آج ملک میں سیاسی حالات اور عوامی مسائل کے پیشِ نظر
علماء ایک بار پھر میدان میں اترے ہیں۔جس کی قیادت مولانا فضل الرحمان کر
رہے ہیں۔یہ ایک سیاسی معرکہ ہے،جس کا آغاز2018ء کے انتخابات کے نتائج کے
ساتھ ہی شروع ہوا،کیونکہ یہ ایک ’’سلیکٹو‘‘انتخابات تھے اور اس بات پر تمام
سیاسی پارٹیوں کا اتفاق بھی تھا۔اس وقت مولانا فضل الرحمان نے تمام حزب
اختلاف کی پارٹیوں کو یک جان کرنے اور احتجاج کرنے کی کوشش کی،مگر میاں
نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت نے مولانا کی سوچ کو درست
ماننے کے باوجود صحیح وقت کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔اس فیصلے کو وقت نے
درست ثابت کیا۔آج عمران خان اور ان کی ٹیم کی نا اہلی اور ناقص کارکردگی
عوام کے سامنے کھل کر آ چکی ہے۔عوام مسائل سے دوچار ہے ۔مہنگائی،بے روزگاری
اور عدم تحفظ نے لوگوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔اب ایسی صورت حال کا فائدہ
حزب اختلاف کی پارٹیاں اٹھانے کو تیار ہیں۔ویسے تو دھرنے اور احتجاج سیاست
میں معمول ہوتا ہے ،مگر عمران خان کی حکومت آزادی مارچ کو لے کر زیادہ ہی
خوف زدہ ہے۔حکومت اپنے ہی علماء اور مشائخ کی حمایت لینے میں ناکام ہو چکی
ہے۔جہاں علماء کرام کو عمران خان کا پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست
بنانے کے دعوے پر اعتبار نہیں ہے ،وہاں عمران خان پرشکوک و شبہات بھی بہت
زیادہ ہیں ۔انہیں شبہہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کی خواہش پروان چڑھ رہی ہے
۔انہیں تشویش ہے کہ برطانوی شاہی جوڑے کے پانچ روزہ دورہ پاکستان کا مقصد
کیا تھا․․․اس دورے کے لئے وزیر اعظم کی سابقہ بیوی کا کردار کیا تھا؟طلاق
کے باوجود جمائما کی عمران خان میں دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟پرویز مشرف کی
طرح عمران خان کی اقلیتوں کی جانب ضرورت سے زیادہ جھکاؤ؛یہودیوں سے خصوصی
ہمدردی کیا پیغام دیتی ہے ؟بار بار ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کی باتوں سے
مراد یہودیوں کا یثرب تو نہیں؛کیوں کہ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے دار نے
ابھی تک ایسا ایک بھی قدم نہیں اٹھا یا، جس سے فلاحی ریاست بنانے کا تصور
نظر آتا ہو۔آج عوام حکومت کے خلاف متحد ہے ۔جنہیں چند مہینے پہلے چور ڈاکو
کہتے تھے ،’’گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگائے جاتے تھے ۔ان نعروں کی واپسی کا
وقت بہت جلد آن پہنچا ہے۔اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں،خود عمران خان اور ان
کی ٹیم ہے،لیکن شاید اقتدار کا نشہ ایسا زہریلا ہوتا ہے اور اسے اپنی طاقت
پر اتنا ناز ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی ہلانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ماضی میں
یہی بے جا خود اعتمادی اور خوش فہمی نے بہت بڑے بڑے برجوں کو ذلیل و خوار
کیا ہے ۔
تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تمام دینی ،سیاسی و سماجی حلقے ،تاجر و صنعت
کار اور عوام ایک پیج پر ہیں ،لیکن عمران خان ’’میں نا مانو‘‘کی رٹ پر قائم
ہیں ۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم آزادی مارچ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔حالاں کہ
خوف اور بے چینی حکومت کے ہر شخص پر عیاں ہیں ۔جیسے جیسے دھرنے کا وقت قریب
