فاروق عبداللہ کی فریاد : اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا

وزیر اعظم نریندر مودی کے اچھے دن تقریباً ڈھائی سال تک رہے۔ نوٹ بندی کے بعد پہلی باران کا غبارہ پھوٹا اور بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار ہوا لیکن شاہ جی کی پول تو ڈھائی ماہ بعد ہی کھلنے لگی ۔ وزیر داخلہ سے ایوان پارلیمان میں فاروق عبداللہ کی غیر حاضری سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر اعلان کیا کہ فاروق عبداللہ کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ وہ بڑے مزے سے اپنے گھر میں آرام فرمارہے ہیں ۔ میں یہ بات چار مرتبہ کہہ چکا ہوں اور دس بار کہہ سکتا ہوں ۔ وہ اگر ایوان میں نہیں آنا چاہتے تو ہم ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر تو انہیں دہلی نہیں لاسکتے ۔ فاروق عبداللہ نے اسی وقت چیخ چیخ کر اس بیان کی تردید کی تھی کہ ایک ایسے وقت میں جب میری قوم آزمائش سے گزر رہی ہے میں گھر میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں ؟ فاروق عبداللہ اے این آئی کیمرے کے سامنے بلا جھجک کہا تھا کہ ہندوستان کا وزیر داخلہ جھوٹ بول رہا ہے۔ فاروق عبداللہ کی حق گوئی و بیباکی پر غالب کا یہ شعرصادق آتا ہے؎
میں بھی منْہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو، کہ مُدّعا کیا ہے​

اس ویڈیو کے ذرائع ابلاغ میں آجانے کے بعد ٹائمز ناو جیسے چینل نے الٹا فاروق عبداللہ کو جھوٹا ثابت کرنے کی مذموم حرکت کی تھی مگر بالآخر عدالت عظمیٰ کے اندر یہ ثابت ہوگیا کہ جھوٹا کون ہے ؟ وائیکو کے ذریعہ سپریم کورٹ کے اندر دائر قضیہ کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے یہ تسلیم کرکے کہ فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت حراست میں ہیں ساری دنیا کے سامنے ایوان ِ پارلیمان کے امیت شاہ کی کذب گوئی کا راز فاش کردیا۔ اس سے نہ صرف ان کا جھوٹ بلکہ بزدلی بھی ثابت ہوتی ہے۔ ایک وقت میں گمراہ کرنے کے لیے وہ بیان دیا گیا تھامگر اب خوف ہے کہ یہ ۸۳ سالہ رہنما بھی اگر عوام میں چلا جائے تو صورتحال قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ لاکھوں حفاظتی دستوں کی موجودگی کے باوجود کے ایک معمر اور بیمار رہنما سے حکومت کا اس قدر خوف کھانا اس کی بزدلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

فاروق عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کرکے حکومت نے اس دعویٰ کی خلاف ورزی کردی ہے جو دفع ۳۷۰ کے خاتمہ اور ۳۵ (الف) کو ہٹاتے وقت کیا گیا تھا کہ اب کشمیر میں حکومت ہند کے تمام قوانین نافذ ہوں گے اور جموں کشمیر کے سارے مخصوص ضابطوں کو منسوخ کردیا جائے گا۔ اس بلند بانگ دعویٰ کے خلاف دلیل خود وزیر داخلہ نے فراہم کردی کیوں کہ پی ایس اے کا قانون صرف جموں کشمیر کی حد تک ہے ۔ اس کا اطلاق ملک بھر میں نہیں ہوتا ۔ فاروق عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کرنے والوں کو شاید یہ معلوم ہی نہ ہو کہ یہ قانون شیخ عبداللہ نے اپنے صوبے میں لکڑی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے بنایا تھا اور اس کا نفاذ جموں و کشمیر تک محدود تھا۔ کشمیر کو دیگر صوبوں کے مساوی حقوق دینے کا دعویٰ کرنے والوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ کیا اب پی ایس اے پورے ملک میں نافذ ہوگا؟

پی ایس اے کے تحت دو سال تک کسی بھی شہری کو بغیر وجہ بتائے جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ معتبربین الاقوامی جائزوں کے مطابق حال میں کشمیر کے اندر ۴ تا ۶ ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس میں ایک بڑی تعداد ۱۰ تا ۱۲ سال کے بچے ہیں جن پر پتھر بازی کا الزام ہے ۔ ان میں ۷۰ نیشنل کانفرنس اور ۸۰ پی ڈی پی کارکنان بھی شامل ہیں ۔ کشمیر کی بابت مسئلہ صرف پی ایس اے میں فاروق عبداللہ کی گرفتاری کا نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے اشارے پر یا اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اس کا بھرپور استعمال خود فاروق عبداللہ نے بھی کیا لیکن کبھی اس کو ختم کرنے کا خیال ان کے ذہن میں نہیں آیا کیونکہ انہوں کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا اطلاق ان پر بھی ہوسکتا ہے؟اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھ کر یو اے پی اے کو سخت تربنانے والے امیت شاہ کو سوچنا چاہیے کہ جس طرح انہوں نے چدمبرم کو جیل بھیج دیا ہے اسی طرح ان کے بعد بر سرِ اقتدار آنے حکمراں اسی قانون کے تحت ان کو بھی بلا چوں چرا گرفتار کر کے دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔

