سارے سامراجی الٹے لٹک جائیں،ایک دن کشمیریوں
کوآزادہوناہے اوراس خطہ فردوس سے بھارتی استعمارکورخصت ہونا ہے۔ یہی نوشتہ
تقدیرہے لیکن کوئی اندھاتقدیرکالکھانہ پڑھ سکے تواس میں کسی
کاکیاقصور۔اندھے کااندھیراتوروشنی کاراستہ نہیں روک سکتا!
ہزاروں سال گزرگئے لیکن ان عقل کے اندھے انسان نے کچھ نہیں سیکھا،اب بھی وہ
نہیں جانتا۔اگرچہ طاقت کی ایک منطق ہوتی ہے،وقتی طورپر جوغالب آسکتی ہے
لیکن اصل قوت توسچائی کی ہوتی ہے،قراراورقیام اسی کوہے،اسی کیلئے حقیقی
غلبہ اوردوام ہے۔ہزارتدبیروں سے بھی اس اصول کونہیں بدلاجاسکتاکہ اقلیت
تادیراکثریت پرحکومت نہیں کرسکتی،خاص طورپرایسی اکثریت جوسرجھکانے
اورسپراندازہونے پرتیارنہ ہو۔72برس گزرگئے لیکن آزادی کاجذبۂ پہلے سے
زیادہ جواں اور ہمت پہلے سے زیادہ بیباک!نامورمؤرخ ٹائن بی نے بہت پہلے
کہاتھاکہ جارح اقوام کی قسمت کے ستارے ہمیشہ ڈوب جاتے ہیں۔یقین نہ
ہوتوافغانستان ہی کودیکھ لیں۔روس جوایک عالمی طاقت کی بناءپرچندگھنٹوں میں
دنیاکے کئی ملکوں کو تاراج کرکے اپنی ہیبت کاسکہ منواچکاتھالیکن یہ ا پنے
پڑوسی افغانستان میں ایک ایسی فاش غلطی کربیٹھاکہ آج تک اپنے زخموں
کوسہلارہاہے۔ امریکا نے ایسی ہی حماقت کی،وقت سے کچھ نہ سیکھااوراب اسی
سرزمین سے نکلنے کے راستے ڈھونڈرہاہے۔
امریکااوراس کے اتحادی سامراج نے طالبان کوخریدنے اوران کوتقسیم کرنے کیلئے
مغربی رائے عامہ کی خون پسینے کی کمائی سے3بلین ڈالرزمختص کئے،انہیں شریکِ
اقتدارکاجھانسہ بھی دیا،نیٹوکے زیرِسایہ لاکھوں افغان افرادپرجدیدآلات سے
مسلح مشتمل پولیس تیارکرنے کادلاسہ بھی دیاگیا، لاکھوں افرادپرمشتمل خطے کی
بہترین لڑاکاسپاہ کوجدیدترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کافریب بھی دیا،اب انہی
طالبان سے جن کواپنی بے پناہ طاقت کے غرورمیں تہس نہس کرنے آیا تھااپنے
اتحادیوں سمیت بوریابسترلپیٹنےکے بعدخفیہ مذاکرات کے کئی دورکرچکاہے لیکن
افغان حریت پسندان سازشوں کوخوب سمجھتے ہیں۔ کشمیری بھی یہ جان چکے ہیں کہ
اگرروسی اورامریکی سامراج افغانستان میں فتح یاب نہیں ہوسکے تو بھارتی
سامراج اور کتنی دیرکشمیری قوم کوطاقت کے بل بوتے پران کوحق آزادی سے محروم
رکھ سکتاہے جبکہ بھارت طاقت کے لحاظ سے مغرب کے عشرعشیر بھی نہیں
اورکشمیریوں کاحوصلہ اورقربانی کاعزم کسی طورپربھی افغانوں سے کم نہیں۔
مگرہزاروں سال کے بعدسامراج کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،آج بھی غلبے
کی وہی حیوانی جبلت ان طاقتوں پرغالب ہے۔آج بھی آرزوکی وحشت میں بے لگام
لشکرخداکی زمین کو چراگاہ بنادینے کے آرزومندہیں حالانکہ یہ تواب ممکن ہی
نہیں ۔حریت انسان کے ساتھ سمجھوتانہیں کرتی بلکہ انسان کوحریت کی بات ماننی
پڑتی ہے۔داناؤں کاکیسا ہی لشکرہواورکیسی ہی قہارافواج،تاریخ کے دھارے
کوبدلانہیں جاسکتا۔جس رخ پراس کو بہناہوتاہے،وہ اسی پربہتاہے۔کشمیرمیں اپنی
مرضی کے انتخابات میں اپنے مہروں کوآگے بڑھاکرآزادی کے شاہ کومات نہیں دی
جاسکتی ۔اگرایسا ممکن ہوتاتوان 7دہائیوں میں تیسری نسل بھی اپنے آباء
اجدادکے نقش قدم پرچلتے ہوئے قربانی کی ایسی عظیم الشان مثالیں پیش نہ
کررہی ہوتی بلکہ بھارتی نام نہادجمہوریت کاحصہ بن چکی ہوتی۔ایک لاکھ سے
زائدقربانیوں کوبھول کردہلی سرکارکے لاڈلوں کواپنارہنمامان کرمالی فوائد پر
