3اکتوبر کے اخبارات میں ایک رنگین تصویر چھپی ہے جس
میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، ثانیہ نشتر ،
حکومت آزاد کشمیر کا ایک اہلکاراور حکومتی مشیر فردوس عاشق اعوان نظر ر
آرہے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان ایک زلزلہ متاثر نوجوان کو سفید رنگ کا ایک
لفافہ تھمارہی ہیں اور نوجوان کا منہ کیمرے کی طرف ہے جس کا یقینا اس کو
حکم دیا گیا ہوگا۔ سلطان محمود، ثانیہ نشتر ، فردوس عاشق اعوان اور سرکاری
اہلکار کے چہروں پر افسردگی یا پھر ندامت ہے جبکہ امدادی لفافہ لینے والا
نوجوان حیرت زدہ ہے۔ خدا جانے یہ نوجوان زلزلہ متاثر ہے یا پھر محض فوٹو
بنوانے کے لیے اس کا چناؤ ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو متاثرین میں بیرسٹر سلطان
محمود اور سرکاری اہلکار بھی شامل ہیں۔ بیرسٹر سلطان اور سرکاری اہلکار کا
گِٹ اَپ بھی اچھا تھا جبکہ دونوں خواتین بھی بن سنور کر آئی تھیں جبکہ
متاثرہ نوجوان کا چناؤ مشکل سے ہوا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس تصویری نمائش کی کیونکر ضرورت پڑی ۔کیا تصویر کشی کے
بغیر مدددینا آئین یا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا
بیرسٹر سلطان، سرکاری اہلکار ، ثانیہ نشتر یا پھر فردوس عاشق اعوان نے یہ
مدد اپنی طرف سے دی ہے۔ یقینا ایسا نہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی طرف سے یا
پھر چندہ جمع کر کے متاثرین کی مدد کی ہے اس کی کوئی تشہیر نہیں ہوئی۔
میرپور میں سکول کے بچوں ، گھریلو خواتین اور عام لوگوں نے اپنی طرف سے یا
پھر عام لوگوں کے گھروں میں جاکر چندہ جمع کیا، بچا ہوا کھانا اکٹھا کیا
اور پھر میلوں پیدل چل کر پانی کی بوتلیں ، کھانا اور دیگرضروری اشیا دو دن
کے بھوکے بچوں اور عورتوں تک پہنچائیں۔
فردوس عاشق اعوان کے لفافے حکومتی خزانے سے نکلے ہیں اور یہ خزانہ عوام کا
پیٹ کاٹ کر بھرے جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے پیسوں سے تنخواہ لے، شاہانہ
مراعات سے لطف اٹھائے اور پھرمصیبت کے وقت میری ہی پونجی سے چند روپے دے کر
میری تصویر بنا کر میری مصیبت کا مذاق اڑائے تو کیا یہ انسانیت کی تذلیل
نہیں۔ کیا بیرسٹر سلطان اور تصویری نمائش کرنے والوں کو اس پر شرمندگی نہیں۔
یقینا نہیں چونکہ قومی خزانہ ان لوگوں کا ذاتی خزانہ اور عوام رعایا ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان اور آزاد کشمیر کو اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ قدرتی آفات
کے متاثرین اور بھکاریوں میں فرق ہوتا ہے۔ علاقہ کھڑی شریف کے زلزلہ
متاثرین میں اکثریت خوشحال او ر صاحب حیثیت تھی۔ ان کی جائیدادیں لاکھوں کی
نہیں بلکہ کروڑوں کی تھیں۔ محض بیس سیکنڈ کے جھٹکے نے انہیں مفلس، بے گھر
اور بے آسرا کردیا۔ وہ بڑی بڑی کوٹھیاں اور حویلیاں چھوڑ کر بھوکے پیاسے
