مسئلہ کشمیر،باؤنڈری کمشن ،تخم اول

یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت نہ کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
گلگشت وخلد ارضی،جنت ِ بے نظیر کشمیر کے موجودہ حالات وواقعات اور عالمی منظر نام پر ایک نظر عمیق ڈالی جائے تو ہر ذی شعور و ذی فہم سمجھ سکتا ہے کہ جو مسئلہ شمشیر سے حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا ،سفارتی جارحانہ پالیسی کی بنا پر عالم کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔بلا تعصب و بلا مبالغہ ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ رواں دور میں شمشیر اور توپ وتفنگ مسائل کا حل نہیں ہیں۔جارحانہ سفارتی پالیسیاں اور عالمی رائے عامہ کہ ہمواری بھی ایٹم بم جتنا ہی کردار ادا کرتے ہیں۔اگرچہ کشمیر میں بے رحم ہندوؤں کی طرف سے لگائے گئے کرفیو کو چار عشرہ سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکاہے جو اپنی جگہ کسی ظلم و بربریت سے کم نہیں،اس دوران بچے دودھ کو ترس رہے ہیں،بیمار دوائیوں کے انتظار میں موت کو گلے لگا رہے ہیں،خواتین اپنے جگر گوشوں کو موت کی آغوش میں سلا رہی ہیں،نوجوان آزادی کی خاطر شہادت کی موت کو گلے لگانے کو بے تاب ہیں،ایسی صورت حال میں پاکستان کس طرح خاموش تماشائی بنا رہ سکتا ہے اس نے وہ سب کیا جو گذشتہ پچاس سالوں میں نہیں ہوا تھا سلام ہے اس حکومت کو کہ جس نے کشمیر کو نگ کو ایک نئے انداز میں لڑنے کے لئے چومکھی بچھایا یعنی سفارتی جارحانہ پالیسی اور اقوام عالم کے ذریعے دنیا کی رائے کو ہموار کرنا کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اور اب اسے اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق حل ہونا چاہئے،بلاشبہ پاکستان اپنے اس موقف میں اس لئے کامیاب دکھائی دیتا ہے کہ سکیورٹی کونسل اور یورپی یونین کونسل کے بیانات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے اور اسے فریقین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے اور کشمیر میں ہونے والے ظلم وتشدد کو بھی روکا جانا چاہئے۔اس سلسلہ میں عالم اسلام اور اقوام عالم کس حد تک مخلص ہیں یہ کسی اور کالم میں میری کوشش ہوگی کہ قارئین کی بصارتوں تک پہنچاؤں لیکن یہ بات ذہین نشین ہو جانی چاہئے کہ مسئلہ کی اصل جڑ،خشت اول یا تخم اول دراصل باؤنڈری کمشن کا غیر منصفانہ فیصلہ اور بدنیتی تھی جس کی بنیادوں پر اس مسئلہ کی عمارت کو کھڑا کیا گیا۔

