چترال شہر پہنچنے کے بعد ہمارے راوی ”کشمیر
بیکرزاینڈسویٹ“کے مالک محمد زاہد تھے۔انہیں ہماری آمد کی اطلاع اپنے نٹ ورک
سے ملی تھی۔وہ لواری ٹنل کراس کرنے کے بعد ہمارے گائیڈ بھی تھے اور چترال
شہر تک موبائیل فون پر ہماری رہنمائی کرتے رہے۔چترال شہر پہنچنے پر انہوں
نے پرتکلف طریقے سے خوش آمدید کہا اور بغیر وقت ضائع کیے ہمیں اپنے گھر لے
گے جو چند منٹوں کی پیدل مسافت پر تھا۔گھر میں ہی بڑا پرتکلف کھانے کا
اہتمام کیا گیا تھا۔سفر کی تھکاوٹ اور دن کو زائد مقدار کھاناکھا جانے کی
وجہ سے کھانے کی طبیعت بلکل نہ تھی لیکن ان کی مہمان نوازی مثالی تھی۔کھانے
کے دوران انہوں نے ہمیں چترال کی ثقافت و کلچر،تاریخ و جغرافیہ سارا ہی بتا
دیا اور ساتھ ہمیں گائیڈ بھی کیا کہ ہم نے کون کون سی جگہیں دیکھنی ہیں۔رات
گئے ہم نے ایک گیسٹ ہاوس میں چلے جہاں پہلے سے کمرے بک کروائے گئے تھے۔یہ
گیسٹ ہاوس شہر کے وسط میں تھا لیکن ابھی زیر تعمیر تھا۔چترال شہر کوئی بہت
بڑا نہیں لیکن اس طرح کے اور بھی بے شمار گیسٹ ہاوسز اور ہوٹل ہیں۔چترال
خیبر پختونخوا (کے پی کے) کا ایک ضلع ہے جو ہندوکش کے پہاڑوں کے دامن میں
واقع ہے، ضلع چترال کی ایک تحصیل کا نام بھی چترال ہے، چترال کی مناسبت سے
یہاں کی زبان کھوار کو چترالی بھی کہا جاتا ہے اور چترال کے لوگوں کو بھی
چترالی کہا جاتا ہے، یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو سلسلہ کوہ
ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے۔ اس کی سرحد افغانستان کی واخان کی پٹی سے
ملتی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ ریاست کے اس حصے کو بعد
میں ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن سے
منسلک کیا گیا۔ اپنے منفرد جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ
ملک کے دیگر علاقوں سے تقریبا پانچ مہینے تک منقطع رہتا تھا۔ اپنی مخصوص
پُر کشش ثقافت اور پُر اسرار ماضی کے حوالے سے ملفوف چترال کی جُداگانہ
حیثّیت نے سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی کافی اہمیت اختیار کر لی۔ جنگ
افغانستان کے دوران اپنی مخصوص جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے چترال کی اہمیّت
میں مزید اضافہ ہوا۔ موجودہ دور میں وسطی ایشیائی مسلم ممالک کی آزادی نے
اس کی اہمیت کو کافی اُجاگر کیا۔ رقبے کے لحاظ سے یہ صوبہ کا سب سے بڑا ضلع
ہے۔چترال پاکستان کا قدیمی لوک و تاریخی ورثہ کا حامل ہے،بادشاہ منیر بخاری
کے مطابق چترال میں 17 زبانیں بولی جاتی ہیں اور اس کی کل آبادی چار لاکھ
نفوس پر مشتمل ہے، لیکن چترال سے تعلق رکھنے والے اردو اور کھوار زبان کے
ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور صحافی رحمت عزیز چترالی نے چترال میں بولی جانے
والی زبانوں کی تعداد چودہ لکھی ہے۔
چترال پہلے پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔یہ ایک الگ ریاست تھی پھر بعد میں فاٹا
میں شامل ہو گیا اور بالآخر خیبر پختونخوا کا ضلع بن گیا۔ چترال پاکستان کے
