نتھ ناک میں ڈالنے والا ایک زیور ہے۔یہ زیور آج کے دور
میں صرف سہاگنیں پہنتی ہیں۔دور جہالت میں جب عورت کو ایک ملکیت سمجھا جاتا
تھایہ غلامی کا نشان تھا اور جو عورت کسی کے قبضے میں ہوتی تھی اسے نتھ
پہنائی جاتی تھی تاکہ دوسروں کوپتہ چل سکے کہ یہ عورت کسی کی ملکیت ہے۔کسی
کی غلام ہے ۔ بعض جگہ غلاموں کو بھی نتھ ڈالی جاتی تھی کہ لوگوں کو ان کی
حیثیت کا پتہ چلتا رہے۔ اب یہ صرف زیور ہے اور سہاگن عورتیں اسے پہن کر خوش
ہوتی ہیں۔ کنواری اور بیوا عورتیں یہ نہیں پہنتیں۔بلکہ اک مدت تک بیواؤں کو
کسی صورت یہ پہننے کی اجازت نہیں تھی۔جس طرح شادی شدہ عورتوں کو دعا دی
جاتی ہے کہ سدا سہاگن رہو، ویسے ہی یہ کہنا کہ تمہاری ’’نتھ چوڑی سلامت رہے‘‘
بھی سہاگنوں کے لئے دعائیاں کلمات تصور ہوتے ہیں۔
نتھ سے بہت سے محاورے منسوب ہیں۔ ان میں کچھ اچھے ہیں، کچھ ایسے ہیں کہ ان
کو سر عام کھولا نہیں جا سکتا۔ کچھ بہت عام فہم ہیں جیسے نتھی کرنا، کسی
چیز کو جوڑ دینا۔ نتھی ہو جانا۔ کسی سے جڑ جانا، یہ محاورہ پاکستانی مخصوص
فنکار سیاستدانوں کے بارے میں خصوصاً بولا جاتا ہے۔ یہ وہ سیاستدان ہیں
جنہوں نے خود کو فقط حکومت سے ہی نتھی کیا ہوا ہے۔ یہ صرف حکومت کے وفادار
ہوتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کا ضمیر نہیں ہوتا ان کا زندگی میں ایک ہی اصول ہے
حکمرانی۔ کوئی اقتدار میں آ جائے یہ اخلاق کی ساری حدیں تہ تیغ کرتے اس سے
نتھی ہو جاتے اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ آج جو ان کے
نشانے پر ہے کل تک یہ اس کے وفاداروں میں شمار ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ نتھی
ہونے کا فن اور ضمیر دو مختلف چیزیں ہیں۔ نتھنی اترنے کا مطلب ، بیوہ ہونا،
بے عزت ہونا۔ نتھنی توڑ دینا مطلب آزادی حاصل کر لینا ۔ نتھنوں میں دم آنا
معنی تنگ آ جانا، مجبور ہو جانا ۔ ایسے بہت سے محاورے نتھ سے منسوب ہیں مگر
نتھ کے حوالے سے وہ محاورہ جو سب سے معتبر قرار پاتا ہے اور پنجابی فلموں
میں انتہائی مقبول ہے وہ ہے’’نتھ پا دیاں گے‘‘ اور اردو میں کہتے ہیں کسی
کو نتھ ڈالنا۔ جس کا مطلب ہے کسی کو قابو کر لینا،کسی کو سبق سکھا دینا ،کسی
کا ستیاناس کر دینا۔ جانور ہو تو نتھ ڈالنے کا مطلب اسے رسی ڈالنا ہے۔
البتہ کسی شخص نے کسی دوسرے کو نتھ ڈالنی ہو تو مطلب اسے تنگ کرنا ہوتا ہے۔
نتھ ڈالنے کے سب سے مقرب اور مقوی نسخے حکومت وقت کے پاس ہوتے ہیں۔ حکومت
کو زیادہ تنقید کرنے والے اپوزیشن کے رہنماؤں کو نتھ ڈالنی ہوتی ہے اس لئے
یہ نسخے حکومت کی مجبوری ہوتے ہیں۔ کیا کریں اپوزیشن چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں
آتی اور حکومت اور اقتدار کا نشہ کمال ہوتا ہے کہ کسی کو خاطر میں لانا
پسند ہی نہیں کرتا۔ اپوزیشن کے جو لوگ بلندیوں سے نیچے آنا ہی نہیں چاہتے
انہیں نتھ ڈالنے کے لئے حکومت ہو تو ہزاروں حربے ۔ صرف اشارے کی ضرورت ہوتی
ہے۔ بس ساری اپوزیشن کی قیادت سدا سہاگن یا جب تک حکومت ہے نتھ کے مطابق ان