ریڈ کلف ایوارڈ کا فیصلہ 13اگست1947 کو تیار تھا،لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ طے کیا تھا کہ جیسے ہی فیصلہ ملے گا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کانگریس اور مسلم لیگ کے حوالہ کر دیا جائے گا اور اس سلسلہ میں وہ انتقال اقتدار کی غرض سے کراچی میں ہی تشریف فرما تھے۔انتقال اقتدار تو ہو گیا ،لارڈ ماؤنٹ کی طرف سے تقریر بھی ہو چکی تاہم حدود کے تعین کے فیصلہ کو 18اگست کو حوالہ کیا گیا جو کہ انتقال اقتدار کے وقت ہی کیا جاسکتا تھا،باؤنڈری کمشن کس طرح پاکستان کے لئے بددیانتی پر مشتمل تھا اس کے لئے ہمیں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ہوا یوں کہ دونوں مملکتوں کی سرحد کے تعین کے لئے تین جون کے منصوبے کے مطابق دو حد بندی کمشن قائم کئے گئے تھے ایک بنگال کی تقسیم اور آسام سے سلہٹ کی علیحدگی کے لئے اور دوسرا پنجاب کی تقسیم کے لئے،ہر کمشن میں چار چار ارکان میں سے دو دو نمائندے دونوں جماعتوں سے شامل کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔اتفاقِ رائے سے سر سیرل ریڈکلف کو کمشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔مسلم لیگ اور کانگریس کے اراکین ہائی کورٹ کے جج تھے۔بنگال کمشن کے ارکان ابو صالح محمد اکرم،ایس اے رحمان،جسٹس سی سی بسواس،ای کے مکر جی اور پنجاب کے لئے جسٹس دین محمد،جسٹس منیر،مہر چند مہاجن اور تیج سنگھ شامل تھے۔ارکان کے درمیان باؤنڈری کی حد بندی کے بارے میں اختلاف پایا جاتا تھا جس پر یہ فیصلہ کیس گیا کہ باؤنڈری کے چیئرمین سر سیرل ریڈکلف اس بارے میں حتمی فیصلہ دیں گے۔بس یہی ایک تاریخی غلطی تھی گویا ہم نے دودھ کی رکھوالی کے لئے ایک بلے کو بٹھا دیا۔جو فیصلہ ریڈکلف نے دیا وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے خلاف اور ناقابل قبول تھا،اس کا اندازہ پاکستان ٹائمز کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے کہ’’پنجاب کی عارضی تقسیم بھی غیر منصفانہ تھی،سب سے زیادہ ضرب ضلع گورداسپور کی دو تحصیلوں پر پڑی جو مسلم اکثریت کا ضلع ہے،اسی طرح زیرہ اور فیروزپور کی تحصیلیں بھی جن میں مسلم اکثریت ہے سلسلہ رسل ورسائل میں خلل کے بہانے الگ کر دی گئیں‘‘

اسی طرح قائد اعظم نے باؤنڈری کمشن کے اس غیر منصفانہ اور سفاک فیصلہ کے بارے میں کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تھا کہ ’’ہندوستان کی تقسیم اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے،ہم محسوس کرتے ہیں کہ بلاشبہ اس عظیم اور خود مختار ملک کی تعمیر میں سخت ناانصافیاں کی گئی ہیں،جہاں تک ممکن تھا ہم کو دبایا گیا اور ہمارے رقبے کو کم کیا گیا اور ہم پر جو آخری ضرب لگائی گئی ہے وہ ہے باؤنڈری کمشن کا فیصلہ،یہ ایک غیر منصفانہ،ناقابل فہم بلکہ مکروہ فیصلہ ہے‘‘بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ مسٹر آئن اسٹیفن جو کہ اس وقت کے مشہور اخبار اسٹیٹس مین کے چیف ایڈیٹر تھے تقسیم کے دو ماہ بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ہاں کھانے پر مدعو تھے،یہ اکتوبر 1947 کا واقعہ ہے کہ جب مسئلہ کشمیر کے الحاق کے لئے مہاراجہ سے سازش ہو رہی تھی وہ لکھتا ہے کہ ’’معلوم ہوتا ہے کہ لارڈ اور لیڈی لارڈ ماؤنٹ بیٹن بالکل ہندؤوں کے طرفدار ہو گئے ہیں،اس شب گورنمنٹ ہاؤس کا ماحول بالکل جنگ کا سا ساماں پیش کر رہا تھا کیونکہ وہاں سب پاکستان،مسلم لیگ اور جناح کے دشمن تھے‘‘

یہ وہ چند حقائق ہیں جو مسئلہ کشمیر کے لئے تخم اول کا باعث بنے اگر یہ سب اسی وقت کنٹرول کر لیا جاتا تو آج کشمیر کی صورت حال کچھ اور ہوتی ،لیکن اب بھی مجھے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ جس نہج تک جا پہنچا ہے انشا اﷲ ضرور حل ہو کر رہے گا اور ہندوستان آپ اپنے ہی جال میں صیاد آگیا کے مصداق اپنے منہ کی کھانا پڑے گی۔
 

Murad Ali Shahid
About the Author: Murad Ali Shahid Read More Articles by Murad Ali Shahid: 100 Articles with 86095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.