کشمیر کے معاملے میں حکومت کی حمایت کرنے والے ملی رہنماوں کے لیے فاروق عبداللہ ایک نشانِ عبرت ہیں۔ ان کے والد شیخ عبداللہ نے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے الحاق میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ برسوں قید و بند کی صعوبتیں سہنے کے باوجو دوزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر قناعت کرلی اور ملک سے وفادار رہے ۔ فاروق عبداللہ نے اقوام متحدہ کے اندر ہندوستان کے موقف کی زبردست وکالت کی۔ وہ خود تو کانگریس کی مرکزی حکومت میں مرکزی وزیر رہے مگر اپنے بیٹے عمرعبداللہ کو اٹل جی کی حکومت میں ریاستی وزیر برائے امور خارجہ بنوایا ۔ اس کے باوجود کیمرے کے سامنے آنسو بہا رہے ہیں لیکن کسی کو ان پر ترس نہیں آتا ۔ اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ کہہ کر یا وہ ہمارا تھا ، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا نعرہ لگا کر سنگ دل حکمرانوں کے دل میں اپنی جگہ بنا لے گا تو یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگوں سے غالب کی زبان میں پوچھنا چاہیے؎
دلِ ناداں تُجھے ہُوا کیا ہے​
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے​

کشمیر کے اندر عبداللہ خاندان کے علاوہ مفتی خاندان بھی بڑا طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ عمر عبداللہ کے ساتھ فی الحال محبوبہ مفتی بھی نظر بند ہیں ۔ محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید ہندوستان کے وزیر داخلہ تھے ۔ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر جموں کشمیر میں حکومت سازی کی اور کی بیٹی محبوبہ مفتی نے بھی بی جے پی کے اشتراک سے صوبائی حکومت چلائی ۔ اس کے باوجود سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی ثنا مفتی کو کہنا پڑا کہ مجھ سے مجرموں جیسابرتاؤ کیاجارہاہے،مسلسل نگرانی کی جارہی ہے،سچ بولنے پرمجھے جنگی مجرم جیسے برتاؤکاسامناہے ۔محبوبہ مفتی کی بیٹی ثنا التجانےتقریباً ایک ماہ قبل وزیر داخلہ کو صوتی پیغام اور خط بھیج کر اپنی جان کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے میں بتایا تھا کہ والدہ کی گرفتاری کے بعد انہیں بھی نظر بند کر دیا گیا ہے نیز ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔

ایک سابق وزیر اعلیٰ کی بیٹی کو دھمکیاں موصول ہوتی ہیں تو عام لوگوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ثناءالتجا جاوید کو اپنی نظر بند والدہ سے ملنے کی اجاز ت لینے کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑا۔ اس پر عدالتِ عظمیٰ نے انہیں والدہ سے ملنے کی اجازت کے لیے ضلعی مجسٹریٹ سے رجوع کرکے اجازت لینے کی تلقین کی لیکن سری نگر میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کے بجائے انتظامیہ کا راستہ دکھا دیا ۔ جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد رونما ہونے والے سنگین حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی جیلوں میں بند 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی گرفتاری پر حقوق اطفال کارکن اناکشی گانگولی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ انہوں نے متعلقہ مقدمات کی تفصیل طلب کی جن کو ہائی کورٹ کمیٹی دیکھ رہی ہے۔

اس تشویشناک معاملے کو چیف جسٹس جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں منتقل کرنا چاہتے تھے لیکن اس پر اعتراض کرتے ہوئے اناکشی کے وکیل حصیفہ احمدی نے کہا ’’ ایسا کرنا بیحد مشکل ہے، ہائی کورٹ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے‘‘۔ اس تبصرے نے منصف اعظم کو بے چین کردیا اور بولے یہ بیحد سنگین معاملہ ہے کہ لوگ ہائی کورٹ میں اپنی اپیل نہیں کر پا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس پر جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے رپورٹ طلب کی اور یہ سوال بھی کیا کہ ہائی کورٹ اپیل کنندگان کی پہنچ میں ہے یا نہیں؟ سی جے آئی نے آگے کہا ’ یہ بیحد سنگین معاملہ ہے۔ میں خود نجی طور پر فون پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بات کروں گا۔ ضرورت پڑی تو ریاست کا دورہ بھی کروں گا‘‘۔ ویسے سی جے آئی نے عرضی گزار کو انتباہ بھی دیا کہ اگر یہ دعویٰ غلط نکلا تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

ہندوستان کے تمام ہی انصاف پسند دانشور ببانگ دہل یہ اعلان کررہے ہیں کہ کشمیر کی دگر گوں صورتحال کے لیے سیاسی مفاد کے پیش نظر دفع ۳۷۰ کا خاتمہ ذمہ دارہے۔ ایسے میں علمائے امت کا اس غیر حکیمانہ سرکاری فیصلے کی بھرپور حمایت کرنے کے بعد یہ اعلان کرنا کہ کشمیر ہمارا ہے اور کشمیری ہمارے ہیں چہ معنی دارد۔ کشمیری اگر ہمارے ہیں تو ان کا دکھ درد کیوں محسوس نہیں کیا جاتا اور ان کو صعوبت میں مبتلا کرنے والوں کی مذمت کرنے کے بجائے حمایت کیوں کی جاتی ہے؟ کشمیری عوام اور ان کے رہنماوں کے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک پر احتجاج کیوں نہیں ہوتا یا کم از کم ایسا کرنے والوں کی پشت پناہی کی جاتی ؟ کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ کہنے والے فاروق عبداللہ تو کشمیر سے بلا مقابلہ منتخب ہوکر ایوان پارلیمان کے رکن بنے ہیں۔ اس کے باوجود اگرانہیں بلا قصور کے پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا جاسکتا ہے تو کسی اور کی کیا بساط ہے۔ ایسے میں حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کرنے والوں کی کیفیت غالب کے اس شعر کی مصداق ہے کہ ؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
(۰۰۰جاری)

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1231986 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.