پاکستان کی سیاست میں بدزبانی وبدتہذیبی ایسی پرچھائیوں
کی مانند پیچھے پڑ چکی ہے جس سے موجودہ سیاسی ماحول میں جان کیسے چھڑائی
جائے سمجھ سے بالاتر ہے؟ا جب جتنی لمبی زبان پریہاں اُتنے بڑے عہدے سے
نوازا جارہا ہو،جتنا بدتہذیب اتنی میڈیا کوریج مل رہی ہو۔جتنی گالم
گلوچ،سوشل میڈیا پر اتنے زیادہ ری ٹوئیٹس مل رہے ہوں،توپھر اپنی قیادت کی
قربت، عوام میں مقبولیت،اور تمام میڈیا پلیٹ فورم میں سیاسی ریٹنگ کی ریس
میں اپنے ساتھی ورکر، کارکنان یا پھر رہنما ؤں کو پیچھے دھکیل کر آگے نکلنے
کا ولولہ بھی نظر آنا معمولی سی بات ہے۔
بندگان خدا ایک طرف تو اپنی زبانوں کو قابو میں رکھ نہیں سکتے،اپنے گریبان
میں جھانکنے کو کوئی تیار نہیں مگر دوسرے کوموردِالزام ضرور ٹھہرا رہا ہے
کہ وہ سیاست میں غیر اخلاقی اور غیر مہذب بیانات کا موجد ہے ہم تو صرف
دفاعی پوزیشن پر ہیں۔یہ بھی ایک طویل بحث ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اس
شرمناک کلچر کا آغاز ستر کی دہائی میں ہوا یااسی اور نوے کی دہائی میں یا
پھر پچھلی دودہائیوں میں فروغ پایا۔خیر ماضی کی باتیں تو اب تحریروں میں مل
رہی ہیں مگر حال کی باتیں تو تقریروں میں،ہرا ٓنکھ دیکھ رہی اور کان سن رہا
ہے کہ کون کہاں کیاکہہ رہا ہے؟ کیسے سیاست کے نام پر گھروں کی عزتوں کو
اُچھالا جارہا ہے۔خاتون سیاستدان کی مخالفین پر تنقید کے جواب میں محترمہ
کی شخصیت اور جسمانی بناوٹ پر تنقیدہو تو سوشل میڈیا پر شاباشیں بٹوری جاتی
ہیں، باپ پر بات ہوتو جواب ماں پر آ کر ختم ہوجائیم مگر نہ ضمیر پر کوئی
بوجھ اور نہ ماتھے پر ایک شکن۔ قیادت کی جانب سے مخالفین کو گدھوں، بے وقوف
اور نادانوں تک پکار دیا جائے یا پھر مخالفین کی نقلیں اُتاریں جائیں تو
ہزاروں کا مجموعہ کشت زعفران بن جاتا ہے اور دادو تحسین لٹائی جاتی
ہے۔ٹریکٹر ٹرالی جیسے القابات ہماری سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔اب پوچھنا
یہ تھا کہ پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کی سیاسی ویکبلری میں ہونے والے نت
نئے غیراخلاقی الفاظ اور اندازِ بیان کے اضافہ پرجشن منائیں یا ماتم؟
بہرحال کچھ بھی نظراندا نہیں ہورہا آج بھی گمنام مورخ اس خوف سے کسی گمنام
مقام پر اپنے پاک قلم سے گالم گلوچ کی ناپاک سیاست پر سیاہ تاریخ سپرد
قرطاس کرتے ہوئے آبدیدہ ضرور ہو گاکہ وہ وقت تھا جب دین کے نام لیوا باریش
سیاستدان بھی بھرے جلسوں میں ”پین دی سری“کہتا، تو چاہنے والے سبحان اللہ
کہہ اُٹھتے۔لیڈرشپ بلندوبانگ کہتی کہ گھروں سے گھسیٹ کر نکالیں گے، شلوار
گیلی ہوگئی اور ناجانے کیا کچھ رقم ہوچکا ہوگا جسے آنے والی نسلیں پڑھیں گی
ٍ
مجھے یہ کہنے میں کوئی آڑ نہیں کہ موجودہ سیاست میں ایسے قابل اعتراض غیر
