوام کو ہر صورت دبایا جائے تا کہ وہ اسے چیلنج نہ کر سکیں۔

آپ عثمان بزدار کو دیکھ لیجئے بظاہر وہ عام آدمی دکھائی دے رہے تھے اور عمران خان نے انہیں عام لوگوں کی خدمت کے لیے موزوں تصور کیا تھا مگر ’’وچوں نکلیا کی اوہی‘‘ جاگیردار یا جاگیردارانہ مزاج والا وزیراعلیٰ انہوں نے طے کر رکھا ہے کہ ان کے دوراقتدارمیں کوئی مفلس ،ناداراورعام آدمی کسی بھی طرح سکھ کا سانس نہیں لے سکتا لہٰذاء ان کے ماتحت ادارے خوب لوگوں کو ''ماموں''بنا رہے ہیں اچھی طرح سے ان پرمہنگائی ہنٹر برسائے جارہے ہیں۔ وفاق سے صوبوں تک مہنگائی مافیا دندناتا پھر رہا ہے۔ راشی رعایا کاخون چوس رہے ہیں تو کمیشن خور ہڈیوں کا گودا کھا رہا ہے مگر مجال ہے ارباب اقتدارکے کانوں پرجوں بھی رینگتی ہو۔

ابھی تک عام شہریوں کی رقوم ہتھیانے والے صلاح الدین کی موت جومبینہ پولیس تشدد سے ہوئی ہے کا کچھ علم نہیں کہ اس کا کیا کیا جا رہاہے۔ ڈاکٹرز جنہیں ڈاکٹر نہیں کہنا چاہیے الٹی سیدھی رپورٹیں جاری کر رہے ہیں،ابہام فوری دورکیااورہم وطنوں کی سچائی تک رسائی یقینی بنائی جائے ۔ ڈاکٹرز سے یاد آیا وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے سرکاری ہسپتالوں کو نجی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے کیا ناداروں کیلئے دشواریاں کم تھیں کہ اب وہ اور بھی پریشانیوں میں گھر جائیں گے ۔ یہ زیادتیاں حکمرانوں کی طرف سے باضابطہ ہو رہی ہیں مگر کہا یہی جا رہاہے ہے کہ کیا کریں نوا زشریف کی حکومت کا یہ سب کیا دھرا ہے۔نوازشریف اورشہبازشریف کادوربھی شعبدہ بازیوں سے عبارت ہے مگر تبدیلی سرکار کے دورمیں کچھ بدلے گابھی یانہیں۔ان حکمرانوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا دو سو آٹھ ارب روپے کے قرضے نواز شریف نے معاف کیے اب اس حکم کو واپس لے لیا گیا ہے کیونکہ عوام کی طرف سے ردعمل سخت آیا ہے لہٰذا اب اس کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کرے گی۔ چلئے! یہ اچھا قدم اٹھایا گیا ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ تمام فیصلے خود یہ حکومت کر رہی ہے پالیسیاں اور منصوبے بھی یہی بنا رہی ہے مگر نواز شریف کو درمیان میں لے آتی ہے۔ جناب عالی! آگے بڑھیے اور تسلیم کیجیے کہ ملک کا انتظام و انصرام جذباتی ہاتھ میں ہے۔ جو ایسے احکامات دے رہا ہے کہ جس سے بدنظمی و بے چینی کا مزید اندیشہ ہے لوگوں کو کسی بھی حوالے سے ریلیف نہیں مل رہا۔ لینڈ مافیا آزاد ہے قبضہ مافیا بھی قبضے کرنے میں مصروف ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی عرض کر روں کہ کہا جا رہا ہے بیورو کریسی کام نہیں کر رہی ایسا ہے بھی تو اسے فارغ کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ جاوید خیالوی کے مطابق حکومت کو اس سے کام لینا ہی نہیں جو لینا ہے، وہ لے رہی ہے۔عوام کے خون نچوڑنے کا لہٰذا یہ کہنا کہ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی درست نہیں بہرکیف عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ وہ جن وعدوں کی بدولت اقتدار میں آئے ہیں انہیں پورا کرنا چاہیے اگر انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنا مقصود تھا تو یہ الگ بات ہے۔ اس پر بھی بیٹھنے کے لیے عوام کے لیے تھوڑا بہت تو کرنا پڑتا ہے اور وہ اس طرح نہیں جس طرح وہ کر رہے ہیں۔ اس کے لیے سخت ہاتھ اور طمع و لالچ سے مبرا منتظم یا منتظموں کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الحال ناپید ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام نکوں نک آ چکے ہیں شاید اس بنا پر سیاسی منظر بدل جائے مگر سوال یہ اپنی جگہ پر موجود ہو گا کہ تبدیلیوں کے عمل سے عوام کے حق میں کچھ تبدیل ہو گا۔

 

Muhammad Altaf Shahid
About the Author: Muhammad Altaf Shahid Read More Articles by Muhammad Altaf Shahid: 27 Articles with 20834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.