کشمیر پر بھارتی جبری قبضے اور جارحیت کے 72سال

مقبوضہ جمو ں و کشمیر پر بھارت کے جبری قبضہ اور جارحیت کے 72سال مکمل ہونے پر بھارت نے مقبوضہ ریاست کے حصے بخرے کر دیئے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانے کے بجائے مقبوضہ ریاست کو ڈی گریڈ کر دیا۔ ریاست کے ٹکڑے کرنے کے بعد انہیں اپنی غلام کالونیاں بنادیا۔انہیں اپنے مرکزی علاقوں کا درجہ دے دیا۔ 5اگست 2019کو یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ اس دن بھارت نے مقبوضہ ریاست پر از سرنو حملہ کیا،لشکر کشی کی اور مزید فوج داخل کی۔ فوجی انخلاء کے بجائے مزید فوج داخل کی گئی جس نے کشمیری عوام کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے کھلی جنگ شروع کر دی ہے۔ایک کروڑ سے زیادہ کشمیریوں کو گھروں میں قید کر کے ان کا محاصرہ کرلیا۔کرفیو اور پابندیاں سخت کیں اور کشمیر کو دنیا کے لئے انفارمیشن بلیک ہول بنا دیا۔آزاد کشمیر کے عوام نے مظاہرے کئے تو ان پر گولہ باری شروع کر دی۔

دنیا میں کہیں اگرغیر مسلم آبادی کے خلاف ایک دن بھی کرفیو اور پابندیاں لگیں تو چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے۔دنیا کے مختلف ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ جارحیت والے ملک پر معاشی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ مگر کشمیر میں مسلم آبادی کے خلاف مسلسل کرفیو اور سخت پابندیوں کے دو ماہ گزرنے کے باوجوددنیا بھارت پر سنجیدگی سے دباؤ نہ ڈال سکی۔ بھارت کو کشمیریوں کی نسل کشی جاری رکھنے کی چھوٹ دے دی۔بھارت کی کشمیریوں کے خلاف پہلی جنگ 27اکتوبر1947کو سرینگر ہوائی اڈے پر پہلے بھارتی فوجی دستے کے اترنے کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ جب کہ جموں و کشمیر کے عوام بیرونی جارحیت کے خلاف گزشتہ72سال یا 100 سال سے نہیں بلکہ4 صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ سے برسرپیکار ہیں۔ 19؍نومبر1586ء کو جب شہنشاہِ کشمیر یوسف شاہ چک کے بیٹے یعقوب شاہ چک جوکہ خودمختار کشمیر کے آخری حکمران ثابت ہوئے نے مغل فوج پر گوریلا حملے کا پہلا وار کیا تو اُسے کامیاب ترین حملہ قرار دیا گیا کیونکہ اس میں متعدد مغل فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس رات یعقوب شاہ چک نے اپنی گوریلا فوج سے کہا تھا کہ ’’آزادی صرف ایک دن دور ہے، ہم کل تک مغلوں کو کشمیر سے مار بھگائیں گے‘‘۔ بدقسمتی سے وہ کل424 سال گزرنے کے باوجود نمودار نہ ہوسکا۔ مغلوں نے1586ء سے 1752ء تک167 سال کشمیر پر حکومت کی۔ انہوں نے کشمیر کو ’’باغِ خاص‘‘ کا خطاب دے کر700 باغات تعمیر کئے۔ کشمیر کو اپنی عیش و عشرت کے لئے تفریح گاہ بنا دیا۔ انہوں نے کشمیریوں پر ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت حکمرانی کی۔ پھر افغانوں نے1752ء سے1819ء تک جابرانہ قبضہ جمایا۔ 1819ء سے1846ء تک سکھا شاہی نے کشمیریوں کو روند ڈالا۔ پھر100سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کا خون نچوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد1947ء سے بھارت نے اپنی درندہ صفت افواج کے سہارے کشمیر کو اپنی کالونی میں بدل ڈالا۔ آج کشمیری اپنے ہی گھر میں قید ہیں۔ قابض بھارتی فورسز جس بے دردی سے کشمیریوں کی نسل کُشی کر رہے ہیں اس نے گزشتہ قابضین کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔پی ایچ ڈی سکالرز ڈاکٹر ظہیر الدین خان شہید، پروفیسر رفیع الدین بٹ شہید، ڈاکٹر عبدالمنان وانی شہید، ڈاکٹر سبزار احمدصوفی شہید ، پروفیسر نذیر بٹ شہید، ڈاکٹر خالد داوود سلفی شہیدسمیت لا تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیریوں کی شہادت بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف ،آزادی اور اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے قربانیاں پیش کرنے کے بھرپور عزم کو ظاہر کر رہی ہے۔

