ہمارے حکمرانوں کا ذہنی افق ،اندازِ فکر،سوچ اور اپروچ
دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔یہ ہمیشہ اس راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں جو بالکل
غیر حقیقی اور غیر منطقی ہوتی ہے۔ جس طرح طالع آزماؤں کوہمیشہ عوامی راہنما
بننے کا جنون سوار رہتا ہے حالانکہ عوام سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں
ہوتا بالکل اسی طرح سول حکمرانوں پر عالمی قائد بننے کا بھوت سوار رہتا ہے
اس چیز سے قطع نظر کہ ان کہ اپنی حیثیت کیا ہے اور انھیں اقوامِ عالم میں
کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟طالع آزما جمہوری قدروں کا رونا رو کر دنیاکی
نگاہوں میں معتبربننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سیاستدان عالمی شہرت کے حصول
کی خاطر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر انھیں بیوقوف بنانے اور اپنے
اقتدار کو طول دینے کا ڈرامہ رچاتے ہیں ۔ وہ جو سیاست کی ابجد سے نابلد
ہوتے ہیں وہ سیاست کے نا خدا بننے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اورجو آئین و
قانون،فلسفے ،تاریخ اور ادب سے دور کا واسطہ نہیں رکھتے وہ سیاست کا بادشاہ
بننے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔وہ
معاشی بد حالی،امن و امان کی ابتر صورتِ حال،بے روز گاری، مہنگائی اور دھشت
گردی جیسے جان لیوامسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔پاکستان کی سرحدیں غیر
محفوظ ہیں۔ایک طرف بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان سے
دھشت گردی کی کاروائیوں نے امن و امان کو تہہ و بالا کر رکھا ہے۔کشمیر میں
بھارتی در اندازی نے دنیا بھر کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔کشمیر میں ۵
اگست ۲۰۱۹سے لگائے گے کرفیو نے کشمیریوں سے ان کے بنیادی حقوق سلب کر لئے
ہیں ۔کشمیری پچھلے اڑھائی ماہ سے ریاستی دھشت گردی کا شکار بنے ہوئے ہیں ۔
ان پر زندگی کے دروازے مقفل کئے جا چکے ہیں اور ان کی آزادیِ اظہار کی قوت
سلب کر لی گئی ہے۔انھیں غلام بنا کر رکھا جا رہا ہے ۔ ان پر پانی ، دودھ
،ادویات اور کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی پابندی عائد ہے ۔چھوٹے چھوٹے
بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں لیکن بے رحم حکمرانوں کو رحم نہیں آ رہا
۔بھارت عالمی رائے عامہ کو سرِ مو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ہماری
آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہو رہی ہے۔ہمارے بیا نیہ پر کوئی قوم
کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔کوئی بھارتی مذمت کرنے کے لئے آمادہ نہیں
ہے۔ہمارے عرب حکمران کشمیر پر پاکستانی موقف کے لئے کسی ٹھوس حمائت کے لئے
سامنے نہیں آنا چاہتے ۔حمائت تو بڑی دور کی بات ہے وہ تو درندہ صفت نریندر
مودی کو ایوارڈز اور میڈلوں سے نواز رہے ہیں۔انسانی حقوق کے فورم اور
اقوامِ متحدہ کے فورم پر پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے
باوجود حکومت خارجہ پالیسی کے محاسن بیان کرتے ہوئے نہیں تھک رہی۔ہمیں
بتایا جائے کہ کشمیر میں اڑھائی ماہ کے کرفیو کے بعد بھارت پر عالمی دباؤ
کہا ں ہے؟امریکہ ، روس ،فرانس ، جرمنی ، انگلستان ، جاپان ، اسٹریلیا
،کینیڈا ،نیوزی لینڈ کشیہر کے مسئلہ پر کہاں کھڑے ہیں؟ان کا غیر جانب
دارانہ موقف کہاں ہے؟ ہمیں بتایا جائے کہ وہ بھارت کو آرٹیکل ۷۰ ۳ اور ۵۶
اے واپس لینے کے لئے کتنا دباؤ ڈال رہے ہیں؟خوابوں کی دنیا میں جینے پر
کوئی پابندی نہیں ہے لیکن کشمیر ہمای شہ رگ ہے لہذا اس پر غیر سنجیدہ سوچ
کوقوم کبھی معاف نہیں کر سکتی ۔وہ جذباتیت کی رو میں بہہ کرحکومت کے خلاف
کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتی ہےْ ۔کشمیر ہمارے لئے زندگی اور موت کا
مسئلہ ہے لیکن حکومت سوائے تقاریر کے کچھ نہیں کر رہی۔اب تو تقاریر کا زور
بھی ٹوٹ چکا ہے۔ایک جذباتی فضا جو تیار کی گئی تھی وہ بھی دھیرے دھیرے دم
توڑ رہی ہے۔عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ کمزور ہو تا جا رہا ہے۔ہمارے سب سے
مخلص دوست چین کے صدر شی جن چنگ نے اپنے حالیہ بھارتی دورے میں کشمیر کا
