آہ!یہ منظر بھی آنکھوں نے دیکھا ۔کانوں نے
سنا۔حسرت ،ندامت اور شرمندگی کا دریا ہے جس میں قلب مضطرب ڈوبا ڈوبا جاتا
ہے۔ایسے میں امت مسلمہ کی بے بسی وبے کسی، لاچارگی کے احساس کو بڑھاوا دے
جاتی ہے۔ہر معتدل سوچ مغرب کی جانب سے توہین قرآن کے واقعے پر غلطاں وپیچاں
ہے۔ ملعون پادری ٹیری جونز کی ناپاک جسارت ،یورپ کی وسعت نظری اور رواداری
کے دعووں کا کھلا جنازہ ہے۔اقوام عالم میں اپنا شمار مہذب ،شائستہ اور ترقی
یافتہ تہذیبوں میں کرانے والا امریکا اندر سے کتنا کھوکھلا،تنگ نظر اور
متعصب ہے ؟اس کی تازہ ترین گواہی فلوریڈا میں واقع چرچ کے مذموم اور ناقابل
بیان اقدام سے ملتی ہے۔ ثابت ہوگیا کہ دوسروں کو اعتدال کا درس دینے والے
خود بے اعتدالی کے خوگر ہیں۔ہر وقت مسلمانوں کو تنگ فکر ،محدود سوچ اور عدم
برداشت کے طعنے دینے والے خود اس روگ میں مبتلا ہیں۔کفریہ طاقتیں اپنے
ظاہری لب ولہجے کو کتنا ہی میٹھا اور شیریں بنالیں مگر کلام مقدس کی یہ خبر
اپنا آپ منوا کر ہی رہتی ہے کہ ”یہ یہود ونصاری دل سے چاہتے ہیں کہ تم
تکلیف اٹھاﺅ،بغض ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے،اور جو عدوات ان کے سینے
چھپائے ہوئے ہیں وہ کہیں زیادہ ہے۔“(آل عمران، 118)
شیطان نما انسان ٹیری جونز اور اس قبیل کے دوسرے افراد یا گروہ کے خبث باطن
کے پس منظر میں کیا ذہنیت کار فرما ہے؟اس کا جواب بہت آسان اور واضح
ہے۔بلاشبہ فرقان عظیم روز اول سے اسلام دشمنوں کے لیے ناقابل برداشت رہا
ہے۔کیونکہ یہی وہ سچی ،ابدی اور سرمدی کتاب ہے جو ان کے سابقہ کرتوتوں اور
مجرمانہ رویوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ماضی میں ضالین ومضلین نے احکام ِخداوندی
کو کس طرح پامال کیا ؟خواہشات نفس کی غلامی نے انہیں ضلالت کی کن اتاہ
گہرائیوں میں دھکیلا؟حق سبحانہ وتعالیٰ کے رسولوں اور نبیوں علیھم السلام
کی کھلم کھلا بغاوت اور ان کی اتباع سے اعراض کی روش نے انہیں دنیا وعقبیٰ
کی کن رسوائیوں اور ناکامیوں سے دوچار کیا؟یہ اور ان جیسے دیگر مبنی بر
حقیقت سوالات کے جواب میں ،کلام الٰہی بنی نوع انسان کی کامل رہنمائی اور
مکمل رہبری کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کو طاغوت کی پیروی کے ہولناک نتائج
سے آگاہی دیتا ہے۔بدی کی قوتوں کا نیکی کے چشمہ صافی کے خلاف یہ عناد تب سے
قائم ہے ،جب غار حرامیں اس پاکیزہ ،قابل تکریم اور کائنات کی سب سے سچی
آسمانی کتاب کی پہلی وحی نازل ہوئی۔
حق وباطل کے مابین یہ معرکہ آرائی پہلے دن سے جاری ہے۔فرق اتنا ہے پہلے
معرکے رزم گاہوں میں ہوا کرتے تھے۔اب ان کا میدان ہر دھڑکنے والا دل
،دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دماغ ہے۔اس فکری جنگ میں صہیونی طاقتوں
کا نشانہ ہر وہ صاحب ایمان ہے جو اسلام ،قرآن اور صادق مصدوق صلی اللہ علیہ
وسلم سے اپنی نسبت کو باعث نجات اور مایہ آخرت جانتا ہے۔مغربی چرچوں میں
پیش آمدہ افسوسناک واقعات دراصل اہل اسلام کی ایمانیات کو جانچنے کا وہ آلہ
ہیں، جس کے سیماب میں کمی یا زیادتی، اعداء اسلام کو اپنے دجالی منصوبوں کے
لیے پھیلائی جانی والی سازشوں کے بارے میں کامیابی یا ناکامی کا پتا دیتی
ہے۔
اب جو شخص اسلام کا دعویدار ہے۔وہ اپنے کردار،عمل اور قول کو پرکھے اور
دیکھے کہ اس کی زندگی کس قدر قرآن مبین سے قریب ہے؟اس نے حیات مستعار کے
