اتحاد،اتفاق ،اختلاف اور ذاتیات چار مختلف چیزیں ہیں لیکن
پہلی تین چیزیں کسی نہ کسی مقصد کے حصول کیلئے استعمال کی جاتی ہیں مثال کے
طور پر ایک سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی سے کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے
اتحاد کر لیتی ہے جیسے کے الیکشن کے دوران بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک
سیاسی پارٹی جسے اپنی واضع اکثریت دکھائی نہیں دے رہی ہوتی وہ زیادہ اکثریت
والی پارٹی سے اتحاد کر لیتی ہے اور مختلف دھرنوں میں بھی کئی پارٹیاں اپنے
ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے اتحاد بنا لیتی ہیں کیونکہ سانپ بھی مارنا ہوتا
ہے اور لاٹھی کو بھی بچانا ہوتا ہے ۔
دوسری چیز اتفاق ہے جسے ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا کوئی مسئلہ ہے
اور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے مختلف رائے دی جاتی ہیں اور حل بھی تجویز
کیے جاتے ہیں اب ہر انسان اپنے ذہن ،تجربے اور عروج فکر کو مدنظر رکھتے
ہوئے کسی ایک رائے یا حل سے اتفاق کرلیتا ہے ۔جس رائے یا حل کے حصے میں
اتفاق کی شرح زیادہ آتی ہے اُسی کو مسئلہ کے حل کیلئے موثر تسلیم کیا جاتا
ہے ۔
تیسری چیز اختلاف ہے جو ایک انسان کو کسی بھی دوسرے انسان سے ہوسکتا ہے
مثال کے طور پر میں کہتا ہوں کہ میرے پاس ٹائم ٹیبل ہے میں اُس کے مطابق
صبح کو اٹھتا ہوں نوکری پر جاتا ہوں اور اپنی زندگی اسی ٹائم ٹیبل کے مطابق
گزارتا ہوں کہ کونسا کام کس وقت پر کرنا ہے اور میں اس ٹائم ٹیبل سے مطمئن
بھی ہوں ۔لیکن میرا ٹائم ٹیبل میری ضروریات کے مطابق سیٹ ہے اور دوسرے
لوگوں کی ضروریات زندگی اور رہن سہن پر پورا نہ اترتا ہو تو دوسرے لوگوں کو
میرے ٹائم ٹیبل سے اختلاف ہوگا۔
چوتھی چیز ذاتیات ہے جس پراگر آپ بہت زیادہ توجہ دینے والوں میں سے ہیں
تواسکو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں استعمال کرنے سے آپ کا اپنا اُلوہی سیدھا
ہوگااور آپ کبھی بھی کسی دوسرے کے مفاد کی خاطر کچھ نہیں کر پائیں گے
کیونکہ ہر چیز میں آپ اپنی ذات کو اہم رکھیں گے ۔جس طرح کئی مفاد پرست
سیاستدان کرتے ہیں جب کسی مسئلہ کے حل میں انکی ذات کو فائدہ ہو رہا ہوتا
ہے تو وہ مسئلہ کے حل کے گُن گانے لگ جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اکساتے
ہیں کہ یہ تو بڑا اہم مسئلہ ہے اس کو حل ہونا چاہیئے اس مسئلہ کے حل میں
میرا ساتھ دیں یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو عوام مرجائے گی ۔حالانکہ درپردہ مفاد
پرستوں کی خفیہ چالیں چھپی ہوتی ہیں جو پایہ تکمیل تک پہنچنی ہوتی ہیں۔
ایسے ہی مفاد پرست لوگوں اور سیاستدانوں کے سامنے آپ بہت سارے مسئلے رکھیں
جن جن مسئلوں میں ان کی ذات کو فائدہ نہیں ہورہا ہوگا وہ یہ کہنا شروع کر
دیں گے کہ یہ تو کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے اس کو چھوڑد یں۔ وہ مسئلے جن سے
عوام کو فائدہ ہوتا ہے مثلاً بجلی کا سستا ہونا،پٹرول کا سستا ہونا،مہنگائی
کا کم ہونااور بنیادو ی ضروریات زندگی کی قیمتوں کا کم ہونا اور بڑے بڑے
اہم مسئلے جن میں کشمیر کا آزاد ہونا ،پاکستان کی ترقی و خوشحالی،نوجوانوں
کو روزگار کی فراہمی،تجارتی مسائل کاحل ہونا،برآمدات بڑھانا اور درآمدات کم
کرنا شامل ہے ان مسئلوں پرکسی بھی سیاستدان کو اپنی سیاست کی دکان نہیں
چمکانی چاہیئے۔
جو وزیر اعظم بنتا ہے کہتا ہے مجھے وقت دو۔۔۔ وقت لیتے لیتے اور وقت دیتے
دیتے وقت کو گزار دیا جاتا ہے ۔نہ وقت کو وقت دیا جاتا ہے نہ کام کو کام
