فلسطین پر غاصب اسرائیلیوں کے ناپاک عزائم میں مسلسل
اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ عالمِ اسلام کے بعض حکمرانوں کی جانب سے آہستہ
آہستہ اسرائیلی حکومت کے تئیں نرم رویہ یا پھر انکے اپنے اقتدار پر فائز
رہنے کے لئے اسرائیلی و امریکی تعاون نے، فلسطینی علاقوں کے علاوہ غرب اردن
کے سرحدی علاقوں کو بھی اسرائیلی حکمراں اور سیاستداں،اسرائیلی مملکت میں
ضم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 17؍ ستمبر کو اسرائیل میں انتخابات ہونے والے
ہیں جن میں نتین یاہو کا مقابلہ دائیں بازو کی ایسی جماعتوں سے ہے جو غربِ
اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔ لیکود پارٹی کے سربراہ اور
موجودہ وزیر اعظم نتین یاہو ان دنوں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ نتین یاہو کی پارٹی کا مقابلہ دائیں
بازو کی بلواینڈ وائٹ سیاسی جماعت سے کانٹے کا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر
ہے کہ اسرائیل میں چھ ماہ میں دوسری مرتبہ انتخابات منعقد ہورہے ہیں کیونکہ
رواں برس اپریل میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح
اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی جماعت حکومت نہیں بناسکی
۔ اس مرتبہ بھی ایسے ہی مقابلہ کی امید کی جارہی ہے ان ہی حالات کو پیشِ
نظر رکھ کر اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے
اور انکے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک نئے ناپاک منصوبے کا اعلان
کیا ہے اوریہ منصوبہ ہے ’’غرب اردن‘‘ کے سرحدی علاقے کو اسرائیل میں شامل
کرنے کا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو نے اپنی انتخابی مہم کے
دوران کہا کہ اگر وہ انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہوگئے تو وہ مقبوضہ غرب
اردن کے ایک سرحدی علاقے کو اسرائیل میں شامل کرلیں گے۔ یہی نہیں بلکہ
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کی حاکمیت کو وادی اردن اور شمالی بحیرہ
مردار تک پھیلادیں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نتن یاہو کے یہ بیانات
دائیں بازو کی جماعتوں میں مقبول ہونگے جن کی وہ حمایت حاصل کرنے کیلئے
کوشاں ہیں۔ ویسے ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ کے وقت
سے غرب اردن پرقبضہ کرلیا تھا لیکن اسے اسرائیل میں شامل نہیں کیا تھا اس
کے علاوہ مشرقی یروشلم، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بھی اس نے قبضہ
کیا تھا ، اس نے مشرقی یروشلم کو تو سنہ 1980ء میں اور گولان کی پہاڑیوں کو
سنہ 1981ء میں عملاً اپنا حصہ بنالیا تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر
قبول نہیں کیا گیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ غرب اردن کی
حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے ، اسرائیل نے
غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140آبادیاں قائم کی ہیں جنہیں بین الاقوامی
قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔
نتین یاہو کا کہنا ہیکہ وہ مقبوضہ اردن میں قائم تمام یہودی بستیوں کو بھی
اسرائیل میں شامل کریں گے لیکن اس کے لئے عوام کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے
اس دیرینہ امن معاہدے کی اشاعت کا انتظار کرنا پڑے گا جس میں صدر ٹرمپ
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا امن کا منصوبہ رکھتے ہیں۔نتین یاہو
کے ناپاک عزائم تو ظاہر ہوچکے ہیں ۔ ان کے اس بیان کے بعد ذرائع ابلاغ کے
مطابق اردن، ترکی اور سعودی عرب نے شدید مذمت کی ہے ۔
سعودی عرب نے اس اعلان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے
اسے فلسطین کے خلاف خطرناک اشتعال انگیزی قرار دیا ہے اور اس حوالے سے
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا
ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی کے وزیر خارجہ نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک
بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو انتخابات سے قبل ہر طرح کے
