27 اکتوبر1947کو کشمیر کے ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ نے بھارت
کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور یو ں اس مسلم اکثریتی ریاست میں ایک
اورتاریک رات کا آغاز ہوا۔کشمیر پہلے بھی مہاراجہ گلاب سنگھ نے انگریز کے
ہاتھ فروخت کیا تھا اور اس قیمتی سر زمین کا بڑا سستا سودا ہوا تھا۔اس کے
باسیوں نے پہلے بھی اپنی جانیں دیوانہ وار اس کی آزادی کے لیے نچاور کیں
تھیں لیکن 27اکتوبر کو ان کی آزادی کی آخری اُمید بھی چھین لی گئی ایک
مسلمان ریاست ہندو حکومت کے ہاتھ میں دے دی گئی اور پھر گویا ان کو مال مفت
سمجھ لیا گیا یعنی جو چاہو سلوک کرو۔اگر چہ کشمیر کا کچھ حصہ پاک فوج اور
قبائلی عوام کی مدد سے آزاد کرا لیا گیا لیکن باقی ماندہ کشمیر روز خون میں
نہلایا جاتا ہے اور روز اس کے بچوں اور بڑوں کا خون بہایا جاتا ہے، اقوام
متحدہ کی قرار ادادیں کاغذوں میں ہی چیختی رہ جاتی ہیں نہ دنیا انہیں سنتی
ہے اور نہ کشمیریوں کی آہ و بکا کو۔ کشمیر72 سال سے ایک منتازعہ ریا ست ہے
اور اس کی یہ حیثیت بین الاقوامی طور پر ہر جگہ تسلیم کی گئی خود بھارت نے
اس کو اپنے آئین میں خصوصی حیثیت دی اگرچہ ایسا مجبورا کیا گیا لیکن اس سال
اگست میں بھارت کے دہشتگرد وزیراعظم مودی نے اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے
اسے بھارت میں ضم کرنیکا اعلان کیا اور یوں اپنے خیال میں کشمیر کے مسئلے
میں آخری کیل گاڑھ دی، وادی میں کرفیو لگا دیا گیا جو دو مہینے سے زیادہ
گزرنے کے بعد بھی نافذ ہے یعنی ایک ایسی جیل جس کے باسی پہلے قومی آزادی کو
ترس رہے تھے اب شخصی اور انسانی آزادی کو بھی ترس رہے ہیں۔ مودی کا یہ بھی
خیال ہے کہ وہ اس طرح سے کشمیریوں کے غصے کو ٹھنڈا کر دے گا لیکن وہ یہ
بھول رہا ہے کہ جتنا وہ ان لوگوں کو دبائے گا اتنا ہی وہ زور سے اپنے حق
آزادی کے لیے اُٹھیں گے۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے اور نظریاتی اور
جغرافیائی دونوں لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنتا ہے، قائداعظم نے بجا طور پر
اسے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کشمیر مسلمان نہ
ہوتا تو ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح کب کی آزادی حاصل کر چکا ہوتا۔
لیکن یہاں افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیر پر تاریک سیاہ رات مسلط کرنے والے
بھارت کو کوئی پوچھ نہیں رہا کہ آخروہ کس قانون کے تحت کشمیر پر قابض ہے
اور کس قانون کے تحت مودی نے اُسے اپنے ملک کا غیر متنازعہ حصہ قرار دیا
بلکہ اس جرم کے بعد کسی مسلمان ملک نے بھی نہ بھارت سے اپنے تعلقات منقطع
کیے نہ ہی اُس کی سرزنش کی اور پاکستان سوائے چند اسلامی اور دوست ممالک کی
حمایت کے تن تنہا اُس کے سامنے ڈٹا کھڑا ہے۔ اس بار وزیراعظم عمران خان نے
اقوام متحدہ میں دنیا کو جو آئینہ دکھا یا ہے اُس کے بعد توچاہیے تھا کہ
اگر غیر مسلم نہیں تو مسلمان ممالک ہی پاکستان کی حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوتے
لیکن ان کی طرف سے تو بھارت اور بھارتی وزیراعظم کی مزید پزیرائی کی گئی
حالانکہ اس چشم کشا تقریر کے بعددنیا کو ہوش آجانا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے
دنیا کو اُن حالات سے بھی آگاہ کیا جو کرفیو اُٹھنے کے بعد پیش آئیں گے اور
اس کی بھی پیشگی اطلاع دی کہ پھر ان حالات کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا
جائے گا جبکہ اس کا ذمہ داربھارت ہو گا انہوں نے دنیا کو یہ بھی یاد دلایا
کہ یہ دو ایٹمی ممالک کا معاملہ اور مسئلہ ہے۔ انہوں نے بجا کہا کہ میں
دھمکی نہیں دے رہا ڈرا رہا ہوں اور یہ بالکل حقیقت ہے اوردنیا کو اس حقیقت
سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اگر دو ایٹمی ملکوں میں روایتی جنگ بھی چھڑے تو انہیں
یاد رکھنا چاہیے اس کا انجام کیا ہوگا۔ کشمیر کے مسئلے کی سنجیدگی کا دنیا
کو احساس بھی کرنا ہوگا اور سمجھنا بھی ہو گا۔ کشمیری اب اس نکتے تک پہنچ
چکے ہیں کہ وہ مرو یا مارو کی پالیسی ہی اپنائیں گے،وہ اپنی آزادی کے لیے
نہ پہلے کوئی قربانی دینے سے ڈرے ہیں اور نہ اب ایسا ہو گا۔ اس وقت بھی وہ
پوری دنیامیں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں لیکن بھارت نہ صرف اپنی ہٹ دھرمی
پر قائم ہے بلکہ حالات کو مزید سے مزید خراب کر رہا ہے وہ نہ صرف سرحد کے
اُس پار کشمیریوں کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ بڑے تواتر سے ایل او سی کے اِس
پار بھی فائرنگ کر رہا ہے یعنی دونوں طرف کے کشمیری اس کے نشانے پر ہیں۔ اس
کا رویہ اور کاروائیاں عنقریب کشمیریوں کو کرفیو کی پابندیاں توڑنے پر
مجبور کریں گے اور پھر جو ہوگا وہ خود بھارت کے لیے بھی قابل برداشت نہیں
ہوگالہٰذا اسے اب کشمیر کو کشمیریوں کے حوالے کر دینا چاہیے اوردنیا کو بھی
بھارت کو یہ احساس دلانے میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے اور اس بات کا
احساس کرنا چاہیے کہ جو پاکستان کے وزیر اعظم نے کہا وہ حقیقت بن سکتا ہے
لہٰذا اس حقیقت سے اسے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ دنیا کسی بڑے حادثے سے بچ
سکے۔
|