قناعت کر لیتی۔بی جے پی کے مرکزی لیڈرمرلی منوہرجوشی کویہ معنی خیزبیان
دینے کی ضرورت نہ پیش آتی”کشمیر میں اوردولت نہ جھونکو”جوشی نے انکشاف
کیاکہ ہرسال کشمیر میں990ارب روپے جھونک دیئے جاتے ہیں جو مجموعی آبادی
کامحض ایک یادوفیصدہے،اس طرح دوفیصدکشمیری ہندوستان کاچودہ فیصد بجٹ
کھاجاتے ہیں۔
کچھ ایسے ہی خیالات کااظہارراجیہ سبھامیں اپوزیشن بی جے پی کے لیڈرارون
جیٹلی کی طرف سے بھی آیاہے کہ”کشمیر پالیسی نہروکی غلطی سے پیدا ہوئی
ہے،جورقومات کشمیر میں فورسزپراس وقت خرچ کی جارہی ہیں ،وہ ان کسانوں کی
فلاح وبہبود پرخرچ کی جاتیں جواس وقت بھوک سے مر رہے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ
آزادی کے بعدسے کشمیر کی صورتحال کس قدرخراب ہوئی ہے”۔بی جے پی کے دومرکزی
رہنماؤں کی طرف سے یہ اعتراف کہ کشمیرایک معاشی بوجھ ہے بجائے خود ایک اہم
پیغام ہے۔اس کافیصلہ توبہت جلدوقت کردے گاکہ یہی نوشتۂ دیوارہے جس کوپڑھنے
سے یہ عقل کے اندھے گریزکررہے ہیں یاخودفریبی میں فرارکاکوئی راستہ تلاش
کررہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں سب سے زیادہ مالی و عسکری وسائل
اورذرائع ابلاغ کی ایک خاطرخواہ قوت کادعویٰ کرنے والابھارت جواب سلامتی
کونسل کی مستقل مگرغیر مستحق رکنیت کاخواب دیکھ رہاتھا،اب کشمیرمیں اقوام
متحدہ کے چارٹرکی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئےاس خطے میں ایٹمی تصادم کاراستہ
ہموارکرررہاہے جس سے نہ صرف یہ خطہ نیست ونابوہوگابلکہ ساری دنیااس سے
شدیدمتاثرہوگی۔
خودبھارتی افواج کے کئی جنرل اس بات کا برملا اعتراف کر چکے ہیں کہ
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو طاقت کے بل بوتے پرختم نہیں کیاجاسکتا۔یہی وجہ
ہے کہ بدترین حالات میں بھی دہلی سرکارکی نوکریوں اورمالی امدادکی خوبصورت
پرفریب پیشکش بھی کشمیریوں کواپنی طرف مائل نہ کرسکی ۔وہ لوگ جوایک لاکھ سے
زائدقربانیوں سے سات سوقبرستانوں کے نئے شہرآبادکرچکے ہیں اب وہ دہلی
سرکارکی باتوں کااعتبارکرنے کیلئے تیارنہیں۔ مکمل آزادی کے ہدف نے ان کی
تاریک راتوں کوروشن رکھاہے۔غلامی کے اندھیروں کووہ مزیدایک لمحے کیلئے
برداشت کرنے کوتیار نہیں۔ دہلی سرکار نے اپنے صہیونی دوستوں کی پیروی کرتے
ہوئے مہینے سے زائدکرفیو نافذکرکے جموں وکشمیر کو دوسراغزہ بناکربھوک وپیاس
کے کربناک عذاب سے دوچارکررکھا ہے لیکن ہرآنے والا دن ان تمام غیرانسانی
ہتھکنڈوں کوخاطرمیں نہیں لارہا۔شرائط کیاجیتنے والے عائدکیاکرتے ہیں یا
ہارنے والے؟دہلی سرکارکے سرمیں طاقت کا نشہ ہی ان کی موت کاسبب بنے
گا۔برہمنی سامراج خودکو سب سے بالاتر سمجھتاہے اوراس کاخیال ہے کہ صہیونی
دوستوں،مغرب اور امریکاکی آشیربادسے کشمیرکی دورافتادہ سرزمین میں بسنے
والوں کے ساتھ وہ اپنامن مانا سلوک جاری رکھ کرانہیں دبالے گااورافغانستاان
سے امریکی انخلاسے قبل وہ کشمیر میں طاقت کے بل بوتے پرکوئی ایسی لیپاپوتی
اوراپنے ظلم کے مکروہ چہرے کوغازہ اورلپ اسٹک کے پیچھے چھپاکرایک مرتبہ
پھرمذاکرات کے نام پردھوکہ دے سکے گالیکن اب یہ ممکن نہ ہوگا۔
اقوام عالم میں اگرسب کورچشم نہیں توانہیں ادراک ہوناچاہئے کہ کشمیریوں کی
سرزمین اس وقت بنیادی طورپرپاکستان سے مختلف ہے،تیسری دنیاکے ان سب ممالک
سے مختلف جہاں حکمران طبقات استعماری کارندوں پرمشتمل ہیں۔وہ لوگ کہ دھن
