22 اکتوبر۔۔۔مڑی کوئی سن دا نی؟

22 اکتوبر۔۔۔مڑی کوئی سن دا نی؟

برصغیر پاک ہند سماج کا بڑا قہر چلتا آ رہا ہے اونچے نام عہدے اختیاریا قوم ملک مذہب اس جیسے خاص تقاضوں کو ڈھال بنا کر جتھے کمیونٹی علاقہ ان سے منسلک عوامل و بھیڑ چال والوں کو استعمال کر کے بڑا ظلم کیا جائے‘ دھوکہ دیا جائے‘ جھوٹ ٹھونسا جائے‘ بدھو بننے والوں کو بدھو بنایا جائے‘ مزے کیے جائیں‘ نقاب اُترے تو آگ پر پانی ڈالنے کے لیے پاؤں پکڑ لیے جائیں اس نہ ختم ہونے والے عذاب نے مخلوق کو غربت‘ پستی کا ایسا رسیا بنا دیا ہے ان کو اپنی معمولی ضرورت کیلئے اجتماعی مستقل مستقبل کے تقاضوں کا نگہبان بننے سے اعصابی معذور کر رکھا ہے وہاں سے یہاں تک ایسا پنجرہ ہے جس کے قیدی طوطے صبح تا شام شور مچاتے ایک دوسرے پر حملوں حتیٰ کہ زخم زخم ہو کر طوفان برپا کیے ہوتے ہیں مگر اندھیرا ہوتے ہی مٹکوں میں گھس کر نیند کی پناہ میں کچھ سکون پا لیتے ہیں جن کے مالک کہلانے والے سفاک و بال جان ہیں ورنہ جرم کو جرم کہا جائے اس کے تدارک کا اخلاص سے ادراک کیا جائے یہ جرم کرنے والے کے حق میں انصاف ہوتا ہے وہ خود کو سنوارے‘ قابل قدر بنائے جب شہر میں قانون معصوم بیٹا بیٹی کی تمیز کے بغیر ان پر طاقت بن کر ٹوٹا ہو خود قانون ٹائر جلا کر ہنگامہ کر چکا ہو‘ رہنما ورکھوالے کہلانے والے سیاسی گروہی مفاد کیلئے واقعہ کو بھولی بسری کہانی بنا چکے ہوں تو پھر 22 اکتوبر کو حیران کن تماشہ رونما ہونا انہونی نہیں ہوتا‘ ایک دوسرے پرمعاملہ ڈال کر اپنے بھولا ہونے کا چورن استعمال ہوتا ہے جس کے کاریگر نہ ہونے پر سابق وزیر کا اپنے حریف کا طنز مزاح سے نشانہ بنانے کا لطیفہ تازہ ہوتا ہے‘ پرا وا مری کوئی سن دا نی۔ 22 اکتوبر کو ایوان کہلانے والے فورم پر وادی سے تعلق رکھنے والے سینئر ممبرشوکت شاہ رنجیدہ ہو کر کہہ رہے تھے‘ آج صبح سے اب تک غیر ذمہ داری‘ بے حسی پر حیران ہوں وادی کی حالت پر بات ہونی ہے‘ قراردادیں ہیں مگر دونوں فریقین کے سربراہان سمیت اکثریت جا چکی ہے ان کی حیرانگی سب کی سنجیدگی کا آئینہ ہے‘ ٹوٹی نلکا‘سکیم‘چیک‘تقرری‘ تبادلہ‘ ٹی اے ڈای اے زرہ بھر معاملہ رُک جائے تو اینٹ سے ایجنٹ بجا دی جاتی ہے مگر اجتماعیت انصاف کا سوال اُٹھ جائے تو قومی تحریکی جمہوری تقاضے ذمہ داریوں پرمٹی پاؤ کا فائر برگیڈ بنا دیے جاتے ہیں‘ ٹرمپ نے اسرائیل کا شام کی گولان پہاڑی سلسلہ پر قبضہ کا کھیل کھیلا‘ طیب اردوان نے اپنے سرحدی تحفظ کیلئے حملہ کیا تو ٹرمپ دھمکیوں پابندیوں پر آ گیا‘ اپنی فوج و گماشتوں کو پسپا ہونے پر اردوان سے معذرت اور اپنے سابقہ پیش رو اوباما کے غلط فیصلوں پر ملبہ ڈال دیا مگر خود سیانی بلی کھمبا نوچے ڈرامہ بن گیا ہے یہ سپر پاور کا حال ہے اب وہ زمانے جا چکے ہیں جب ظلم ناانصافی پر آنکھوں میں دھول جھونک دی جاتی تھی اب ہر سطح‘ ہر طرف کے خود کو عقل کل کا گھمنڈ اختیار قوت رکھنے والوں کو ہوش سے کام لینا چاہیے جو جس کا کام ہے اُسے کرنے دینا چاہیے‘ ہاں اپنے اُمور میں شعبہ جات میں سب سے بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں جہاں باہم تقاضوں کا ملکر فریضہ نبھانا ہو وہاں واقعتا ملکر کام کرنا چاہیے اور جس کا جو کام ہے جس کی اہلیت رکھتا ہے اس سے کام لینا چاہیے‘ 2 ماہ کی مسلسل ہر سطح پر کامیابیاں ان کے سامنے جانوروں کے پجاریوں کا پٹ کر پاگل پن کو عقل کل نے ایک دِن دو بلنڈر کر کے پھر سے جیسا میں ہو ویسا مجھے کہنے والے ہیں جواز فراہم کر کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو مذاکرات کا ہنر پانی سر پر گزرنے کے بعد آزمایا گیا وہ سیاست کا فریضہ سیاست کار پہلے کر لیتے تو یہ المیہ نہ ہوتا ہر معاملہ میں قومی مذہبی تحریکی جمہوری اس جیسے عوامل کو جوڑنے‘ جماعت‘ ادارہ‘ شعبہ کو درخت پر شاخ کی بالادستی دینے کا ظلم نہ کیا جائے‘ عقل کے سرپرٹ گھوڑوں اختیارقوت کے ہتھوڑوں سے فتح کا کھیل بند کیا جائے‘ غلط کام غلط فیصلے کو غلط مانا جائے‘ حکمت حقیقت پسندی سے دھرتی کا سپوت بن کر اصلاح کریں تاکہ آئندہ پھر یہ تماشہ نہ ہو۔

 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.