گنے چنے لمحوں کو کہاں تک قرآنی سانچے میں ڈھال رکھا ہے؟اس کے دل میں ہدایت
کی پیاس نے اسے کتنا بے چین کر رکھا ہے؟وہ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لیے
کہاں تک کتاب لاریب سے رجوع کرتا ہے؟اس کا اپنا ربط وجوڑ اہل قرآن یعنی
حضرات علما کرام سے کس حد تک استوار ہے؟کہیں شیطان کے پھیلائے گئے پھندے
میں پھنس کر ”مولویت“سے چڑ تو نہیں گیا؟کیا یہ امر کسی المیے سے کم نہیں کہ
ایک طرف کلام مبارک کو نذرآتش کیا گیا اور اگلے دن پوری قوم کرکٹ میں
فتحیابی کا جشن پورے تزک واحتشام کے ساتھ منا رہی تھی۔خوشی اور غمی کے
پیمانوں میں اس قدر واضح تفاوت اور فرق اہل ایمان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
بے شک کتاب مقدس کی بے آبروئی اور اہانت کی جس قدر پرزور مذمت کی جائے کم
ہے۔اظہار مذمت کے لیے جتنے جائز ذرائع ووسائل اختیار کیے جاسکتے ہوں وہ
اپنی جگہ درست اور برمحل ہیں۔مگر ہم اور آپ اس واقعے پر زبانی کلامی ردعمل
تک محدود ہو کر نہ رہ جائیں۔بلکہ اپنی زندگیوں میں صالح انقلاب پیدا کریں۔
ایسی راست تبدیلی جس سے ہمارا رشتہ کلام اللہ سے مزید مستحکم اور پائیدار
ہو۔دشمنان ِقرآن کو منہ توڑ جواب اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب ہمارے انفرادی
واجتماعی مزاجوں میں قرآنی تعلیمات کا نور جھلکتا نظر آئے گا۔جب ہم قرآنی
زبان میں سیسہ پلائی عمارت کی طرح متحدومتفق ہوں گے۔جب ہمارے دل ونظر تلاوت
اور تدبر قرآن سے آباد و شاداب ہوں گے۔ اگر ہم اپنے معصوم بچوں کا تعلق
ابھی سے کلام پاک سے مضبوط کردیں توکل یہی نوخیز نسل اسلام وقرآن اور صاحب
قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کی پشتیبان ہوگی۔
یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ امریکا،اسرائیل اور ان کی ہم نوا
ریاستیں اپنے اپنے ملکوں میں قرآن اور قرآنی احکام کی ہتک اور بے حرمتی کے
واقعات کو بھرپور شہہ دے رہی ہیں، مگر اس کے باوجود اسلا م مغرب کا دوسرا
بڑا مذہب بن چکا ہے۔وہ پرد ہ اور حجاب جس کے متعلق مغربی مفکرین قید اور
گھٹن کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے تھے،آج وہاں مردوں کی ہوسناکی کا نشانہ
بننے والی صنف نازک کے لیے قلبی وروحانی سکون کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔جو
بھی یورپی باشندہ خالی الذھن ہوکر قرآن حکیم کا مطالعہ کرتا ہے ،اس کی
تعلیمات وہدایات کو اپنے دل ودماغ کے قریب پاتا ہے۔اُسے اسلام مخالف نعرے
مکڑی کا جال معلوم ہوتے ہیں۔اسلام کی واضح تصویر نظر آنے پر وہ خود کو قبول
ِاسلام پر مجبور پاتا ہے۔یہ سب آخر کیا ہے؟یہ اسلام کی وہ آفاقی صداقت اور
اعجاز ہے جس کے متعلق رب ذوالجلا ل فرماتے ہیں:”دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ
اپنے منہ سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کی تکمیل کر کے
رہے گا،چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔“(سورة الصف،08)
عین ممکن ہے صہیونی گماشتوں کی یہ ناپاک جسارتیں مغربی دنیا میں قرآن کی
شمع فروزاں ہونے ،اسلام کی روزافزوں ترقی اور نشاة ثانیہ کا سبب بن
جائیں۔ان ظالموں اور شیطانوں کی تدبیریں ان ہی پر الٹ جائیں۔ آزر کے گھر سے
ابراہیم کے پیدا ہونے کا منظر دنیا ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ
لے۔وماذلک علی اللّہ بعزیز |