کا سہاگ سلامت ہی سلامت، حکومت کی ڈالی نتھ اس بات کی گواہی ہوتی ہے۔ نیب،
FIA ، انٹی نار کوٹیکس، انٹی کرپشن ، سبھی اس فن کے ماہرہی نہیں بلکہ ایک
سے بڑھ کر ایک نتھ ڈالنے کی ایکسپرٹ قوتیں ہیں۔
حقیقت میں نتھ ڈالنا انسانی دماغ کا ایک کیڑا ہے اور یہ کیڑا ہر اس دماغ
میں پرورش پاتا ہے جسے تھوڑا سا بھی اختیار حاصل ہو جائے۔ جتنا اختیار
بڑھتا ہے کیڑے کا سائز بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ اختیار ہی اس کیڑے کی مرغن
غذا ہے۔ پولیس کو دیکھ لیں اندھے اختیارات کی وجہ سے ان کے دماغ میں کئی
کئی کیڑے ہوتے ہیں۔جتنا بڑا افسر اتنی بڑی نتھ کا علم بردار، لوگ پاس سے
گزرتے بھی ڈر کر ہیں۔ہر عام شخص کی بھی یہ خو اہش ہوتی ہے کہ اپنے سے
ہرکمتر کو نتھ ڈال کر رکھے ۔ یہ کیڑا دنیا کے تمام فسادات کی جڑ ہے۔ لیکن
سیاستدانوں کے کیڑے عجیب ہوتے ہیں یہ اقتدار میں خوب نشو و نما پاتے ہیں
مگر اپوزیشن میں ہوں تو کیڑے یکدم مدہوش ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ
اٹھا کر دیکھ لیں ۔ قائد ا عظم کے بعد جو بھی آیا اسی مرض کا شکار رہا۔سچی
اور تلخ بات ہے مگر قائد اعظم کے آخری ایام میں سیاسی رہنماؤں کا ان سے
رویہ بھی کچھ اچھا نہیں تھابلکہ اسے قابل مذمت ہی کہا جا سکتا ہے۔ان کے بعد
بھی صورت حال ابتر ہی رہی ۔
یوں ہر سیاسی لیڈر دوسرے کو نتھ ڈالنے کے چکر میں رہا۔
جب پاکستان بنا تو اس سے پہلے انگریز کی حکومت تھی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی
خواہش تھی کہ پاکستان کی نئی حکومت میں اسے پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ
دیا جائے اس صورت میں وہ مہاجروں کی پر امن منتقلی کی ضمانت دینے کو تیار
ہے۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم نے یہ بات نہیں مانی۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے اس
نے ضلع لاہور کی تحصیل گورداسپور جو پاکستان میں شامل ہو رہی تھی ،کو کاٹ
کر بھارت میں شامل کر دیا ۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں سے کشمیر کا راستہ جاتا
ہے ۔ اس سے بھارت کو کشمیر تک آسان رسائی مل گئی۔ اس طرح پاکستانیوں اور
کشمیریوں کو وہ نتھ ڈال دی گئی کہ جس کا خمیازہ آج تک ہم سب بھگت رہے ہیں۔
مہاجروں کے ساتھ بھی جو ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد
نے وزیر اعظم ناظم الدین کو برطرفی کی نتھ ڈالی۔ ایوب خان نے اقتدار پر
قبضہ کیا تو سیاسی عمل پر کاری ضرب لگانے کے لئے ایبڈو کا استعمال کیا اور
سیاستدانوں کو کئی برس نتھ ڈالے رکھی۔ 1971 کے انتخابات کے نتیجے میں شیخ
مجیب الرحمان اس ملک متحدہ پاکستان کے نئے حکمرا ن ہونا تھے مگر بھٹو صاحب
نے انہیں ایسی نتھ ڈالی کہ پاکستان دو لخت ہو گیامگر بھٹو صاحب حکمران بن
گئے۔اہل درد کہتے ہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کو بعد میں اﷲنے
وہ نتھ ڈالی کہ آج تک عبرت کا نشان ہیں۔
بھٹو کی حکومت اپوزیشن کو نتھ ڈالنے کے لئے پولیس کی مدد سے بھینس چوری کا
مقدمہ بنا دیتی تھی۔ پولیس تو پہلے ہی بدنام تھی ۔لوگوں نے اس نتھ ڈالنے کو
