کسی کو ہیرو بنانا مقصود ہو تو اس کی ذات کے حوالے
سے کئی خود تر اشیدہ تصورات اس طر ذہن نشین کروا ئے جاتے ہیں کہ ان پر سچ
کا گمان ہونے لگتا ہے ۔اس کو میڈیا ٹرائل کا نام بھی دیا جاتا ہے جس میں
کسی ایک فرد کو خوب رگیدا جاتا ہے جبکہ کسی مخصوص فرد کی خو بیو ں کے جی
بھر کر گن گائے جاتے ہیں۔کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب ممدوح شخصیت زوال کی
جانب گامزن ہو جاتی ہے تو پھر کوئی نیا بت تراش لیا جاتا ہے اور اس طرح یہ
سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔آج کل اپوزیشن ایک دفعہ پھر جیلوں میں
نظر بند ہے اور کڑے امتحان سے گزر رہی ہے جس کے بارے میں یہ تاثر دیا جا
رہا ہے کہ اپوزیشن کے پسِ زندان ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ عمران خان بر سرِ
اقتدار ہیں جو بے لاگ احتساب کے حامی ہیں ۔بقول ان کے وہ افراد جن کے بارے
میں کل تک یہ تصور کرنا بھی محال تھا کہ کوئی ان کو چھو سکتا ہے محض عمران
خان کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ سیاست میں نوواردوں کیلئے تو یہ
بیانیہ قابلِ التفات ہو گا لیکن وہ جو سیاست کی وادیوں میں طویل عرصے سے سر
گردانی کر رہے ہیں ان کیلئے یہ بیانیہ بالکل غیر حقیقی ہے کیونکہ اپو زیشن
تو ہر دور میں زیرِ عتاب رہی ہے۔پہلے تو اس بات کو واضح ہونا چائیے کہ وہ
کون سے افراد ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انھیں کسی حکمران کو
چھونے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ آصف علی زرداری، خور شید شاہ، محترمہ بے نظیر
بھٹو،میاں محمد نواز شریف،شہباز شریف تو پہلے بھی قلعہ اٹک اور سکھر جیسی
جیلوں میں مقید رہے ۔ پاکستان میں تخلیقِ پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی
ایک مخصوص گروہ نے اقتدار پر اپنی بالا دستی قائم کر لی تھی جس کی وجہ سے
صفِ اول کی سیاسی قیادت کو یا تو زندانوں کی ہوا کھانی پڑی یا پھر جلا وطن
ہو نا پڑا۔ایوب خان کے ایبڈو سے شروع ہونے والا ڈرامہ ابھی تک اپنی ساری
حشر سامانیوں کے ساتھ رو بعمل ہے۔کیا کوئی ذولفقار علی بھٹو سے بھی بڑا
لیڈر ہے؟ اسے بھی تو زندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رکھاگیا تھا ۔اس
کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک کرنے والا کوئی اور نہیں اس ملک کاامیرالمومنین
جنرل ضیا الحق تھا۔وہ خود تو فضائی حادثہ میں رزقِ زمین ہوا لیکن اس کی
لگائی ہوئی آگ میں ہزاروں انسان جل کر بھسم ہو گے ۔کوئی ایسا حریت پسند
بتائیے جسے شاہی قلعے کی عقوبت گاہوں سے نہ گزارا گیا ہو،کوئی نام لیجئے جو
فرعونِ وقت کی سولی پر نہ چڑھا ہو؟کوڑے، پھانسیوں اور جیلوں میں انھیں انسا
نیت سوز مظالم کا نشانہ نہ بنایا گیا لیکن اس کے باوجود حریت پسندوں کی
للکار مدھم نہ ہو سکی لہذاان کی للکار کے سامنے عقوبت گاہوں کے مخافظوں کو
سر نگوں ہو نا پڑا ۔جمہوری قدروں کو سفر شروع ہو ا تو شب خونوں سے کئی حکو
متوں کا خاتمہ کیا گیا اور منتخب حکومت کے عمال کو کئی بار پھر زندانوں کی
ہوا کھانی پڑی ۔منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کوایک سال تک عدالتوں
میں گھسیٹنے کے بعد سعودی عرب جلا وطن کیا گیا۔وہ سعودی عرب میں جلا وطن ہو
گے تا کہ طالع آزما اقتدار کی گھوڑی کا جی بھر کر مزہ لے سکے۔رقص و سرور
اور طاؤس و رباب کی محفلیں سجیں لیکن وہ جو عوام کے منتخب قائد تھے ان
کیلئے اپنے وطن کی زمین تنگ کر دی گئی۔انھوں نے اگر کبھی وطن لوٹنے کی کوشش
کی تو انھیں زبردستی جلا وطن کر دیا گیا۔یہ الگ بات کہ جلا وطنی کا پروانہ
جاری کرنے والا قانون کے خو ف سے خود جلا وطنی پر مجبور ہے۔اسے بار بار کہا
جا رہا ہے کہ وہ وطن واپس لوٹے لیکن وہ کسی کی نہیں سن رہا کیونکہ اس میں
جیل کی بلندو بالا دیواروں میں رہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔وہ بہادر ہو گا،وہ
جانباز ہو گا۔وہ جی دار ہو گا،وہ با جرات ہو گا ۔وہ دلیر اور نڈر ہو گا
