زویاخالد جہلم
دنیا میں کوئی بھی کام چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی جس کیلئے ہم نے بیحد محنت
کی ہوتی ہے اگر ہمیں اس میں ناکامی ہوتی ہے تو ہمیں بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے
لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ دلی اطمینان و سکون ہوتاہے کہ ہم نے اپنی طرف سے
پوری محنت کی لیکن اگر ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو ضرور اس ناکامی
میں ہمارے لیے بہتری ہو گی۔آزمائشیں انسان کی زندگی میں آتی رہتی ہیں اﷲ
اپنے بندوں سے بھی آزمائشیں لیتا ہیں آزمائشیں تو رسول پاکﷺ کی زندگی میں
بھی آئی حالانکہ ان کی زندگی میں تو صرف کامیاب ہونا لکھا تھا اﷲ چاہتا تو
رسول پاکﷺ کو کسی آزمائش سے نا گزارتا پر اﷲ نے رسول پاکﷺ کو عملی زندگی سے
گزارا اور ہمارے لیے مثال قائم کی رسول پاکﷺ کو دین کی تبلیغ میں کس قدر
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کتنی دفعہ لوگوں نے انکار کیا لیکن آپﷺ نے اپنی
کوشش کو جاری رکھا اور دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے میں
کامیاب ہو گئے یعنی آزمائش ناکامی نہیں ہے بللکہ کامیابی کی سیڑھی ہے قرآن
پاک میں جگہ جگہ کہا گیا ہے فلاں کام کرو تو کامیاب ہو جاؤ گے ناکامی کا
سامنا تب ہوتا ہے جب ہم قرآن و سنت کے بتائے طریقوں کے خلاف چلتے ہیں اگر
ہم قرآن و سنت کے بتائے اصولوں پر عمل کرے تو یقیناً کامیابی ہمارا مقدر
بنے۔ناکامی ایک ایسی شے ہے جو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کبھی بھی انسان کو اس
کا سامنا کرنا پڑے ہر انسان کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے ہر انسان چاہتا ہے
کہ وہ آگے بڑھے اور اسے اپنی منزل حاصل کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا
نہ کرنا پڑے وہ بنا روکے اپنی منزل حاصل کر لے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے منزل
تک پہنچنے کیلئے مختلف رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے راستوں میں بہت جگہ
بہت سی رکاوٹیں آتی ہیں اور ان رکاوٹوں کو بغیر اپنا حوصلہ ڈگمگاتے ہوئے
پار کرنا ہماری ذمہ داری ہے اکثر اوقات ہم کیا کرتے ہیں راستے میں پڑا ہوا
پتھر اٹھانے کی بجائے ہم راستہ تبدیل کر لیتے ہیں یا اپنی منزل ہی بدل لیتے
ہیں یاد رکھے منزل انہیں نصیب ہوتی ہے جو منزل حاصل کرنے کا حوصلہ رکھتے
ہوں۔
اگر زندگی میں کبھی بھی ہمیں ناکامی کا سامنا ہو تو ہمیں اپنے حوصلے کو
برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے نا کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ
یہ کام ہم۔سے نہیں ہو سکتا اگر ہمیں چھت پر جانا ہے تو ہمیں تمام سیڑھیوں
پر ایک ایک کر کے قدم رکھ کے جانا ہو گا چھلانگ لگا کر ہم ایک دم سے چھت پر
نہیں پہنچ سکتے اور جو اس طرح پہنچنے کے کوشش کرتے ہیں وہ منہ کے بل گرتے
ہیں ہر کام کو کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور جب ہم اس طریقہء کار سے ہٹ
جاتے ہیں تب ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ناکامی تو کامیابی کی سیڑھی
ہے جب انسان ناکام ہوتا ہے تو اسے دکھ تو بڑا ہوتا ہے لیکن جب ناکامی کے
بعد وہ صبر،حوصلے اور استقلال سے کام لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں ملنے والی
کامیابی کی خوشی دگنی ہوتی ہے کیونکہ اس کیلئے ہم نے دن رات مخنت کی ہوتی
ہے اس کی ایک حسین مثال ایڈیسن ہے جس نے 999 کوششیں کیں اور 1000ویں دفعہ
کامیاب ہو گیا اور اس نے وہ طریقہ دریافت کر لیا جس سے بلب بنایا جا سکتا
ایڈیسن نے ہمت نہیں ہاری اپنی کوشش میں لگا رہا اور بلآخر کامیاب ہو
گیا۔ناکامی کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے اور دنیا میں کامیابی صرف انہیں لوگوں
کو ملتی ہے جہنوں نے ناکامی کا سامنا کیا ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں بہت سے
بچے ایسے ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں بعض ذہنی پسماندہ بچوں
کو گفتاری اور لسانی مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس وجہ سے وہ بہتر کارکردگی
نہیں دکھا سکتے اکثر کوئی بچہ ایک یا۔دو بار فیل ہوتا ہے تو وہ ہمت ہار
دیتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکتا یا پھر والدین اس کا ساتھ نہیں دیتے جس وجہ
سے وہ غلط راستوں کا ارتکاب کر لیتا ہے حالانکہ کہ ہمیں ایسے بچوں کی تعلیم
پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس طرح کے بچے بھی آسمان کو چھو سکتے ہیں
البرٹ آئن سٹائن جو کہ انتہائی ذہانت کے حامل سائنسدانوں میں سے ہے انہیں
نو سال تک کی عمر میں بولنے میں دشواری کا۔سامنا تھا جس وجہ سے انہیں سکول
سے بھی نکال دیا گیا لیکن ان کی ناکامیاں انہیں 1921 میں طبیعات کی خدمات
میں نوبل پرائز حاصل کرنے سے نہیں روک سکی۔
بل گیٹس جو کہ مائیکروسافٹ کے بانی ہیں انہیں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی
اس کے بعد کاروبار شروع کیا جس میں مزید گھاٹا ہوا لیکن ان سب ناکامیوں کے
باوجود بل گیٹس نے مائیکروسافٹ بنا لیا ان کا کہنا ہے کہ'' کامیابی کا جشن
منانا ضروری ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سیکھا جائے ''یہ تو
صرف چند مثالیں ہیں ہماری تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہنوں نے
اپنی زندگیوں میں ناکامی کا سامنا کیا اور اپنے صبر ہمت حوصلے کو برقرار
رکھتے ہوئے کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ہماری مثبت یا منفی سوچ ہوتی ہے جو
ہمیں کامیابی یا ناکامی کی طرف لے جاتی ہے اگر تو ہم ناکامی کے بعد یہ سوچے
کے ناکامی ہمیں کیوں ہوئی اس کے پیچھے کیا وجہ تھی اور پھر ان تمام وجوہات
کو دور کرنے کی کوشش کرے تو ہم کامیابیوں کی راہ ہموار کر سکتے ہیں اس بات
کا اندازہ اس مقولے سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر تم اپنا مستقبل بنانا چاہتے
ہو تو اپنی عادات کو بدلو اور اگر عادات کو بدلنا چاہتے ہو تو سوچ کو بدلو
اور سوچ کو بدلنے کیلئے اردگرد کے ماحول کو بدلنا ضروری ہے کیونکہ انسان کی
سوچ ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا ماحول ہوتا ہے۔
کامیاب تو وہی ہوتے ہیں جو بار بار گرتے ہیں نا گرنا کمال نہیں گر کے
سنبھلنا کمال ہے ناکامی تو کامیابی کی کنجی ہے کیونکہ ستارے ہمیشہ اندھیرے
میں ہی چمکتے ہیں۔
|