تمام تر علاقوں میں اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اس کی طرف سیاحت اور تفریح
کے لیے لوگ نہ صرف پاکستان بلکہ دوسرے ممالک سے آتے ہیں۔ یہاں پہ کلاش نام
کے لوگ ہیں جنہوں نے یہاں کی سیاحت کو ایک اور خوبصورت رنگ دیا ہے۔ چترال
پاکستان کے چند ان علاقوں میں ہے جو بلند سطح پہ واقع ہیں۔ چترال میں اکثر
تو کھوار زبان بولی جاتی ہے تاہم پشتو زبان کا بھی بہت گہرا رسوخ ہے۔ چترال
کو انتظامی لحاظ سے دو تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک تحصیل چترال اور
دوسری تحصیل مستوج۔ ان دو تحصیلوں میں 24 یونین کونسلیں ہیں۔ کھوار چترال
کی سب سے بڑی زبان ہے اس کے علاوہ چترال میں پالولہ، دامیلی، کالاشہ، یدغہ،
وخی، فارسی،پشتو اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ضلع چترال کا رقبہ آزاد کشمیر کے
رقبہ سے بڑاہے یعنی آزاد کشمیر کا رقبہ13297 کلومیٹر اور آبادی 40 لاکھ کے
قریب ہے جبکہ ضلع چترال کا رقبہ14850 کلومیٹر اور آبادی تقریباً4 لاکھ کے
قریب ہے۔انٹرنٹ،موبائیل فون سروس،رسل ورسائل کا بہترین نظام موجود ہے۔ہم نے
رات سکون اور بے سکونی کے درمیان میں گذاری۔تھکاوٹ بہت زیادہ تھی۔بے سکونی
صرف اپنے گروپ کے دو ممبران کو صبح کی نیند سے بیدار کرنے کے طریقے تلاش
کرنے کے لیے تھی۔مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ بندہ جتنا موٹا ہوتا ہے اسے
اتنا ہی وقت نیند سے بیداری میں بھی لگتا ہے۔ہم نے بھی ہمت نہیں ہاری، کافی
حد تک کامیاب ہی رہے۔ہماری اگلی منزل کلاش تھی۔کہتے ہیں اور ہمیں بھی یہی
بتایا گیا کہ جس نے چترال جا کر کلاش(کافرستان) نہیں دیکھا سمجھ لیں کہ وہ
چترال گیا ہی نہیں۔ہم نے اپنے میزبان اور کچھ ویب سائیٹس کی مدد سے کلاش کے
بارے میں خاصی جان کاری لے رکھی تھی۔کلاش جانے کے لیے ہمیں واپس پیچھے جانا
پڑتا تھا۔چترال شہر سے اگر کلاش جائیں اپ کو راستے میں تین خوبصورت وادیاں
ملیں گی۔بمبورت،رمبور اوربریر۔صبح ناشتے سے فارغ ہو کر ہم نے اپنا سامان
ہوٹل میں ہی رکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کہ ہم کلاش سے واپس آکر رات کو بھی
اسی جگہ قیام کریں گے۔لیکن یہ ہماری دوسری بڑی غلطی تھی،پہلی غلطی یہ ہوئی
کہ ہم نے چترال میں گیسٹ ہاوس میں کمرے لیتے وقت معاملات طے نہ کیے جس کا
گیسٹ ہاوس کے مالکان نے غلط فائدہ اٹھایا۔دوسرا ہمیں رات کلاش میں ہی قیام
کرنا چائیے تھا۔وہاں ایک تو ہوٹل سستے اور معیاری تھے دوسرا راستہ دشوار
گذار تھا۔ہم لوگ کوئی گیارہ بجے کے قریب ہوٹل سے نکلے تو شہر کو ایک نظر دن
کی روشنی میں دیکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ جب ہم پہنچے تھے تو رات کا وقت
تھا اور رات کو کسی شہر کی ”سائنس“ سمجھنا مشکل کام ہے۔شہر کا چکر لگایا
اور پھر کلاش کی جانب رخت سفر ہوئے۔کوئی تیس چالیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم
نے مین روڈ چھوڑ دی۔ہمارے طرف وادی بمبورت تھی۔ایک طرف دریا اور دوسری طرف
بلند و بالا پہاڑ اس وادی کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کر رہے تھے۔(جاری
ہے)
|