آئین کے آرٹیکل 5میں درج ہے کہ ریاست کے سب شہری
ریاست کے وفاداراورآئین وقانون کی پاسداری کے پابند ہیں۔ریاست کے ہرشہری
کوپرامن احتجاج کاجمہوری حق حاصل ہے ۔آئین وقانون کے مطابق
شاہراہوں۔چوراہوں کوبندکرنا۔دھرنادے کر شہریوں کی زندگی میں مشکلات
پیداکرناریاستی امن وامان کی صورتحال کوچیلنج کرناملکی قانون کی سخت خلاف
ورزی تصورہوتاہے۔آئین وقانون کی موجودگی میں جب کسی بڑی جماعت کوحقوق
اورانصاف حاصل نہیں ہوتایامطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے تب اس کے سامنے
احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتااورجب سادہ احتجاج پراہل اقتدارتوجہ
نہ دیں تب مطالبات منوانے کیلئے شاہراہوں اورچوراہوں کوبندکرنے کے سواکوئی
چارہ نہیں رہتا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ایک کے بعد ایک احتجاج۔لانگ
مارچ اوردھرنے کے بعدبھی کچھ نہیں سیکھا۔مولانافضل الرحمان کی جانب سے
حکومت مخالف احتجاج پاکستانی قوم کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔پاکستان کی
سیاستی تاریخ میں احتجاجی دھرنوں۔مظاہروں اورمارچوں کی داستانیں کثرت کے
ساتھ موجودہیں۔پچھلی5دہائیوں میں ہم نے پاکستان بھرمیں اورخاص طورپروفاقی
دارلحکومت اسلام آباد میں کئی سیاسی ومذہبی تحریکیں دیکھیں ہیں۔ ایک لانگ
مارچ سابق صدر ضیاء الحق کے زکواۃ اورعشرآرڈیننس کیخلاف چاراورپانچ جولائی
1980ء کو مفتی جعفر حسین کی قیادت میں شیعہ برادری نے نکالا۔ مظاہرین کی
جانب سے وفاقی سیکریٹریٹ پرحملہ کردیاگیا۔حکومت نے شیعہ برادری کے احتجاج
کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مطالبات تسلیم کرلئے اور انہیں ریاست کوزکواۃ
دینے سے مستثنی قراد دے دیا۔1992ء میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈرمحترمہ بے
نظیر بھٹو نے 1990ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کوبنیادبناکرلانگ مارچ کیا
جس کے نتیجے میں سابق صدر غلام اسحق خان نے میاں نواز شریف کی پہلی حکومت
کو تحلیل کردیا جسے 26 مئی1993ء کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔اگلے سال
16جولائی 1993ء کوبے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا جس سے
پیداہونے والی نازک صورتحال کوبہترکرنے کیلئے سابق صدراسحٰق خان اورسابق
وزیراعظم میاں نواز شریف کو مستعفی ہونا پڑا 1999ء میں جماعت اسلامی کے
سابق سر براہ مرحوم قاضی حسین احمد نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں
ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے موقع پر لاہور میں
دھرنا دیا تھا۔مارچ2007ء میں سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس
افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلا ء نے عدلیہ بحالی کیلئے تحریک
چلائی۔ تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا اور پھرسابق چیف
جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار۔ اعتزاز حسن۔منیر اے ملک اور علی احمد کرد کی
قیادت میں لانگ مارچ شروع ہواجس کے نتیجے میں متاثرہ ججز مختصر عرصہ کیلئے
بحال توضرورہوئے پرنومبر 2007 ء میں سابق صدرپرویزمشرف نے ایمرجنسی نافذ
کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کومعزول کرکے ججزکو نظر بندکردیااورپی سی او کے تحت
دوبارہ حلف اٹھانے کو کہا۔ججزکی اکثریت کی جانب سے مزاحمت پر وکلاء نے
دوسری مرتبہ احتجاج شروع کیا۔اسی دوران بینظیربھٹوکی شہادت کے بعدآصف
زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔وکلاء برادری
اورن لیگ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عدلیہ بحالی تحریک کے
حوالے سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دے دی۔لاہور سے شروع ہونے
والامارچ گجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے
رات گئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اوردوسرے ججز کو بحال کرنے کا اعلان
کردیا۔پھرمولاناطاہرالقادری کامارچ اوردھرنا۔ن لیگ کے دورحکومت میں موجودہ
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اورمولاناطاہرالقادری
کی قیادت میں عوامی تحریک کالانگ مارچ اورددھرنا۔عوامی تحریک کی کامیاب