دولت اورحیوانوں ایسی آسودہ زندگی کے سوا،جن کی کوئی آرزونہیں
ہوتی،جوخودکوفریب دیتے ہیں اوراپنی اقوام کو بھی اور جن کی قسمت میں کوئی
بڑی کامیابی نہیں ہوتی مگرکشمیری عوام مختلف ہیں اوربرسر تحریک آزادی میں
ان کے رہنما بھی۔ پیہم آزمائش میں اپنی شخصیت اورقوت انہوں نے دریافت کرلی
ہے۔انہوں نے جان لیاہے کہ طاقت محض مادی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اسلحہ
ہے۔قرون اولیٰ کی نشانی اورنہتاعلی گیلانی جوچائے کی ایک پیالی یاچندخشک
خوبانیوں پر گزر اوقات کرتے ہوئے اپنی قوم کی رہنمائی کرتاہے،دہلی سرکارکے
فوجی سے کہیں زیادہ طاقتورہے۔ وہ عسکری جوسرسے لیکرپاؤں تک لوہے میں ملبوس
ہے اور جس کیلئے کھانے پینے کاساراسامان سینکڑوں میل دوردہلی سے آتاہے،اس
کے مقابلے میں بھوک پیاس کی پرواہ کئے بغیراپنی کسمپرسی میں علی گیلانی
تحریک آزادی کیلئے جوکیلنڈرجاری کرتاہے ساری قوم اس کی اپیل پرلبیک کہتی
ہوئی پروانہ واریکجہتی کاثبوت دیتی ہوئی میدان عمل میں اترتی ہے۔
یہ ایک بلندمقصد ہے جوآدمی کوبروئے کارلاتااوربے پناہ کردیتاہے۔کشمیریوں کے
سامنے آزادی کابلندنصب العین ہے اور بھارتی افواج اس سے محروم ہیں۔ پھراس
میں تعجب کیا معصوم نوجوان سنگباز کشمیریوں کے مقابلے میں حیرت انگیز وسائل
کے باوجودوہ رزم آزمائی کے ولولے سے محروم ہیں۔بے مقصدیت اوربوریت کے مارے
ان عساکر میں خودکشیوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے ۔اپنی ویران زندگیوں پروہ
روتے ،گریہ کرتے اور خودترحمی کے ساتھ ماتم کرتے رہتے ہیں۔ کیا72 برس سے
ظلم کی بھٹی میں ڈالے گئے کشمیری عوام ،دوسرے انسانوں جیسے نہیں؟کیاامن
وآزادی پران کاحق نہیں؟ کیاوہ مستحق نہیں کہ ان کے چرواہے بانسری بجائیں،ان
کے شکارے ڈل جھیل میں امن وآشتی کے ساتھ رواں دواں ہوں اور ان کے آنگنوں
میں بچے بے خوف ہنستے ہوں؟صدیوں سے جانے پہچانے راستوں پروہ ایک الگ
اندازاوراسلوب کی زندگی گزارتے آئے ہیں،مغرور بنیاء آگ وخون کی بارش سے
انہیں طرزِ زندگی تبدیل کرنے پرآمادہ نہیں کرسکتاجبکہ اپنے ایقان وایمان
کووہ زندگی پرترجیح دینے والے لوگ ہیں۔
کتنی ہی کشمیرکے نام پرکانفرنسیں ہوں،کتنی ہی رقوم مختص کی جائیں اورکتنے
پاپڑبیلے جائیں،کشمیر کوتقسیم کرنے کی کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کی جائیں
،کچھ حاصل نہیں ہوگا۔کشمیرایک ایسی اکائی ہے جس کاایک ایک انچ کشمیری شہداء
کی امانت ہے۔کشمیرمسئلے کاصرف ایک حل ہے کہ کشمیری عوام کواپنے مستقبل
کافیصلہ کرنے کااختیاردیا جائے جس کاان سے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے
میں بھارت کے مقبول وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے بڑی طاقتوں بالخصوص
امریکاکوضامن بناکرکشمیریوں سے کیاتھا۔عالمی طاقتیں جواقوام متحدہ میں
کشمیریوں کے ساتھ بھارت کے اس وعدے کی ضامن ہیں،ان کی ذمہ داری ہے کہ
کشمیرمیں ہونے والے مظالم کوفوری روکنے کیلئے کوئی لائحہ عمل تیارکریں
اورامریکا جس نے کشمیرکے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل
کرنے کاوعدہ کیاتھا،اب یہ اہم ذمہ داری ان سے تقاضہ کررہی ہے کہ وہ مظلوم
ومجبور کشمیریوں کوان کاحق دلانے کیلئے واضح پیش رفت کریں تاکہ اقوام عالم
کواس بات کااحساس ہو کہ ٹرمپ حقوق انسانی کیلئے مخلص ہیں۔
|