انڈیا اپنے قبضے کے حق میں جو دلائل دے رہا ہے وہ سراسر گمراہ کُن ہیں۔وہ کشمیر پر اپنے فوجی قبضے کو چار بنیادوں پر جائز قرار دیتا ہے۔
(۱) مہاراجہ کشمیر کی جانب سے 26؍اکتوبر1947ء کو دستاویزِ الحاق ہند،
(۲) 27؍اکتوبر1947ء کو گورنر جنرل انڈیا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے دستاویزِ الحاق کو تسلیم کرنا،
(۳)26؍اکتوبر1947ء کو مہاراجہ کشمیر کی جانب سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خط جس میں بھارت سے الحاق کے بدلے بھارتی فوجی امداد کا مطالبہ اور شیخ محمد عبداﷲ ریاست کی عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کرنا ،
(۴) 27؍اکتوبر1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا مہاراجہ کشمیر کو خط کہ جس میں مندرجہ بالا امداد کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا ریاست میں معاملات کے تصفیہ اور امن و قانون کی بحالی کے بعد ریاست کے الحاق کا سوال عوام کی ریفرنس سے حل کیا جائے گا۔

یعنی بھارت کے کشمیر پر قبضہ کا سارا دارومدا ر مہاراجہ کشمیر کی الحاق ہند کی دستاویز پر ہے جس کے بارے میں بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ دو دستاویز یعنی دستاویزِ الحاق اور ماؤنٹ بیٹن کو خط جس پر مہاراجہ نے26؍اکتوبر1947ء کو دستخط کئے ، جعلی تھے۔ مہاراجہ 26؍اکتوبر کو سرینگر سے جموں کی طرف 300 کلومیٹر سے زیادہ لمبی سڑک کے ذریعے سفر کر رہے تھے۔ اتنی طویل شاہراہ پر سفر کے دوران دستاویز الحاق پر دستخط کیسے ہوئے جبکہ مہاراجہ کے وزیر اعظم مُہرچند مہاجن اور کشمیر معاملات سے متعلق بھارتی سینئر افسر وی پی مینن دہلی میں تھے۔ دہلی اور عازمِ سفر مہاراجہ کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مہرچند مہاجن اور وی پی مینن27؍ اکتوبر ۱1947ء کی صبح10 بجے دہلی سے جموں بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہوئے اور مہاراجہ کو اسی دوپہر اُن دونوں کی زبانی اپنے وزیر اعظم کے بھارت سے مذاکرات کے نتیجہ کا پتہ چلا۔ یہاں یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ جب بھارتی فوج نے سرینگر ہوائی اڈے پر قبضہ کیا اس کے بعد مہاراجہ کی مہاجن اور مینن سے ملاقات ہوئی تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متذکرہ بالا دستاویز پر مہاراجہ کشمیر کے دستخط نہیں تھے اور اگر کسی نام نہاد ستاویز پر دستخط کئے بھی گئے تو اُن پر26؍اکتوبر1947ء کی جعلی تاریخ رقم کی گئی۔ مہاراجہ اور ماؤنٹ بیٹن کے مابین خطوط کو 28؍اکتوبر کو بھارت نے شائع کیا لیکن الحاق کی دستاویز کو شائع نہ کیا گیا جبکہ دونوں خطوط حکومتِ ہند نے تیار کئے تھے۔ دستاویزِ الحاق کی کاپی پاکستان کو بھی نہیں دی گئی اور نہ ہی اسے1948ء کے آغاز تک اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا۔1948ء میں حکومت ہند نے جو وائٹ پیپر شائع کیا اس میں دستاویز الحاق کو شامل نہیں کیا گیا کہ جس کی بنیاد پر بھارت کشمیر پر قبضہ جائز قرار دینے کا دعویٰ کرسکے۔ آج تک مہاراجہ کے دستخط شدہ دستاویز الحاق کا کوئی بھی اصل پیش نہیں کیا جاسکا۔ اگر اُن تمام دستاویزات کو جوکہ جعلی ہیں کو اصل قرار دیا بھی جائے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے دستاویز الحاق کو مشروط طور پر تسلیم کرنا اور عوام کی رائے معلوم کرنے کی بات سے بھی بھارت نے آج تک عمل نہیں کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خط میں عوام سے ریفرنس کا جو تذکرہ تھا وہ رائے شماری تھا۔ دستاویز الحاق کے جعلی ہونے پر یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ بھارت نے ایک خودمختار ریاست پر جبری فوجی قبضہ کیا تھا کیونکہ اس ریاست کے راجہ نے کسی بھی ایسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے جن کا مقصد کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو۔

آزاد کشمیر پر بھارتی گولہ باری اور مقبوضہ کشمیر میں قتل عام بھارت نے 1988 سے تیز کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام کشمیری گزشتہ30سال سے کرفیو، پابندیوں، مظاہروں، مار دھاڑ، قتل عام، نسل کشی، پیلٹ گن اور زہریلی گیسوں کو برداشت کر رہے ہیں۔گزشتہ اڑھائی ماہ سے سخت کرفیو اور پابندیوں کے شکار ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو رات کے چھاپوں کے دوران گھروں سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ سلامتی کونسل کا کشمیر پر مشاورتی اجلاس بھی ہوا۔ پاکستان بھی دنیا میں کشمیریوں کی آواز بلند کر رہا ہے۔مگر بھارت ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ وہ معصوم کشمیریوں کا مسلسل قتل عام کر رہا ہے، معصوم بچوں تک کو بینائی سے محروم کررہا ہے۔ عوام 1947ء سے بھارت کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔انتفادہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2008ء سے 2010ء تک کا سلسلہ بھی اس نئی نسل کے زبردست عزم کا عکاس تھا جس نے سب سے پہلے امرناتھ شرائن بورڈ کو اراضی کی منتقلی کے خلاف شروع کیا ۔ اس دوران کشمیریوں کو بعض نئے تجربات سے آشکار ہونا پڑا جس کے دوران بھارتی انہتاپسندوں کی سرپرستی میں وادیٔ کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی واقعتا حیرتناک اور عبرتناک ثابت ہوئی۔ بعد ازاں شوپیاں میں خواتین کی بے حُرمتی اور پھر برہان وانی کی شہادت کے بعد پوری وادی میں زبردست احتجاج اور مظاہرین پر تشدد نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی نئی نسل کوئی سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں ہرگز نظر نہیں آتی ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی کشمیر میں سرمایہ کاری کے دعوے کر رہا ہے۔ بھارتی حکمران سوال کرتے ہیں کہ اگر کشمیر میں پاکستان کے لوگ آکر اپنا خون بہا گئے تو بھارتی فوج نے بھی کشمیر میں اپنا لہو بہایا ہے تاہم اُن پر یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ کشمیری جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن یا انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اس عارضی خونی لیکر کو کشمیری عبور کرنے میں آزاد ہیں۔ بھارتی فوج کے خلاف معرکوں میں شہادت پانے والے پاکستان میں موجود اُن لاکھوں کشمیری مہاجرین سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں صرف 1947ء سے1990ء تک بھارتی جارحیت اور مظالم کے باعث اپنے وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہی لوگ اگر اپنے مادرِ وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں، قربانیاں دیں ،تو کوئی بھی بین الاقوامی قانون انہیں اپنے گھر سے بیرونی قبضے کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی اقدام کرنے سے روک نہیں سکتا۔بندوق کشمیریوں کا آخری آپشن تھا۔اقوام متحدہ کا چارٹر اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر آزاد کشمیر سے کوئی کشمیری جنگی بندی لائن کو عبور کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو وہ نہ تو بیرونی دہشت گرد ہے اور نہ ہی درانداز۔ ہر کشمیری کو اس عارضی لکیر جسے خونی لکیر کہا جاتا ہے کو روندنے کا حق حاصل ہے کیونکہ کشمیری کسی جنگ بندی لائن کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔

لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے دوران بھی بھارتی فوج کشمیر میں پتھر اور لاٹھیاں بردار کم سن نوجوانوں کو کچلنے کے لئے جدید ترین مہلک اسلحہ کا استعمال کرتی رہی ہے۔ کریک ڈاؤن اور محاصروں کو ناکام بنانے کے لئے جائے واردات پر آنے والوں کو نشانہ باندھ کر شہید کیا گیا یا انھیں باردوی دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔ گھروں کو بھی کیمکل چھڑک کر نذر آتش کیا جا رہا ہے یا انھیں باردود سے اڑایا جاتا ہے۔ بھارت کا واویلا گمراہ کن اور قابل مذمت ہے کہ کشمیر میں جاری مظاہروں کو بیرونی امداد حاصل ہے۔ بھارت کی لاکھ کوشش ہے کہ وہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کی موجودہ لہر کو کچلنے کے لئے کثیرالجہتی پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے۔ فلسطین طرز کی انتفادہ تحریک کو بندوق کی نوک پر دبانے کے لئے اس نے اسرائیل اور امریکا کی مدد بھی حاصل کرتے ہوئے ہی لاک ڈاؤن اور پابندیاں عائد کیں۔ لیکن وہ تمام مذموم اور ظالمانہ حربے آزمانے کے باوجود ناکام و نامراد ہوا۔ بھارتی حکمران بچوں اور عزت مآب خواتین کے عزم جو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے بھی زیادہ گہرا ہے کو دیکھ کر چیخ اُٹھے ہیں۔ بوکھلاہٹ میں وہ اپنے آخری تیر آزما رہے ہیں لیکن عظیم کشمیری قوم اپنے جگر آزما رہی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ کشمیری اپنی جنگ کس طرح لڑ رہے ہیں۔ موجودہ انقلاب میں بندوق کا کوئی کردار نہیں۔جہاد کونسل کا درست فیصلہ تھا عوامی انتفادہ کے دوران بھارت کے خلاف حملے شہروں اور دیہات سے باہر جنگلوں میں کئے جائیں تاکہ کسی کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ ملے کہ موجودہ انقلاب عوامی نہیں بندوق کا ہے۔ ارون دھتی رائے کے بقول یہ وقت ایسا ہے کہ کشمیر کو بھارت سے آزاد ہونے سے بھی زیادہ بھارت کو کشمیر سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے۔

بھارتی جبری قبضے سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مہاراجہ کو خط کے تناظر میں ہی جواہر لعل نہرو نے28؍اکتوبر1948ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ کو دہرایا گیا اور اس پالیسی پر عمل کرنے کا یقین دلایا تھا۔