مذاکرات کے بعد واپسی جبکہ تحریک انصاف نے تاریخ کاطویل ترین126دن
دھرناجاری رکھاجوسانحہ پشاورسکول کے بعدرضاکارانہ طورپرختم کیاگیا
ن لیگ کی حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی صورت میں ختم نبوت کے
حلف نامے میں تبدیلی۔سیون سی اورسیون بی کی منسوخی کے بعدمولاناڈاکٹراشرف
آصف کی قیادت میں تحریک لبیک یارسول ﷲ ﷺ جوبعد میں تحریک لبیک اسلام کے نام
سے رجسٹرڈہوئی کاڈی چوک میں دھرنے کے بعدمولاناخادم حسین رضوی کی قیادت میں
تحریک لبیک یارسول اﷲ ﷺ جوتحریک لبیک پاکستان کے نام سے رجسٹرڈہے کامارچ
اورفیض آبادکے مقام پربیس روزجاری رہنے والادھرناجس کیخلاف تاریخ میں پہلی
بار ن لیگ کی حکومت نے سخت ترین آپریشن کیاجس میں احتجاج کرنے والوں کی
شہادتیں بھی ہوئی پریہ دھرناتاریخ کاواحد دھرناہے جواپنے مطالبات منوانے کے
بعد کامیابی پراختتام پزیرہوااوراب الیکشن2018ء کوجعلی۔وزیراعظم پاکستان
کوناجائزاورنااہل قراردے کرجمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانافضل
الرحمان نے پاکستان پیپلزپارٹی۔ن لیگ اوردیگراپوزیشن جماعتوں کی مشاورت کے
بعد27اکتوبرکے دن جب مقبوضہ کشمیراورپاکستان کے عوام دنیابھرمیں یوم سیاہ
منارہے ہوں گے اُس دن مقبوضہ وادی کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے
ہوئے حکومت مخالف لانگ مارچ کااعلان کردیاہے جس کی منزل اسلام آبادہوگی
جہاں وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے اورنئے عام انتخابات کروائے جانے کے
مطالبات کے حق میں دھرنادینے کاارادہ رکھتے ہیں۔مولاناآزادی کامارچ
اوردھرناماضی سے مختلف ہوگاجس کاسامناکرناحکومت کیلئے آسان نہیں
لگتا۔مولاناپوری تیاری اور قوت کے ساتھ احتجاج کاارادہ رکھتے ہیں۔تحریک
لبیک کے کامیاب دھرنے کی مثال بھی مولاناکے سامنے ہوگی جسے دیکھ کر
لگتانہیں کہ مولاناڈی چوک میں دھرنادیں گے۔حالات کی شدت بتاتی ہے کہ
مولاناکی کوشش ہوگی کہ اسلام آباد کوہرطرف سے بندکرکے فوری نتیجہ حاصل
کیاجائے۔پی ٹی آئی اورعوامی تحریک کے مارچ کی طرح مولانافضل الرحمان آزادی
مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آبادپہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں
توپھرحکومت کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑے گا۔مولاناکی سیاسی جماعت کومذہبی
سپورٹ بھی حاصل ہے ان کی جماعت کی تنظیم سازی بھی تحریک لبیک سے پرانی
اورمضبوط ہے جسے دیکھ کرلگتاہے کہ آزادی مارچ شروع ہونے کے بعد
مولاناکوروکناانتہائی مشکل ہوجائے گا۔احتجاج کے پیش نظرحکومت کودرپیش
مشکلات کودیکھتے عوام کچھ اورہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔مہنگائی کے ستائے
عوام کی اکثریت کومولانافضل الرحمان کے احتجاج میں دلچسپی معلوم ہوتی ہے نہ
ہی پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ کوئی ہمدردی۔جب عمران خان کے طویل دھرنے کے
دوران ن لیگ کی حکومت نے پیٹرول کی قیمت کم کی تواس وقت پی ٹی آئی والوں نے
اس کا کریڈٹ عمران خان کے دھرنے کودیا۔آج جب مہگائی نے عوام کاجیناہی نہیں
بلکہ مرنابھی مشکل کردیاہے توعوام کیلئے مولانا کادھرناخوشی کاباعث بن
رہاہے جس سے لوگ امیدکررہے ہیں کہ حکومت مہنگائی میں کمی لاکرعوام کوریلیف
دے گی تاکہ لوگ مولاناکے مارچ یادھرنے میں شرکت یاحمایت کی بجائے تنقیدکریں
جبکہ راقم کے ذاتی خیال میں حکومت اوردیگرریاستی ادارے ایک پیج پرہیں۔افغان
امن کی بحالی کیلئے افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان مذاکرات اسلام
آبادمیں ہورہے ہیں۔ایران سعودی کشیدگی کم کروانے کیلئے پاکستان
بھرپورکرداراداکررہاہے بڑھتی مہنگائی۔بیروزگاری۔ابترمعاشی صورتحال بھی
حکومت کیلئے بڑے جیلنجزہیں۔تنازعہ کشمیرپرپاک بھارت گشیدگی کومدنظررکھاجائے
تواس وقت ریاست کسی قسم کے احتجاج کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں
لگتی۔مولانافضل الرحمان کاآزادی مارچ توممکن لگتا پردھرنادینے سے انہیں روک
دیاجائے گا۔اس بات کافیصلہ وقت کرے گاکہ حکومت مولانافضل الرحمان کوکسی
قابل قبول پیشکش کے نتیجے میں منانے میں کامیاب ہوتی ہے
یاپھرمولاناکوپابندسلاسل کرتی ہے
|