غیر قانونی اور جارحانہ بیانات دے رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ الیکشن جیت کر
وادی اردن میں یہودی بستیاں بنانے کا نتین یاہو کا وعدہ نسلی عصیبت کی
نشاندہی کرتا ہے ، انہوں نے کہا کہ آخر دم تک اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق
اور مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے۔ عرب لیگ نے اس خطرناک پیشرفت کے عزم کی
مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دیا ہے۔ فلسطینی سفارت کار سائب ایریکٹ نے
کہا ہے کہ اس طرح کا اقدام جنگی جرم ہوگا جس سے امن کے مواقع بالکل ختم
ہوجائیں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم منگل کو منعقد ہونے والے
انتخابات میں کامیابی حاصل کرپاتے ہیں یا نہیں اور اگر کامیابی حاصل کرلیتے
ہیں تو وہ اپنے ناپاک عزائم کو بروئے کار لانے کیلئے کس طرح کے اقدام کرتے
ہیں اور انکے ساتھ دینے والوں اور مخالفین میں کون کون شامل ہونگے یہ بھی
منظر عام پر آجائے گا۔
ترکی صدر رجب طیب اردغان کی مخالفت
ترکی صدر رجب طیب اردغان کے خلاف انکے ایک پرانے حلیف اور سابقہ وزیر اعظم
علی باباکن نے اس سال کے اواخر میں اردغان مخالف سیاسی جماعت کے قیام کا
اعلان کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق علی باباکن نے اردغان کی حکمراں اے کے
پارٹی کی مخالفت میں نئی جماعت بنانے کا اعلان ایک انٹرویو کے دوران کیا
ہے۔ وہ رواں سال جولائی میں حکمراں جماعت اے کے پارٹی کے بانی رکن کی حیثیت
سے مستعفی ہوگئے تھے۔ علی باباکن وزارت عظمی سمیت وزیر خارجہ اور وزیر
برائے اقتصادی امور کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ وہ 2009سے 2015تک
ترکی کے نائب وزیر اعظم تھے۔ حکمراں پارٹی کے متعلق علی بابا کن کا کہنا
ہیکہ اے کے پارٹی اپنے بنیادی اصولوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اسی وجہ سے وہ
عرصہ دراز سے ہم خیال لوگوں پر مشتمل ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لئے
کوشاں ہیں اور اس نئی پارٹی کوسابق ترکی صدر عبداﷲ گل کی فی الحال انہیں
حمایت حاصل ہے لیکن وہ باضابطہ طور پر ابھی اس عمل میں شامل نہیں ہوئے
ہیں۔ویسے ترکی میں عام انتخابات 2023ء میں ہونے ہیں جبکہ موجودہ صدر رجب
طیب اردغان ترکی کی ترقی میں اہم رول اداکرنے والے حکمراں کے طور پر جانے
جاتے ہیں ۔ وہ 2003سے ملکی سیاسی منظرنامے پر متحرک نظر آتے ہیں، صدارت سے
قبل رجب طیب اردغان ملک کے وزیر اعظم رہے اور پھر صدر کی حیثیت سے منتخب
ہوئے ۔ مصطفی کمال کے بعد انہیں ترکی کا سب سے بااثر حکمراں تصور کیا
جاتاہے ۔ انکے خلاف فوجی بغاوت بھی ہوئی تھی لیکن جس طرح انہوں نے آناً
فاناً اس پر قابو پایا اور اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کی یہ بھی ایک
تاریخ ہے ۔ رجب طیب اردغان کو ایک کامیاب حکمراں سمجھا جاتا ہے اور عالمی
سطح پر مسلمان انہیں چاہتے ہیں اور مسلمانوں کا رہنما تصور کرتے ہیں ۔ لیکن
رواں سال جون میں ہونے والے استنبول کے میئر کے انتخابات میں انکی جماعت کو
شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اس شکست کے بعد اندرون ملک انکی پالیسیوں کو
تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا ۔اب دیکھنا ہے کہ علی باباکن کیا واقعی رجب
طیب اردغان کے خلاف سیاسی پارٹی بناپائیں گے یا پھر اردغان انہیں سمجھا
بجھاکراپنی اے کے پارٹی میں واپس لالیں گے۔
روہنگی مسلمانوں کے دیہات سرکاری عمارتوں میں تبدیل
روہنگی مسلمانوں کے میانمار میں کئی دیہات سرکاری عمارتوں میں تبدیل کرنے
کے لئے مسمار کئے جارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق روہنگی مسلمانوں کے
تقریباً دیہات مسمار کرکے وہاں پولیس بیرک ، سرکاری عمارتیں اور پناہ
گزینوں کے کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں۔ 2017ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعہ
روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کرنے اور انکی املاک کو جلا کر خاکستر کرکے
انہیں ملک سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی ۔ اس دوران سات لاکھ سے
