وطن عزیز کےاندر خوف و دہشت کا جو ماحول بنادیا گیا ہے اس
کا اندازہ سابق آئی پی ایس آفیسر سنجیوبھٹ کی اہلیہ شیویتا بھٹ کی گجرات
ہائی کورٹ سے کی جانے والی گہار سے لگایا جاسکتا ہے۔ محترمہ شویتا وادیٔ
کشمیر میں نہیں رہتیں جہاں گزشتہ چالیس دنوں سے سخت کرفیو نافذ ہے بلکہ
آدرش گجرات میں رہائش پذیر ہیں ۔ انہوں ایک سال قبل بھی اپنے ارکان خاندان
کی حفاظت کیلئے عدالت سے پروٹیکشن کا مطالبہ کیاتھا اور ایک بار پھر عدالت
کے سامنےخطرے کا احساس ظاہر کرتے ہوے تحفظ مانگا ہے۔ جسٹس ایس ایچ وہرہ کے
آگے اپنے حلف نامے میں شویتا بھٹ نے یہ اپیل کی ہے۔ برطرف شدہ آئی پی ایس
آفیسر سنجیو بھٹ کی گرفتاری سے دومہینے قبل مئی ۲۰۱۸ میں سیکوریٹی ہٹالی
گئی تھی،کیونکہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
شیوتا بھٹ نے اپنی عرضی میں معزز عدالت سے درخواست کی کہ وہ پولیس کواز سرِ
نوان کے خاندان کو درپیش خطرات کا جائزہ لینےکی ہدایت جاری کرے کیونکہ
سیکوریٹی کا مطالبہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ سوال یہ ہے کہ گجرات کے اندر کوئی
شورش نہیں ہے اس کے باوجود ۲۰۱۲ میں نریندر مودی کے سامنے انتخاب لڑنے
والی شویتا بھٹ پر یہ وقت کیوں آیا؟
امیت شاہ کے وزیر داخلہ بن جانے کے بعد حکومتِ وقت کے انتقامی جنون نے ان
تمام لوگوں کو عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے
ہیں۔ سرکاری اداروں جیسے سی بی آئی اور پولس وغیرہ کا بے دریغ استعمال
کرکے بے قصور لوگوں کو بہ آسانی پھنسا یا جاسکتا ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ
اپنے پرائے کی تمیز بھی نہیں کیا جاتا ۔ گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر
سنجیو بھٹ کی گرفتاری اور ان کو دی جانے والی عمر قید کی سزا کے لیے تمام
جھوٹے شواہد پولس والوں نے فراہم کیے۔ سنجیو بھٹ کو ۲۹ سال پرانے قتل کے
مقدمہ میں ملوث کردیا گیا ۔جام نگر کے اندر اڈوانی جی کی رتھ یاترا کو روکے
جانے اور گرفتاری کے بعد وشوہندو پریشد نے بند کا اعلان کیا فرقہ وارانہ
فساد ہوگیا۔ امن کی بحالی کے لیے ڈیڑھ سو فسادیوں کو گرفتار کرلیا ۔ ان میں
سے ایک شخص کی رہائی کےایک ہفتہ بعداسپتال میں وفات ہو گئی ۔اُس کے لواحقین
نے سنجیو بھٹ اور دیگر پولیس افسران پر گرفتاری کے دورن تشدد کا الزام عائد
کیا تھا حالانکہ موت کی وجہ پیشاب کی بیماری تھی۔ اس کے باوجود سیشن کورٹ
نے بھٹ کو عمر قید کی سزا سنا دی ۔ یہ عجیب معاملہ ہے بغیر کسی ٹھوس ثبوت
کے سنجیو بھٹ کو سزا ہوگئی اور جیتے جاگتے ویڈیو کے باوجود تبریز کے قاتلوں
کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تبریز کی موت کے ایک ہفتہ بعد سنجیو بھٹ کو
سزا سنائی گئی اتفاق سے اسی ماہ مودی سرکار کی دوبارہ حلف برداری بھی ہوئی
تھی ۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے۔ کانگریس کے زمانے میں بے قصور مسلمانوں کو
جو شکایت تھی اس کا دائرۂ کار وسیع کرکے بی جے پی نے ہندووں تک پھیلا دیا
ہے۔
1990 میں وقوع پذیر ہونے والے اس واقعہ کے بعد ۲۰۰۲ تک سنجیو بھٹ گجرات کے
محکمہ پولس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ اس دوران ان پر کسی قسم کی
کارروائی نہیں کی گئی ۔ اس کے بعد سابرمتی ایکسپریس میں آگ لگی اور ریاست
بھر میں مسلم کش فسادات ہوگئے۔ سنجیو بھٹ نے مسلمانوں کے قتل عام پر وزیر
اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار پر تنقید کی کیونکہ فسادات سے پہلے اور
بعد میں ان کی نظر سے بہت سا ایسا خفیہ مواد گزرا جس نے فسادات کے دوران
پولیس اور انتظامیہ کے اقدامات اور رویہ واضح کردیا۔ انہوں نے الزام لگایا
کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی نے پولیس اہلکاروں کو یہ ہدایت دی تھی کہ
‘ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے دیاجائے۔‘ بھٹ کے اہل خانہ کا
الزام ہے کہ نریندر مودی کے خلاف بیان دینے کی وجہ سے حکومت ان کو نشانہ
بنا رہی ہے۔
سنجیو بھٹ کو حق گوئی کے سبب 2011 میں پہلے نوکری سے معطل کیا گیا اور پھر
2015 میں نکال دیا گیا اور اب ساری عمر کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج
دیا گیا۔ بھٹ کو اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کر نے اور ضمانت کا حق ہے لیکن
تین ماہ تک ٹال مٹول ہوتا رہا بالآخر مقدمہ کی سماعت کرنے والے جسٹس
مایانی نے معذرت چاہ لی ۔ جسٹس مایانی کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی
آواز کے خلاف فیصلہ نہیں کرسکتے اور درست فیصلہ کرنے کے نتائج بھی نہیں
جھیل سکتے اس لیے راہِ فرار اختیار کرلی۔ سنجیو بھٹ ستمبر 2018 سے ایک قدیم
منشیات کے مقدمہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ اس معاملے میں 2000 کے
اندرحکومت گجرات ان کی حمایت کرچکی ہے۔ فی الحال گجرات کا یہ حال ہے ۹۷
لوگوں کا قاتل بابو بجرنگی جسے ۲۱ سال کی سزا سنائی گئی تھی ضمانت پر جیل
سے باہر ہے۔ مایا کوندنانی کو ایس آئی ٹی عدالت نے ۲۸ سال کی سزا سنائی
تھی لیکن ہائی کورٹ نے اس کو بری کردیا ہے اور وہ پچھلے سال سمرتی ایرانی
کے ساتھ اسٹیج پر بھی آچکی ہے۔ عشرت جہاں ، پرنیش پلیّی، سہراب الدین اور
پرجاپتی کا انکاونٹر کرنے والے سارے افسران نہ صرف رہا ہوچکے ہیں بلکہ ان
میں سے کئی کو ترقی دے بحال کیا جاچکا ہے لیکن سنجیو بھٹ کو ضمانت تک نہیں
مل رہی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم نے ساتھ چھوڑ دیا گزشتہ جولائی کے اندر شویتا
بھٹ نے کو کیرلہ جاکر اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما رمیش چناتھلا سےملنا
پڑا۔ اس موقع پر شویتا بھٹ نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے شوہر کو جیل میں
بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھاگیا ہے اس لیے انہوں نےوزیراعلی پنارئی
وجین، کانگریس کی اعلی قیادت اور انڈین یونین مسلم لیگ کے لیڈروں سے ملنے
کی کاطر یہ قصد کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ حزب اختلاف ایوانِ پارلیمان میں یہ
مسئلہ اٹھائے لیکن وہاں تو کسی سنجیدہ مسئلہ پر گفتگو ہی نہیں ہوتی ۔ انہوں
نے ناانصافی کے خلاف اپنی عدالتی لڑائی جاری رکھنے کا عزم بھی
دوہرایا۔شویتا بھٹ کی تائید میں حزب اختلاف کے رہنماوں نے شویتا کی اخلاقی
حمایت کرتے ہوئےکہا کہ سنجیو بھٹ کا خاندان مرکز میں فسطائی حکومت کا شکار
ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے پورا مہذب سماج، سارے سرکاری افسران اور سیاسی
جماعتیں اس سنگین معاملے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں کیونکہ بقول ساحر
لدھیانوی؎
دلوں پہ خوف کے پہرے لبوں پہ قفل سکوت
سروں پہ گرم سلاخوں کے شامیانے ہیں
|