شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضا کا حکم

علماء امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہئے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی پوشیدہ ہے جیساکہ خالق کائنات نے سورۃ المؤمنون آیات (۱ ۔ ۱۱)میں بیان فرمایا ہے۔

قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نماز کی قضا کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، اختصار کے مدنظر بخاری ومسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اﷲ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔ (بخاری ومسلم) بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب ’’ترمذی‘‘ میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔ ﴿نوٹ﴾ تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔

حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد پڑھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ صحابۂ کرام کے ساتھ غزوۂ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ ﷺ نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایااور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو نگہبانی کے لئے متعین فرماکر آپ ﷺ لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اﷲ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوع آفتاب تک نہ اﷲ کے رسول ﷺ کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اﷲ ﷺ بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابۂ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابۂ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم ﷺ نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے اقامت کہی اور آپﷺ نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہئے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (مسلم) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ غزوۂ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اﷲ کے رسول نے وضو فرمایا ، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ ﷺ نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (بخاری) بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ ﷺ نے انہیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔ تفصیلات کے لئے امام نوویؒ کی مسلم کی سب سے مشہور شرح (شرح مسلم ج۱ ص ۲۷۷) اور ابن حجر عسقلانی ؒ کی بخاری کی سب سے مشہور شرح (فتح الباری ج۲ ص ۶۹ ۔ ۷۰) کا مطالعہ کریں۔ہاں اس بھول یا عذر کی بناء پر وقت پر ادا نہ کی گئی نماز کو ادا یا قضا کا ٹائٹل دینے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اﷲ۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی حضور اکرمﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضا کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاۃ وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے مگر قضا سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا بلکہ اسے نماز کی قضا کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ علامہ قرطبیؒ (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضا واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضا واجب ہے ۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً وعمداً چھوٹ جائیں تو اﷲ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی ضروری ہے، کیونکہ جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے۔ جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضا کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطۂ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضا کا معاملہ ہی نہیں رہا، لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔ مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضا لازم ہے۔ بعض علماء نے مخالفت کی ہے مگر بعض علماء کی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضا واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضا کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے، مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم ج۱ ص ۲۳۸) علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی تحریر کرتے ہیں کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔ (التعلیق الممجد علی موطا للامام محمدص ۱۲۷) ۔

خلاصہ کلام یہ کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضا کرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا مگر قضا کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضا کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضا کو واجب قرار دیا جائے تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے، کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمد) جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں، بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضا کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہئے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضا کرنی چاہئے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیابلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے قبل اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنی چاہئے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضا کرتا رہے۔ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضا کرے۔ یہی ۱۴۰۰ سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا فوت شدہ نمازوں پر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضا بھی کرنی چاہئے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو۔

Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 188 Articles with 145282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.