اس پالیسی نے بھی دستاویز الحاق کی نفی کردی کہ اگر عوام نے الحاقِ پاکستان کا فیصلہ کیا یا خودمختاری جاری رکھنے کے حق میں رائے دی تو پھر دستاویز الحاق کی اہمیت بھی ردّی کے کاغذ جیسی ہی ہوگی۔ یہ پالیسی جس طرح 28؍اکتوبر1947ء کو قابل قبول تھی آج2019ء کو بھی اس پر عمل درآمد ہو تو کشمیریوں کو قبول ہوگی۔یہ رائے شماری کانگریس کی حکومت کے انتظام میں صوبہ سرحد میں کی گئی جبکہ غیر مسلم اکثریتی صوبے آسام کے مسلم اکثریتی ضلع سلہٹ میں بھی رائے شماری کرالی گئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب کشمیر کے بالکل برعکس جونا گڑھ کی ہندو اکثریت کے مسلمان حکمران نواب نے 15؍اگست1947ء کو الحاق پاکستان کیا تو بھارت نے اس کی مخالفت کی۔ تو جواہر لعل نہرو نے 30؍ستمبر1947ء کو کہا کہ ’’ہم اس مسئلے کا حل عوام کے ریفرنڈم یا رائے شماری سے چاہتے ہیں، ہم اس ریفرنڈم کے نتائج کو قبول کرلیں گے۔ پاکستان جونا گڑھ مسئلہ غیر جانبدارانہ ریفرنڈم سے حل کرے۔‘‘ اسی طرح جونا گڑھ میں فروری1948ء کو ریفرنڈم ہوا۔ ووٹ بھارت کے الحاق کو ملا۔ کشمیر میں بھارتی پالیسی کے تحت ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔ دستاویز الحاق کا سہارا لینے سے قبل نہرو نے25؍اکتوبر1947ء کو وزیر اعظم برطانیہ کو لکھا کہ کشمیر کے الحاق کا مسئلہ عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہئے۔8؍نومبر1947ء کو بھارت کی جانب سے وی پی مینن اور پاکستان کے چوہدری محمد علی نے ریفرنڈم کی تفصیلی سکیم پیش کی جس کی بھارتی نائب وزیر اعظم ولبھ بھائی پٹیل نے سرپرستی کی تھی۔ اس میں یہ اصول سامنے لایا گیا کہ حکومت پاکستان اور بھارت کسی بھی ریاست کا الحاق تسلیم نہیں کریں گے جس کے عوام اور حکمران کے مذاہب مختلف ہوں۔ اس اصول کے تحت مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کے ہندو ڈوگرہ حکمران کے کسی نام نہاد الحاق کو بھارت کی جانب سے تسلیم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی تھا بلکہ اسی اصول کے تحت الحاق کا فیصلہ بھی رائے شماری سے ہونا تھا۔ بھارت اپنے اُن وعدوں سے بالکل مُکر گیا اور پاکستان نے غفلت اور سُستی کا مظاہرہ کیا۔ بھارت کشمیریوں کے مابین اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔مگر عمران خان جب سے کشمیریوں کے سفیر بنے ہیں، کشمیریوں میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی ہے۔

بھارت کی طرف سے جاری قتل عام ، طویل ترین کریک ڈاؤن اور لاک ڈاؤن نے بھارت کو بے نقاب کر دیا ہے۔آزاد کشمیر پر بھارتی گولہ باری کو بھی پاکستان نے درست انداز میں اسلام آباد میں موجود عالمی سفارتکاروں کو سیز فائر لائن اور گولہ باری کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر اکے بے نقاب کیا۔ عالمی میڈیا حقائق بیان کر رہا ہے۔27؍اکتوبر1947ء کو کشمیر پر بھارتی قبضے سے متعلق غیر جانبدار قلمکاروں نے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ سٹینلے وائپر اور السٹر لیمب نے تو اس پر کھل کر بات کی ہے جبکہ سابق امریکی عہدیدار رابن رائفل نے28؍اکتوبر1993ء کو واضح کر دیا کہ امریکا مہاراجہ کی دستاویز الحاق کو تسلیم نہیں کرتا اور تمام کشمیر متنازعہ ہے۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام نے کرنا ہے۔ الحاق کی دستاویز پاکستان یا اقوام متحدہ میں پیش نہیں کی گئی۔بعد ازا ں بھارت نے کہا کہ وہ گم ہوگئی ہے۔ جنیوا کی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے ایک قرار داد کے ذریعے کہا کہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز بوگس اور جعلی ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ بھارت نے کشمیر پر قبضے کا منصوبہ ستمبر1947ء کو ہی بنا لیا تھا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مکتوبات سے بھی یہ بات ظاہر ہوگئی ہے۔ دوسری طرف جب گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح نے27؍اکتوبر1947ء کو پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو انگریز کمانڈ انچیف لیفٹننٹ جنرل سر ڈگلس گریسی نے اُس حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔گریسی نے سپریم کمانڈر فیلڈ فارشل ایکون لیک سے ہدایات کیلئے رجوع کیا، ایکون لیک28؍اکتوبر1947ء کو دہلی سے لاہور پہنچ گئے۔ جس کے بعد محمد علی جناح نے ماؤنٹ بیٹن اورنہرو کو اگلے روز لاہور بلا لیا۔ اس طرح بھارت نے کشمیر پر جعلی دستاویز کا بہانہ بناکر فوجی قبضہ کرلیا۔2بٹالین فوج ڈیکوٹا جہازوں میں سرینگر پہنچ گئی۔ بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی قبضے کو مضبوط کرتا گیا۔ پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کی کوششیں کیں لیکن بھارت کے دباؤ پر عالمی برادری نے مداخلت کی اور پاکستان کو ایسے موقع پر سیز فائر کرانے پر مجبور کیا جب پاک فوج جنگ جیت رہی تھی۔ پاکستانی فوج کو محاذ پر واپس بلایا تو وہ رو پڑے کہ اُن کی فتح کو شکست میں بدل دیا گیا۔ آج بھی کشمیری عوام کرفیو اور پابندیوں کے باوجود تاریخ کا منفرد انتفادہ لڑ رہے ہیں، کشمیر ایک انقلاب ہے لیکن اس موقع پر بھی بھارت کے وفود دنیا بھر میں سرگرم ہیں۔

پاکستان سلامتی کونسل کا مشاورتی اجلاس منعقد کرانے میں کامیاب ہوا۔ اقوام متحدہ ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز، اداروں، تھینک ٹیکنس پر کشمیر کا مسئلہ مزید مؤثر انداز میں جارحانہ طور پر اٹھانے میں زرا سی چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شاید تاریخ پھر کبھی ایسا موقع نہ دے۔بھارت اپنے عوام میں جنگی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ مگر بھارتی ریاست مہاراشٹر اور ہریانہ سمیت دیگر 18ریاستوں میں مودی کی جنگی پالیسی کو عوام نے رد کیا ہے۔ کیوں کہ آزاد کشمیر پر گولہ باری اور شہریوں کو نشانہ بنانے پر بھارت میں جب پروپگنڈہ شروع ہوا اور بھارتی فوجی چیف نے مجاہدین کے ٹریننگ کیمپوں کی تباہی کا دعویٰ کیا۔تو بی جے پی کو انتخابی فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔دوسری طرف عمران خان کی حکومت کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنے اور کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے لئے جارحانہ مہم جاری رکھے گی اور بھارت کو کوئی یک طرفہ نرمی نہیں دے گی۔دو طرفہ مزاکرات سے کنارہ کش ہو گی تا کہ دنیا سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرانے کے واحد آپشن پر توجہ دے۔تا کہ بھارت کو مسلہ کشمیر دو طرفہ مسلہ قرار دینے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔پاکستان نے غیر ملکی کے سفارتکاروں کے ایک گروپ کو جس طرح سیز فائر لائن کے جورا اور دیگر علاقوں کا دورہ کرایا اسی طرح سفارتکاروں کے دوسرے گروپ کو سیز فائر لائن کے لالہ نیلم وادی کا بھی دورہ کرایا جائے تا کہ وہ بھی بھارتی جارحیت اور شہریوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی کا آنکھوں دیکھا حال دنیا کو بھی سنا سکیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485641 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More