سمجھا جاتاہے ۔کوئی اچھاکام کربھی رہا ہو توبجائے اسکی حوصلہ افزائی کرنے
کے اس پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے کیونکہ اگر کوئی بھی اچھا کام کر گیا تو
اگلے 5سال کیلئے بھی عوام اُسی کوووٹ دے گی اور پچھلی حکومت کو عوام اقتدار
میں نہیں آنے دے گی۔
جو یہ کہتے ہیں کہ 30سال سے ملک کا پیسہ چوری ہورہا تھا 32سال سے ملک کو
چونا لگایا جارہا تھا ۔اس بات پر میں یہ ہی سوچتا ہوں اور سوال کرتا ہوں جو
پیسہ 30سال سے چوری ہورہا تھا کیاوہ اب رُک گیا ہے ۔۔۔؟؟مختلف وزیر اعظم
آئے کوئی تین سال بعد آیا کوئی 5سال بعد آیا ،کوئی ایک بار آیا تو کوئی بار
بار آیالیکن جو لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے بیٹھے زندگی کا عرصہ گزار چکے ہیں
اُن کو معلوم نہیں تھا کہ 30سال سے ملک کا پیسہ چوری ہورہا ہے اور ملک کو
چونا لگایا جارہا ہے ۔بڑے بڑے دھرنے بڑے بڑے جلسے سیاسی دکانیں چمکانے
کیلئے کیے جاتے رہے ۔لیکن مہنگائی ،بے روزگاری ،غربت اور تمام مسائل کے حل
کے سبز باغ دکھا کر ہمیشہ عوام کو ہی بیوقوف بنایا جاتارہا ۔
سیاستدانوں کے ناموں میں خواتین سیاستدان بھی آتی ہیں خواہ انکا تعلق کسی
بھی پارٹی سے ہو انکا احترام ہم پر لازم ہے ۔ماں بہن بیٹی کسی کی بھی ہو اس
پر کیچڑ اچھالنا غلط ہے ۔مرد سیاستدانوں میں بھی ذاتیات کی سیاست پروا ن
چڑھ رہی ہے پہلے سوچل میڈیا پر غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے میں
ملتی تھی اب تو لائیو میڈیا پر آکرسیاستدان کہہ رہے ہوتے ہیں فلاں سیاستدان
کا کردار ایسا ہے فلاں کا ویساہے ۔۔
یہ کہاں کی اخلاقیات ہے کہ آپ کو کسی انسان سے اختلاف ہے تو آپ اسکی ماں
بہن بیٹی کے بارے میں باتیں کرنا شروع کردیں ۔کئی سیاستدان تو ذاتیات پر
آکر خوامخواہ کی خوشی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں کہ جیسا کہ وہ ایسا کام کر
رہے ہیں جو آج تک کسی نے نہیں کیا۔
کوئی بھی انسان جو اپنی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے اور شہرت کمانا
چاہتا ہے تو اُسے سب سے پہلے احترام کا سبق سیکھنا چاہیئے کہ چھوٹے بڑے سے
عزت کیسے کروانی ہے ۔دشمن ہو یا دوست اُس کا دل اپنی باتوں سے کیسے جیتنا
ہے۔اپنے لیڈروں کی دیکھا دیکھی میں جگہ جگہ گلی محلوں میں کارکن بھی اپنے
ٹچ موبائلوں پرمخالف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کی ذاتی زندگی کے بارے میں
مختلف کارٹون اور اینی میٹڈ ویڈیوز کے ذریعے کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں۔بہت
سی ویڈیوز تو انٹرنیٹ پر بھی وائرل ہوچکی ہیں اوران ویڈیوز کے ویوز چیک کیے
جائیں تو لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں اور انہی ویڈیوز کو شیئر کیا جارہا
ہوتا ہے ۔اکثر لوگ اس گندگی کو روکنے کی بجائے اسے پھیلانے کاسبب بن رہے
ہوتے ہیں۔
دراصل ہم دین اسلام سے دور ہوگئے ہیں ہمارے دین نے ہمیں اپنے بھائی کی غیبت
،چغلی ،بغض اور بُرائی کرنے سے منع کیا ہے ۔لیکن آج کل کی صورتحال کو دیکھا
جائے تو غیبت ،چغلی،بغض اور بُرائی کرنا کسی کو گناہ ہی نہیں لگتا ۔لوگ
خوشی کے ساتھ یہ کام کرر ہے ہیں کسی کو احساس ہی نہیں کہ بُرائی کی طرف
لیکر آنا بُرائی کرنے سے زیادہ بڑا جرم ہے اور اسلام میں اسکی بڑی سخت سزا
ہے۔اﷲ پاک تمام مسلمانوں، سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی ذاتیات پر سیاست کرنے
کی بجائے ملکی مسائل کے حل میں یکجا ہوکرجدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین |