کال کوٹھری والا

پاکستان کو وجود میں لانے کے لیے جب قائد اعظم محمد علی جناح سر توڑ کوشش کر رہے تھے تو ان دنوں قائد ملت کی طبعیت نہایت ہی ناساز تھی اور ان نے پاکستان کے لیے پانچ سال بیماری کے ساتھ ساتھ آزادی کی جنگ لڑی مادر وطن کے وجود میں آنے کے بعد ان نے صرف قوم میں شعور بانٹا جو کہ آپ آج بھی ان کی تقاریر اور بیانا ت پڑھ کر اندارہ لگا سکتے ہیں ۔

قریباً 70سال پہلے کی سیاست جو کہ قائد اعظم نے کی وہ شعور و علم سے لبیرز سیاست تھی جس کا تھوڑا بہت فائدہ آجکل بھی ان کے چاہیے والے اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن دور حاضرمیں بالکل اس کے بر عکس ہے اب علم و شعور سیاست سے بہت دور ذہن کی جیل میں ایک کال کوٹھری میں بے جان پڑا ہے ملک کی باگ ڈور مکاروں ، عیاشوں اور شعبدہ بازوں کے ہاتھ میں ہے انہیں لوگوں نے عوام کے اندرباہمی انتشار ، اداروں کے خلاف منفی سوچ اورملکی حالات سے غافل ہونے کی سوچ کو پروان چڑھا یا ہے لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ مستقبل کی کسی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہی لڑنا پڑے گا نہ کہ ان لوگوں کو قانون کی حالت یہ ہے کہ ایک شخص ایک بلڈنگ پرچڑھ کر غربت کے ہاتھوں تنگ ہو کر خود سوزی کرتا ہے لوگ موقع پر پہنچ کر جان بچاتے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے پکڑ کر تھانے لے جاتے ہیں خود کشی کے جرم میں اس پر رپٹ دائر کی جاتی ہے وہ جسمانی ریمانڈ کے دوران تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے ادھ موئے سے پورا مر جاتا خیر مبار ک محروم کو حرام موت سے بچ کر مظلوم بن کے مر گیا ۔