ذکر کرنا مناب نہیں سمجھا جس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کشمیر کا
مسئلہ کہاں کھڑا ہے۔
کشمیری جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا مداوا کون کرے گا؟ کون انھیں اس عذاب
سے نکالے گا؟ کون ان کے زخموں پر مرحم رکھے گا؟ کون ا نھیں آہوں ، سسکیوں
اور آنسوؤں سے نجات دلائے گا؟انھیں آزادی کا جو خواب دکھایا گیا ہے اس میں
حقیقت کے رنگ کون بھرے گا؟انھیں احتجاج کی جس راہ پر ڈالا گیا تھا اس پر اب
ان کے ساتھ کون کھڑا ہو گا ؟ الفاظ و معانی کی حقیقت کا راز کون بتائے
گا؟کون ہے جو ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جرات و ہمت کا ثبوت دے گا؟مصلحت
پسندی سے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہونے سے رہا کشمیر کا مسئلہ با جرات اعمال
اور بے لاگ سچائی کا متقاضی ہے لیکن ہمارے حکمران ا س کے لئے تیار نہیں
ہیں۔وہ جنگ میں الجھے بغیر کشمیر کی آزادی کا خواب دیکھ رہے ہیں جو کہ
ناممکنات میں سے ہے۔بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے لہذا عالمی برادری بہت سے
تحفظات کے باوجود اس سے مخا صمت کیلئے تیار نہیں ہے ۔بھارتی منڈیوں میں
اپنی مصنوعات کی کھپت انھیں اپنے ضمیر کو دبانے ، نظر انداز کرنے اور کچلنے
کی پالیسی پر گامزن کرنے کیلئے مجبور کر رہی ہے۔پاکستان اس وقت بالکل تنہا
ئی کاشکارہے لیکن ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا ہمارے بیانیہ کو تسلیم
کر رہی ہے ۔ بھارت کی اندرونی سیاست اور اس کا ندرونی خلفشار اپنی جگہ اہم
ہو گا لیکن کیا اس سے کشمیر کی آزادی کی منزل کا حصول ممکن بنایا جا سکتا
ہے؟بند کواڑوں کے پچھے کیا ہو رہا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں ہے؟نوجوانوں کو
گرفتار کر کے کہاں پہنچایا جا رہا ہے کوئی لب کھولنے کے لئے آمادہ نہیں
ہے۔عالمی برادری کشمیر کو بھارت اور پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر
اپنا دامن چھڑا چکی ہے۔امریکہ کی ثالثی کا جو جھانسہ عمران خون کو دیا
گیاتھا اس نے مسئلہ کو مزید کمزور کر دیا ہے۔نہ امریکہ ثالثی کرے گا اور نہ
یہ مسئلہ حل ہو گا ۔صدرِامریکہ ڈولنڈ ٹرمپ توبھا رتی وزیراعظم نریندرمودی
کے ہا تھو ں میں ہاتھ ڈال کر نیو یارک کے جلسہ میں پوری دنیا کو دوستی کا
نیا چہرہ دکھا رہے تھے ۔ڈولنڈ ٹرمپ کی نریندر مودی کے جلسہ میں شمولیت اس
بات کا واشگاف اعلان تھا کہ صدرِ امریکہ بھارتی ہاتھو ں میں کھیل رہے ہیں۔
ڈولنڈ ٹرمپ کو فنڈ ریزنگ میں دلچسپی تھی اور بھارتیوں نے جی کھول کر ڈالروں
کی بارش کی۔کشمیر کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بند کواڑ وں کے پیچھے جن سر
فروشوں کے قدموں کی آہٹ سننے کیلئے بے تاب ہیں ان کا کہیں نام و نشان نہیں
ہے۔مایوسی اب ہر سو اپنے پر کھولے ہوئے ہے جس سے آزادی کے متوالوں کی دل
شکنی ہو رہی ہے ۔ان کی آنکھین انتطار کرتے ہوئے پتھرا گئی ہیں لیکن جن کا
انتطار تھا ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔سنگ باری اور رجمیت سے کشمیری
مظلوم تو بن سکتے ہیں لیکن اس سے تاریخ کے پنوں میں آزادی کوحقیقت کا جامہ
نہیں پہنایا جا سکتا۔آزادی خون مانگتی ہے اور حکومت فی الحال اس راہ پر سفر
سے گریزاں ہے۔وہ طفل تسلیوں سے وقت کو دھکہ دے رہی ہے۔وہ کشمیر ی مسئلہ کو
اپنے اقتدار کے دوام کا ذریعہ بنا رہی ہے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستانیوں
کی جذباتی وابستگی کا شاہکار ہے۔وہ کشمیر پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرتے
جبکہ حکومت بیانات ، دھمکیوں اور بڑھکوں سے عالمی سطح پر زندہ رہنا چاہتی
ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے بالکل کوری ہے ۔ہروہ طرزِ فکر جو صرف الفا ظی
کا آئینہ دار ہو اور جس میں ذ اتی مفادت کی آرزو جھلکتی ہو آخرِ کار ناکام
ہوجا تاہے۔ ایسی سوچ کی ناکامی نوشتہ دیوار ہوتی ہے لیکن اقتدار کے بھوکوں
کو کچھ نظر نہیں آتا جبکہ اہلِ دانش،اہلِ فہم،اہلِ علم اور اہلِ نظر ایسی
تحریر کو بآسانی پڑھ سکتے ہیں۔کاش حکمرانوں کو بھی ایسی نگاہ عطا ہو جاتی
تو نوشتہ دیوار پڑھنے کی اہلیت رکھتی ۔ کشمیر کو ایک دن آزاد ہونا ہے لیکن
اس کیلئے حکومت کو عزمِ مصمم،قربانی اور سرفروشی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔،۔
|