اپنے ہی عالیشان گھروں کے باہرطوفانی بارش میں بیٹھے حکومتی امداد کے منتظر
تھے ۔ سڑکیں ٹوٹ چکی تھیں اور راستے معدوم ہو چکے تھے ، زخمی بچے ماؤں کے
سامنے درد سے تڑپ رہے تھے ۔ ہر طرف موت کا رقص تھا اور ضلعی انتظامیہ وزیر
اعظم آزادکشمیر اور دیگر اہم شخصیات کے پروٹوکول میں لگی ہوئی تھی۔ اخباری
نمائندے ہسپتالوں کے باہرکھڑے اہم شخصیات کی تصاویر اور بیانات کے حصول میں
کوشاں تھے اور انسانیت اَپر جہلم نہر کے کناروں پر تڑپ رہی تھی۔ پاک آرمی
کے افسر اور جوان جاتلاں کے مقام پر کیمپ لگا کر آزاد حکومت کے احکامات کے
منتظر تھے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بیان جاری کیا کہ میری حکومت ایسے
سانحہ سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ہاں اگر ضرورت ہوئی تو
فوج کی مدد لیں گے۔ اس طنزیہ بیان کے باوجود فوجی جوان سڑکیں بحال کرنے اور
جہاں کسی نے کہا مدد دینے کے لیے پہنچے ۔ دو دن بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر
نے سردار عتیق کے ہمراہ ہسپتال کا دورہ کیا اور سوائے فوج کے ان سب کا
شکریہ ادا کیا جو آقا بن کر آئے اور مصیبت زدہ غلاموں کے ساتھ تصویریں
کھنچوا کر چلے گئے۔
فوج کے جوانوں نے نہ تصویریں کھنچوائیں اور نہ ہی بیانات دیے۔ انہیں ایسا
کرنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ فوج ملک کی محافظ اور مدد گار ہے۔ سیاست دان اور
سرکاری اہلکار مہاراجہ کشمیر، شاہ جارج اور وائسرائے ہند کے جانشین ہیں ۔
عوام تب بھی غلام تھے اور آج بھی غلام ہیں۔ سونامی سے سات ملک متاثر ہوئے
مگر کسی بھی جگہ متاثرین کو مدد دینے والی شخصیات نے فوٹو سیشن نہ کروایا
اور نہ ہی لفافہ پریڈ ہوئی۔ کھڑی کے عوام کو چاہیے کہ وہ خدا پر بھروسہ
کریں اور لفافے واپس کردیں۔ خدا جانے ان لفافوں میں کچھ تھا بھی یا نہیں ۔اگر
تھا تو سرکاری اہلکاروں کا اس میں کتنا حصہ تھا۔ خوددار اور باہمت قومیں
کبھی لفافے نہیں پکڑتیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے نہ کہ
ان کی مصیبت کا مذاق اڑائے اور تشہیر کرے۔ یہ انسانیت کی توہین اور تذلیل
ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر یہ بھیانک منظرمظفرآباد میں دیکھ چکے ہیں مگر سبق
حاصل نہیں کیا۔ تب وہ سردار سکندر کے خیمے کے باہر بیٹھے رو رہے تھے اور اب
رونے والوں کو دلاسہ دینے سے بھی قاصر ہیں۔
فردوس عاشق اعوان تب جنرل مشرف کے کیمپ میں تھیں اور فوٹو سیشن کے لیے
مظفرآباد میں جنرل انور کی مہمان تھیں۔ ہیلی پیڈ پر محترمہ صدر آزاد کشمیر
کے ہیلی کاپٹر سے اتر کر ایک ٹی وی اینکر کے پاس گئی اور کہا کہ میں ایک
سکول دیکھنے جارہی ہوں جہاں ایک سو بچے ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ میرے
ساتھ ایک کیمرہ مین بھجوا دو۔ اب تو وہ خود کیمروں کی انچارچ ہیں اور انور
اور مشرف کی جگہ بیرسٹر سلطان اور عمران خان اس کار خیر میں شامل ہیں۔
|