ایک دفعہ مجھے کہیں تھوڑا سفر کرنے کا موقع ملا ۔ گاڑی میں چار ہزار کا پیٹرول بھروایا میرے ساتھ میرا ہمسفر ایک دوست تھا جو کہ ایک بہت اچھے سرکاری محکمے کا ملازم تھا اس نے بتایا کہ اگر پاکستان میں ٹیکس نہ ہوں اور یہ ملک ٹیکس فری ہوتو جتنا پٹرول آپ نے چار ہزارمیں بھروایا ہے یہی پٹرول دو ہزار میں بھرواتے میں یہ سن کر حیران تھا کہ میں ایک دن کی شروعات دو ہزار ٹیکس اد ا کر کے چکا ہوں روڈ پر ٹال ٹیکس کے عوض 180روپے اداکئے واپسی گھر آیا تو قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا ء کا رخ کیا ٹونٹی کھولی تو ایک دفعہ پھر ٹیکس ذہن میں آگیا خیر حاجت کے لیے استعمال پانی پر ٹیکس ادا کیالوٹے کو اٹھا کر دیکھا کیونکہ اس پر بھی ٹیکس ادا کیا ہوا تھا یعنی گاڑی کے پیٹرول سے لے کر استجاء کرنے تک میں ٹیکس ادا کر چکا ہوں تھا لیکن مجھے اور میری عوام کو آج تک اس بات سے لاعلم رکھا گیا ہے کہ ہمارا ٹیکس کدھر جاتا ہے کہاں استعمال ہوتا ہے صرف پیٹرول سے اکھٹے کئے گئے روز کے اربوں روپے کدھر جاتے ہیں ڈیزل اور سی این جی علیحدہ ہیں میرے جیسے لاکھوں لوگ روز حکومت کو دو ہزار سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں و ہ نظر کیوں نہیں آتا ۔ اس وقت پیڑول پر سو فیصد ٹیکس ہے ایک تحقیق کے مطابق پیڑول پر جو اضافی پیسے ہوتے ہیں روپے نہیں مثلا اگر پیٹرول 100.98پیسے ہوتے ہیں روپے نہیں تو یہ .98پیسے روز کے اربوں بنتے ہیں یہ کہاں جاتے ہیں حالانکہ ہمارے پاس پیسے میں کوئی کرنسی نوٹ یا سکہ نہیں سب روپے سے شروع ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد وزارت خزانہ ترقیاتی کاموں کے لیے قومی اسمبلی کے ممبرز ، صوبائی اسمبلی کے ممبرز اور ڈی سی او ز کو فنڈز مہیا کرتی ہے یہ میرا اور عوام کا پیسہ ہوتا ہے ان پیسوں کو ایسے استعمال کیا جاتا ہے جسے حوس پرست مجروں پر نچھاور کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ میرا ایک دوسست جو اپنے ایک دوست کا گھر بنوا رہا تھا اس نے بتایا کہ ہمارے گاؤں کے گورنمنٹ سکول کے لیے ایک کمرہ منظور ہوا ہے جو اب تعمیر بھی ہو چکا ہے اس پرپنتالیس لاکھ سے زیادہ لاگت آئی ہے جو ٹھیکے دار ضلعی حکومت سے وصول کر چکا ہے لیکن وہ دوست جو گھر تعمیر کروا رہا تھا وہ ایک خاصی اچھی کوٹھی تھی جس پر مکمل لاگت پنتیس لاکھ تھی ۔جب ایک ضلعی حکومت دو سے تین لاکھ کے کمرے کی تعمیر کے لیے بیالیس لاکھ زیادہ ادا کرتی ہے تو مجھے میرا وہی شعور جو کال کوٹھری میں بند ہے نوچتا ہے طعنے مارتا ہے کہ تیرے پیسے کے ساتھ کیا کھلواڑ ہور ہا ہے تیروں پر مبارک لکھ کر دماغ میں پیوست کرتا ہے کہ قفس میں قید شعور۔۔۔۔۔

ایک ٹھیکیدار ایک گاؤں میں سولنگ لگوا رہا تھا سولنگ کا معائنہ کرنے ایک ٹیم ضلعی حکومت کی جانب سے وہاں آئی بہت خوشی ہوئی کہ کچھ لوگ آج بھی کام ایمانداری سے کرتے ہیں لیکن وہاں پر موجود ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ سولنگ کا معائنہ کرنا ہے تو کر لو لیکن ٹھیکیدار کو کوئی مشکل نہیں آنی چاہیے دونوں مسکرائے اور گاڑیوں میں سوار ہو کر چلتے بنے میں سمجھ چکا تھا کہ تین لاکھ کی لاگت والے کمرے کے لیے بیالیس لاکھ کا ٹھیکہ کیوں دیا جاتا ہے کیونکہ بیالیس لاکھ ضلعی حکومت ،معانئے والی ٹیم، اعلی عہدیداروں اور ٹھیکے داروں کی جیبوں کی رونق بننے کے لیے میرے اور آپ کے پیسے دئے جاتے ہیں ۔

کیا یہ لوگ کبھی کسی کو کہتے ہونگے کہ ہم حلال کماتے ہیں ؟کیا ان کی اولادیں نیک اور پارسا ہو ں گی ؟کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کو حکمران بنا کر بٹھا دیا جائے ؟

کال کوٹھری والا مجھے کہتا ہے کہ تم لوگ جاہل بلکہ تم لوگ اس ملک کی سیاست ، سالمیت ، دفاع اور ترقی کے ابو جاہل ہو ، تم لوگوں نے چوروں کو امامت کے لیے بلایا ہوا ہے ۔ تم جاہل ہو کہ ان پڑھ تمھارا ملک چلاتے ہیں اور پڑھ لکھے گدھے گاڑیاں وہ کہتا ہے کہ جب تک تم مجھے قید رکھو گے ۔ تم بھی غائبانہ زنجیروں میں جکڑے رہو گے ؟

Usama khan Daultana
About the Author: Usama khan Daultana Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.