تسلیم نہیں کیا ۔ حکومت کا یہ حربہ اسی کی اور زیادہ بدنامی کا باعث
رہا۔پھر بھٹو صاحب نے آزاد کشمیر میں ایک کیمپ بنایا تھا۔شاید دلائی کیمپ
تھا۔ جو بولتا، نتھ ڈالتے اور اس کیمپ میں اس کے لئے قیام اور طعام کا
شاندار بندوبست ہو جاتا۔ عزیز و اقارب ڈھونڈھتے رہتے ۔ پھر کبھی پتہ چلتا
کہ وہ نتھ مارکہ سدا سہا گن کیمپ میں آرام فرما رہے ہیں۔ جنرل ضیا لوگوں کو
نتھ ڈالنے کے لئے اسلام کا حربہ استعمال کرتے رہے۔ نواز شریف اور بے نظیر
بھٹو ایک دوسرے کو نتھ ڈالنے کی کوشش میں اپنی حکومتیں گراتے رہے اور کسی
نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کی۔مشرف دور میں دہشت گردی کی نتھ کمال
تھی۔ بہت سے لوگ اس سہاگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ الطاف حسین کمال آدمی تھے۔ بند
بوری کی نتھ ڈالتے تھے۔ جسے ڈال دی اس کے بعداس کے خاندان میں بھی کوئی اس
کی مخالفت کی جرات کے قابل نہیں رہتا تھا۔
آج کے نئے پاکستان میں نتھ بھی نئی اور بڑی جدت والی ہے۔ عورت اور مرد ایک
گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ گاڑی ہموار چلنے کے لئے دونوں کی ذہنی ہم آہنگی بڑی
ضروری ہے۔ دونوں کے درمیان باہمی احترام کا مضبوط رشتہ بہت ضروری ہے۔
تعلقات اچھے ہوں تو ہر میاں اپنی بیگم کا آئیڈیل ہے ، ہیرو ہے اور ہر بیگم
اپنے میاں کی ہیروئن۔ دونوں اکٹھے رہتے، اکٹھے پھرتے، اکٹھے آتے جاتے اور
سب کا م اکٹھے کرتے ہیں۔ مگر اب صورت حال بگڑ گئی ہے۔ ہیرو اور ہیروئن کے
باہمی تعلقات کا سماج تو ہمیشہ ہی سے دشمن رہا ہے۔مگر اب نئے پاکستان میں
اس دشمنی کو سرکاری سطح پر بھی نتھ ڈالنے والی پذیرائی حاصل ہو گئی ہے ۔
اپوزیشن کے بہت سے رہنما،اس صورت حال سے آج کل کچھ پریشان ہیں۔وہ کوشش کرتے
ہیں کہ بیگمات کے ساتھ کم سے کم باہر نکلیں۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ انہیں نتھ
ڈالنے کے چکر میں کسی وقت بھی حکومتی اہلکار ان کی گاڑی روک کر میاں بیوی
کو باہر نکلنے کا کہیں ۔ میاں کو گرفتار کر لیں اور بیوی کے وزن کا اندازہ
کرکے کہ پچاس کلو ہے یا اسی کلو اسے جانے کی اجازت دے دیں اور اپنے سینئر
کو اطلاع دیں کہ جناب سترکلو کی ہیروئن بھی کار سے برامد ہوئیں ہیں مگر
انہیں جانے دیا گیا ہے۔ ذرہ سے لفظوں کے ہیر پھیر سے سینئر آفیسر ’’ کی‘‘
کا لفظ حذف کرکے اعلان کر دیتا ہے کہ فلاں لیڈر کی کار سے اسی کلو ہیروئن
برآمدہوئی ہے۔ جتنی موٹی اور صحتمند بیوی ، اتنی زیادہ ہیروئن ۔اتنا زیادہ
تہلکہ ۔قسمت کی بات ہے وگرنہ شادی سے پہلے اپوزیشن لیڈروں کو ان حالات کا
اندازہ ہوتا تووہ سلم سمارٹ اور بالکل ہلکے وزن کی بیگمات ڈھونڈھتے۔کم از
کم تہلکہ تو کم ہوتا۔مگر کیا کیا جائے، ہونی ہو کر رہتی ہے۔ بہت سے بھگت
رہے ہیں۔ باقی بیویاں تبدیل کرنے کی سوچ رہے ہیں۔پتلی د بلی خواتین کو نوید
ہو، اس لئے کہ مجھے یقین ہے اگر اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک ناکام ہوئی
تو بیوی بدل تحریک زور پکڑ لے گی۔ |