زائد روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے نکل کرمختلف ممالک میں پناہ لی تھی،
جس میں سے کم و بیش چار لاکھ روہنگی مسلمانوں کو بنگلہ دیش نے پناہ دی تھی
۔ اس موقع پر میانمار کی رہنما نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے اپنی
حکومت اور فوج کے تئیں کئے جانے والے مظالم پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرنے
اور اس کا اعتراف کرنے کے بجائے کہا تھا کہ انہیں اپنی حکومت کے روہنگیا
بحران سے نمٹنے پر بین الاقوامی جانچ پڑتال کا انہیں کوئی ڈر نہیں ہے۔آنگ
سان سوچی نے جس طرح اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم بین الاقوامی برادری کو
یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں، اور رخائن میں امن و آمان بحال کرنے کے لئے
حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے، ہم یہ میانمار واپس آنے والوں کیلئے پناہ
گزیں شناختی عمل شروع کرنے کے لئے تیار ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ہم مذہب او
رنسل کے نام پر میانمار کو منقسم دیکھنا نہیں چاہتے ۔ لیکن آج بی بی سی
ذرائع ابلاغ کے مطابق جو رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ
میانمار کی حکومت آج بھی روہنگی مسلمانوں کی آبادیوں کو کسی نہ کسی طرح
مسمار کرکے اسے ختم کردینا چاہتی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے میانمار کے
تقریباً تمام دیہات کو مسمار کرکے اس کی جگہ پولیس بیرک ، سرکاری عمارتیں
اور پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ ماہ روہنگیا
پناہ گزینوں کی واپسی شروع کرنے کی ایک دوسری کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب
میانمار کی جانب سے منظور کئے گئے تمام 1450افراد نے واپس جانے سے انکار
کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ سٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کی جانے والی تصاویر کا
تجزیہ کرنے والے ادارے آسٹریلین اسٹریجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے اپنے اندازے
میں بتایا ہے کہ 2017ء میں جن روہنگیا دیہات کو نقصان پہنچا تھا ان میں سے
40فیصد اب مکمل طور پر مسمار کردیئے گئے ہیں۔ خیر روہنگی پناہ گزیں میانمار
واپس جانے سے گھبراتے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ انکی واپسی کے بعد پھر ان پر
مظالم ڈھائے جاسکتے ہیں۔
مصر کے ایک مریض نے حیرت زدہ کردیا
بعض اوقات عجیب و غریب خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کہیں فلاں ہاسپتل میں
ڈاکٹر نے آپریشن کے دوران مریض یا مریضہ کے جسم کے فلاں حصہ میں قینچی بھول
گئے یا کوئی اور چیز ۔ایسی خبریں عام سمجھی جاتی ہیں لیکن یہ خبر پڑھنے کے
بعد آپ حیرت زدہ ہوجائیں گے اور کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ کیسے ممکن
ہے کہ ڈاکٹروں کی ٹیم نے یہ کیسا آپریشن کیا۰۰۰؟ جی ہاں مصر ، قاہرہ کی
المنصورہ یونیورسٹی کے زیر انتظام ایک طبی مرکز (ہاسپٹل )میں ایک ذہنی مریض
کے پیٹ سے گذشتہ دنوں چمچوں اور کانٹوں سمیت مختلف اشیاء نکالیں۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق اس بیس سالہ نوجوان کو پیٹ میں درد کی شکایت پر جب ہاسپٹل
لایا گیا تو اسکے پیٹ کے درد کی شکایت پر چند ضروری معائنے اور ایکسرے
نکالے گئے جس کے بعد انکشاف ہوا کہ مریض کے پیٹ میں باورچی خانے میں
استعمال ہونے والی اشیاء کے علاوہ سونے کی انگوٹھیاں اور زنجیریں موجود
ہیں۔ ڈاکٹرس نے مریض کا فوری آپریشن کیا اور دو گھنٹے جاری رہنے والے اس
آپریشن کے دوران اس کی آنتوں سے 20سے زائدچائے کے چمچے اور فوک چمچے(کانٹے
چمچ)، سونے کی انگوٹھیاں اور زنجیریں نکالیں۔ڈاکٹروں کی ٹیم کے مطابق بتایا
جاتا ہے کہ یہ چیزیں مریض گذشتہ چھ ماہ کے دوران نگل لی تھیں۔ مریض کی
والدہ کو باورچی خانے کی کئی اشیاء اور اپنے بعض زیورات کے غائب ہونے کا
علم تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اشیاء اس کے بیٹے نے نگل لی ہیں ،
طبی ٹیم کے سربراہ کے مطابق مریض کی حالت اب مستحکم ہے۔
***
|