لیکن جیل کی دیواروں کے سامنے بالکل بزدل اور ڈرپوک ہے۔جیلوں کی صعوبتوں کو
سہنے کے لئے جس عزم و حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے بالکل تہی دامن
ہے۔اسی لئے پرائے دیس میں حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہر حکومت کے خاتمہ کے ساتھ آصف علی زرداری کو دبوچ
لیا جاتا تھا۔ساڑے گیارہ سالوں تک اس کی جوانی کو جیل کی دیواریں چاٹ گئیں
لیکن کسی کو اس پر رحم نہ آیا ۔جھوٹ کے بیانیے اورکردار کشی کی انتہا کے
بعد اسے باعزت بری کر دیا گیا۔وہ کس سے اپنی جوانی کے ایام کی واپسی کا
مطالبہ کرے کیونکہ یہاں توطاقتور حلقوں نے جرم ڈھانے کی قسم کھا رکھی ہے؟پی
پی پی کی صفِ اول کی قیادت ، اور جیالے جیلوں میں سڑھتے رہے لیکن کوئی ان
کی مدد کو نہ پہنچ سکا۔وہ آئین و قانون کی جنگ لڑتے لڑتے ڈھیر ہو گے لیکن
اقتدار کے متوالے ان کی لاشوں پر اپنے محل تعمیر کرتے رہے۔دنیا میں جمہوریت
کے استعارے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟اسے بے مثال جمہوری
جدو جہد کے صلہ میں لیاقت باغ کے باہر لہو میں تر بتر کر کے اس کی زندگی کا
خاتمہ کر دیا گیا۔کیا تھا اس کا قصور ؟ کیا تھا اس کا گناہ؟کیا تھی اس کی
خطا،کو ئی تو سچ کا اظہار کرے۔کوئی تو بتائے کہ اسے دن دھا ڑے کیوں قتل کیا
گیا؟لیکن وہ ملک جہاں سچ بولنے پر تعزیریں ہوں،جہاں حق کہنے پر سزائیں ہوں
،جہاں آئین کا ورد کرنا جرم ہو وہاں پرسچائی کے رخ سے نقاب کون اتارے گا؟
آج ایک دفعہ پھر عمران خان کی زیرِ سر پرستی سیاسی مخا لفین کی پکڑ دھکڑ
شروع ہوچکی ہے جسے کرپشن کے غلاف میں لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ
عوام کو کرپشن کے دلکش نعرے سے بیوقوف بنانا بڑا آسان ہے۔وہی چند نام جھنیں
آمریت کے ادوار میں جیلوں کا ایند ھن بنا یا گیا تھا ایک دفعہ پھر جیلوں کی
چار دیواری میں محبوس ہیں۔کبھی جنرل محمد ایوب خان آیا ،کبھی جنرل ضیا الحق
آیا ،کبھی جنرل پرویز مشرف آیا لیکن جمہو ریت کی جانب دیوانوں کا سفر کبھی
رک نہ پایا۔دیوانوں نے خونِ دل سے جس دلکش داستان کو رقم کیا وہ ہر ایک دل
میں گھر کر گئی۔وہ گمنام سپاہی تو تھے لیکن ان کی قربانی گمنام نہیں تھی۔ان
کی قربانی کو ہر ایک محسوس کر سکتا ہے۔کوئی کچھ بھی کر لے جمہوریت کی گاڑی
کو زیادہ دیر آ مریت کے پنجوں میں رکھا نہیں جا سکتا۔احتساب کی نت نئی
کہانیاں سن سن کر عوام تنگ بڑ چکے ہیں۔وہ نتائج چاہتے ہیں ،وہ وعدوں کا
ایفا چاہتے ہیں اور حکومت کو اس کی کارکردگی سے ماپنا چاہتے ہیں۔محض اخباری
بیانات اور میڈیا ٹرائل سے ان کی تشفی نہیں کی جا سکتی۔جیلیں بھرنے سے ان
کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔یہ کام تو سارے آمروں نے پہلے بھی کیا ۔بے لاگ
انصاف،کڑااحتساب اور جواب دہی سب کو بھلی لگتی ہے لیکن محض مخالفین کی
گردنیں ناپ کر اسے احتساب کانام دینے سے عوام کی تشفی نہیں ہو سکتی۔ عمران
خان نے آمریت اورذاتی انتقام کی جس لا ٹھی کو اٹھا یا ہوا ہے ایک دن وہ خود
اس کا شکار ہو گا کیونکہ ظلم اور نا انصافی کو بہر حال مٹ جانا ہو تا
ہے۔مقافاتِ عمل سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا ۔اگر کوئی حکمران محض ریاست کی
طاقت سے اپنے مخالفین پر عرصہِ حیات تنگ کرتاہے تو اس کا انجام نوشتہ دیوار
ہے ۔تاریخ کے سار ے جابر حکمرانوں کا انجام ان کی تنہائی اور تباہی پر منتج
ہوتا ہے ۔سٹالن،ہٹلر اور مسولینی تو ابھی کل کی بات ہیں بخت نصر جیسا سفاک
حکمران بھی ایک دن ایسے ہی انجام سے دوچا ہوا تھا اور ایک سفاک انسان کا
استعارہ بنا ۔حریت پسنداور آزاد منش انسان ہی سدا انسایت کا حسن قرار پاتے
ہیں کیونکہ وہ جبر و نا انصافی کے سامنے ڈٹ کر انسانیت کی عظمت کو چار چاند
لگاتے ہیں۔دنیا ان کی عظمتوں کوسلام کرتی اور ان کیلئے رطب ا لنسان رہتی
ہے۔(عجیب لوگ ہیں، مکتبِ عشق کے لوگ ۔ روزہو تے جاتے ہیں قتل، پر کم نہیں
ہوتے )
|