تہذیبی اور غیراخلاقی رویوں نے تب عروج پایا جب تحریک انصا ف کی دھرنا
سیاست عروج پر تھی،جس دوران سیاستدانوں، پولیس، معزز ججز اور بیورکریٹس کے
کردار وں پر ذاتی نوعیت کے حملے بھی کئے گئے، پھر یہ کلچر تحریک انصاف کی
جارحانہ سیاست کے سنگ سنگ رلیاں مناتے پروان چڑھتا ہے۔یہ بات بھی درست ہے
کہ دوسری جانب سے بھی نشتر چلے ہیں اور خوب چلے ہیں مگر یہاں یہ بھی سوچنا
ہوگا کہ اُن کی جانب سے پہلے ادوار میں بھی ایسا رویہ تھا کہ نہیں؟
قومی گمان تھا کہ سب حصول اقتدار کیلئے ہے مگر حکومت میں آنے کے بعد بھی
دوسروں کا تمسخر اُڑانے کی روایت نے ابھی دم نہیں توڑا اورمعاملہ جوں کا
توں ہے جو پہلے بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے،انہیں آج بھی دیکھنا گوارہ
نہیں۔تعجب کی بات ہے کہ پارٹی سے وفادار منتخب اور غیر منتخب سبھی کو
وزارتوں سے نواز دیا گیا ہے مگر اکثر کا لب ولہجہ آج بھی وہی ہے جو الیکشن
سے قبل تھا۔ اور آج بھی انہیں اپنی قیادت سے ویسی سے آشیر اباد حاصل ہے
جیسے پہلے تھی۔ ایک سوال پر فیاض الحسن چوہان نے میڈیا پردو ٹوک جواب دے کر
نیا تنازعہ کھڑا کر دیا مگر مجال ہے کہ قیادت کی جانب سے فوری کوئی ایکشن
لیا گیا ہو، کچھ عرصہ بعد کابینہ سے نکال دیا گیا مگر بعدازاں پھر شامل کر
لیا گیا۔ ٹی وی پروگرام میں نعیم الحق کی دانیال عزیز سے تلخ کلامی بڑھی تو
دانیال عزیز کو تھپڑ رسید کر دیا۔ قبل ازیں انہیں موصوف سے نوید قمر اور
خرم دستگیر خان سے بھی تلخی ہوچکی ہے۔ جمیل سومرو سے الجھے تو پانی کا گلاس
دے مارا،اپنے ہی ساتھی خرم نواز گنڈا پور کو بھی میڈیا کے سامنے کھری کھری
سنا دی۔اتنی خدمات کے اعتراف میں سب سے اہم ذمہ داریوں سے نوازا گیا
ہے۔مراد علی سعید اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر سیاسی مخالفین پر جو کیچڑ
اچھالتے ہیں کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور موصوف آج وزیر مواصلات ہیں۔ نہ
عمر کا لحاظ کیا اورنہ وقت کا اور روحیل اصغر کو اسمبلی میں حماداظہر نے
آڑے ہاتھوں لیا۔پی ٹی آئی کے مسرور سیال نے لائیو شو میں مخالف پر حملہ
کیا۔ تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدرعلی ہنگورو کی تھانہ مکی شاہ میں پولیس
افسر اور اہلکاروں سے تلخ کلامی و بدتمیزی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
ہوچکی ہے۔فیصل وڈوا کابھی ایک تقریب میں بزرگ صحافی سے غلط رویہ زیربحث رہا
ہے،مخالف کو بندر کہہ دیتے ہیں اور کبھی غیرانسان اور کبھی کسی اور کسی بھی
القاب سے پکار دیتے ہیں۔ شیخ رشید ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور یہ
انہیں کا ہی خاصہ ہے کہ کبھی کھُل کر اور کبھی اشارہ کنایہ میں چھوٹے بڑے
سب مخالفین کو خوب لٹار دیتے ہیں۔دھرنے کے دوران ان کی اشتعال انگیزصدائیں