آ رہا ہے ۔حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں ۔عمران خان اپنے ’’سرپرستوں‘‘سے
مولانا فضل الرحمان اور حزب اختلاف کے دیگر قائدین پر دباؤ ڈلوا رہے ہیں۔
حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کے رخ نے اپنا آپ دکھانا شروع کر دیا ہے ۔حکومت
کے پیچھے سرپرست قوتوں نے گرفت ڈھیلی کر دی ہے ۔حکومتی مضبوط حریف چوہدری
برادران غیر جانب دار رہنے کا اعلان کر چکے ہیں۔حکومتی علماء مشائخ مدد
کرنے پر معذرت کر چکے ہیں۔ ایسے حالات میں عمران خان کا کردار کیا ہے اور
کیسا ہونا چاہیے تھا․․؟ویسے تو حکومت کی تمام تر ناکامی کی ذمہ داری عمران
خان پر عاید ہوتی ہے ۔کیونکہ وہ ٹیم کے کپتان ہیں،مگر وہ ناکامیوں کو اپنے
پلڑے میں ڈالنے کے عادی نہیں ہیں ۔کامیابیوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے
کے فن سے باخوبی آشنا ہیں ۔آزادی مارچ عمران خان کے لئے بڑا چیلنج ثابت
ہونے والا ہے۔چناں چہ حکمرانوں کو ہوش کرنا چاہیے ۔اگرحکومت کی جانب سے
آزادی مارچ پر عادتاً سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور تصادم اور دھنگا
مشتی کے نتیجے میں لال مسجد جیسا حادثہ ہو گیا تو ملکی حالات قابو سے باہر
ہو جائیں گے۔دھرنے اور ریلیوں کو تحریک انصاف روک نہیں سکتی ،کیونکہ یہ خود
جلسے ،جلوس اور دھرنوں کی پیداوار ہے اوراسے جمہوری حق سمجھتی رہی ہے ۔حکومت
کو چاہیے کہ جیسے میاں نواز شریف نے انہیں برداشت کیا تھا اور کسی خون
خرابے کے بغیر حکومت بچائی تھی ۔حالاں کہ اس وقت ملک میں معاشی اور سیاسی
حالات اس نہج پر نہیں تھے ۔انہیں اس سے زیادہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے ۔کیوں
کہ مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ کی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔ان کے پیرو
کار اپنے امیر کے سامنے سر خم تسلیم کر چکے ہیں ۔ایسے حالات میں حکومت کو
ہر صورت کامیاب مذاکرات کی ضرورت ہے،مگر عمران خان کا مولانا کے بارے میں
کنونشن سینٹر میں غیر ذمہ دارانہ بیان اورپرویز خٹک کی مذاکرات سے پہلے
19اکتوبر کی پریس کانفرس کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کا کوئی اور
ایجنڈا ہے۔جسے کوئی جمہوریت پسند سیاست دان قبول نہیں کر سکتا ۔اس حکومتی
رویے سے عوام کو صاف اور شفاف تصویر نظر آ رہی ہے کہ قومی حکومت کی جانب
قدم بڑھایا جا رہا ہے ۔اگر ایسا ہوا تو پاکستان کی سالمیت اوراتحاد خطرے
میں پڑ جائے گی۔بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ جیسے وزیر حالات کو بہتر نہیں بلکہ
خراب کرنے کے ماہر ہیں ۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ چند حلیم ،فہم وفراست
اورمعاملہ فہمی رکھنے والی شخصیات کا انتخاب کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی
کوشش کریں ۔ماضی کے دھرنوں نے ملک و قوم کا نقصان کیا تھا ،آج بھی دھرنا
ملک اور حکومت کو کمزور کر دے گا۔دھرنے کا نتیجہ ملکی معیشت کی ابتری ،امن
و امان کے حالات ابتر کی صورت میں نکلیں گے۔حکومت کو آزادی مارچ سے پوری
ہوش مندی سے نپٹنا ہو گا۔حکمرانوں کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ سیاسی
ماحول خوش گوار کرنا حزب اختلاف کا نہیں،ان کا کام ہے ۔اس لئے سیاسی
مذاکرات اور مکمل برداشت ہی حالات سنبھال سکتے ہیں۔ورنہ تصادم یقینی ہے،جس
کا نتیجہ نظام پلٹنے پر ختم ہو گا،جو یقیناً کسی کے حق میں بہتر نہیں ہے۔
|