آج بھی پاکستان کے سیاسی فضا میں سنائیں دیتی ہیں۔ دوسری جانب شاید ہی کوئی
ایسا مخالف پارلیمنٹ یا سینٹ میں ہو جو فواد چوہدری کے تندوتیز لفظی حملوں
سے محفوظ رہا ہو۔ سمیع ابراھیم کو ایک نجی تقریب میں تھپڑ مارنے پر جماعت
میں خوب پذیرائی سمیٹ چکے ہیں۔کسی کی بھی پارٹی قیادت کی جانب سے اُن کے اس
رویے پر سرزنش نہیں کی گئی۔اب کہا جارہا ہے کہ شہبازگل جس انداز میں وہ
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہر محاذ پر مخالفین کی تاپوں کو خاموش کر رہے
تھے،نہیں لگتا کہ عملی طور پر فارغ یا مستعفیٰ ہوئے ہیں بلکہ ایسے افراد ہی
تو تحریک انصاف کی قیادت کو پسندیدہ قرار پاتے ہیں اور قوی امکان ہے کہ
پہلے سے بڑی اور اہم ذمہ داریاں سونپ دی جائیں
وعدہ تو یہ تھا کہ نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا بول بالا ہوگا
مگررویے بتا رہے ہیں کہ حکمرانوں کا قانون نافذ ہوچکا ہے۔حکمرانوں کو اس
بات کی احساسیت،نزاکت اور اہمیت کا اندازہ کب ہو گا کہ سیاسی ماحول خوشگوار
رکھنا اپوزیشن کا نہیں بلکہ وقت کے حکمران کے لئے ضروری بھی ہوتا ہے اور
اُن کی اولین ذمہ داری بھی،تاکہ کشیدگی کو ختم نہیں توکم سے کم ہی کر لیا
جائے،بصورت دیگر محکوم کے جذبات بھڑک جاناایک فطری عمل ہے۔حکمرانوں کو گہرے
غوروفکرکی اشد ضرورت ہے کہ اُن کے بولنے میں عدم توازن اور اخلاق باختگی کا
مظاہرہ جب آنے والی نسلوں کے گلے پڑ ے گا تو وہ کس کا گریبان پکڑیں گی کس
کی جان کو کوسیں گیں؟
لیکن کیا کریں ماجرہ ہی کچھ اور ہے،جس کے حوالے سے کسی اہل دانش نے خوب کہا
ہے کہ ”نامزد کردہ عہدیداران اور منتخب عہدیداروں کے مزاج اور اظہار میں
بہت فرق ہوتا ہے“تو یہاں فیصلہ سازوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ عوامی رائے ایک
سپرنگ کی مانند ہے جتنی دباؤ گے اُتنا اُبھرے گی اور اس بات کی حقیقت کو
بھی سمجھنا ہو گا کہ لوگ تو مر جاتے ہیں مگر نظریات نہیں مرتے بلکہ اظہار
رائے کو خاموش کرنے کی زور زبردستی میں ہم خیالوں کا دائرہ کار بھی وسیع
ہوتا رہتا ہے،جواظہار خیال میں شدت پسندی کو بھی فروغ دینے لگتا ہے،جو کسی
بھی قوم و ملت کیلئے کوئی خوشگوار سائن نہیں۔ تو خدارا صاف جمہوری کلچر کو
فروغ دینے کیلئے اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔
یہاں انفرادی طور پر ہم بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اگر مثالی معاشرہ
قائم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور زبان
قرآن اور فرامین معصوم کے مطابق استعمال کرکے عروج، کامیابیوں اور
کامرانیوں کی نئی داستانیں رقم کریں ورنہ رسوائی،پسپائی اور زوال کے سوا
کچھ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|