زخم یا ناسور؟

امریکااوراس کے حواری پچھلے چندبرسوں سے بھارت کی برسوں سے دبی خواہش کی چنگاری کوبھڑکاکراسے خطے میں چھوٹا امریکابنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن امریکاسے پاکستان کے تعلق کی نوعیت کچھ بھی پاکستان اوربھارت کاتنازعہ صدیوں کاپس منظررکھتاہے۔برصغیرمیں رہنے والی دوبڑی قوموں میں آویزش کشمکش کاعہد بہ عہدسفرتھاجوار تقائی منازل طے کرکے پاکستان کے مطالبے پرمنتج ہواتھا۔اگراس تقسیم کواچھے انداز سے مکمل کردیاجاتاتوشایددونوں ملک آج نفرت مخاصمت اورعداوت کے اس مقام پرکھڑ ے نہ ہوتے جہاں مودی نےلاکھڑاکیاہے۔تقسیم کے وقت انگریزنے مسئلہ کشمیرکی صورت میں خطےکوایک ایسازخم تحفے میں دیاجسے وقت کامرہم دوستی کے وعدے مشترکہ مفادات کے مقاصد بقائے باہمی کے معاہدے بھی مندمل نہ کرسکےاوریہ زخم رس رس کر ناسوربن گیا۔اب حالات یہ ہیں کہ یہ مسئلہ کسی ملک کیلئےبقا کا مسئلہ ہے توکسی ملک کیلئےاناکا مسئلہ بلکہ یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ ممکنہ عالمی ایٹمی جنگ کاسبب بھی بن سکتاہے۔ جب تنازعات کے ساتھ اس نوع کے حقیقی خطرات وابستہ ہو جائیں توان سے آنکھیں چراناآئندہ نسلوں کی مکمل تباہی پرمنتج ہو سکتاہے،ایسے میں کشمیرکے بارے میں حقائق کوچھانٹناآسان نہیں۔

بھارت کومشرف جیسا پاکستانی حکمران شایدہی اب میسرآئے جس بھارت کوپے درپے رعایتیں دینے کی راہ اختیارکی۔یہ وہ وقت تھاجب مشرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے مسلمہ اوراعلانیہ نما ئندے تھے۔انہیں امریکاکی مکمل سرپرستی بھی حاصل تھی،اندرون ملک سیاسی قوتیں ان کیلئےکوئی بڑاطوفان کھڑاکرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھیں لیکن اس وقت بھارت نے جی بھرکرمشرف کی تجاویز،اشاروں،کنایوں کامذاق اڑایا۔بھارتی سیاستدانوں اوردانشوروں نےایک لمحےکومشرف کی باتوں کوسنجیدگی سے نہیں لیا،جب بھی کسی محفل میں بھارتی اخبارنویسوں کی توجہ مشرف کی لچک سے فائدہ اٹھانے کی جانب مبذول کرائی گئی توان کاغیرسنجیدہ روّیہ آڑے آیا۔ہے۔وہ اسے مشرف کی”گپ شپ”گردانتے ہوئےتعریفوں کے پل باندھتے ہوئےلطائف قراردے کرنظراندازکرکےموسم اورتجارتی امکانات کی جانب بحث کارخ موڑدیتے۔یہ بھی کہاگیاکہ”جنرلوں کو سیاست کاکیاپتاہوتاہےلیکن مشرف بندہ بہت اچھاہے”۔بھارت میں کہیں بھی کسی بھی سطح پریہ سوچ سامنے نہیں آئی کہ پاکستان میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کی حیثیت سے مشرف کی لچک سے فائدہ اٹھایاجائے۔کلدیپ نیر،ارون دتی رائے ،منی شنکرآئرجیسے نسبتاًمعتدل اوراسلا م آباد میں دوستانہ روابط کے حامل دانشوروں نےاپنی حکمران اشرافیہ کوکبھی مشرف کی لچک کوسنجیدگی سے لینے کامشورہ نہیں دیا۔ایک سخت گیر دانشور نے توایک باراپنے ممد وح کی تجاویز کامذاق یوں اڑایا کہ”پاکستان ہمیں لبرل مشرف کے بعدکسی داڑھی والے مشرف کی آمدسے نہ ڈرائے یہ نسخہ امریکا کیلئےتو کارگر ہوسکتاہے بھارت کیلئےنہیں کیونکہ بھارت پاکستان کی ان چالوں کوخوب سمجھتاہے۔”

مشرف کی اس لچک سے کیاہوایہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اب تک اس الزام کوکسی نےدورکرنے کی کوشش نہیں کی کہ دونوں ملکوں کی حکمران اشرافیہ مسئلہ کشمیر کاحل نہیں چاہتی۔پاکستان کی حقیقی حکمران اشرافیہ کے نمائندے کے طور پرمشرف نے بھارت کی شرائط اومؤقف سے قریب ترجاکرمعاملہ طے کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت کےغرور،حدسے زیادہ خود اعتمادی اورپاکستان کوپانی کابلبلہ سمجھنے کی روایتی پالیسی نے بات بننے ہی نہیں دی۔نائن الیون کے بعد حالات کے بھنور میں گھرے ہوئے پاکستان سے بھارت نے کوئی سنجید ہ بات چیت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ بھار ت اس زعم میں مبتلا ہوگیاتھاکہ امریکانے اسے خطے میں چھوٹا امریکا بننے کالائسنس عطاکردیاہے۔نائن الیون سے پہلے کا عسکریت پسندوں کےگرم تعاقب کاامریکی خواب چکناچوراورنشہ توہرن ہوگیالیکن بھارت کواس میدان میں اتارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کشمیرمیں حریت پسندوں کی کاروائیوں سے عاجزبھارت نے آخری چارہ کار کے طورگرم تعاقب کاآپشن پیش نظررکھا۔ بھارت کاسخت گیرطبقہ “علاج ِدنداں اخراج دنداں”کے نظریے کے تحت آزادکشمیرکی حدودمیں داخل ہوکرحریت پسندوں کے ٹھکانوں کوتباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہالیکن پاکستان کی طرف سے کسی خفی اشارے کے باعث بھارت اپنے اس خواب کوشرمندہ تعبیرنہ کرسکا۔ماضی میں کارگل کی جنگ اوربھارتی پارلیمنٹ پرحملے کے وقت یہ خواہشیں جوان ہوتی دکھائی دی تھیں لیکن ان خواہشات کی تکمیل نہ ہوسکی،پھرممبئی پرہونے والے حملے کے بعدبھارت نے اپناکیس بعینہ اسی طرح تیار کیاجس طرح امریکانے نائن الیون کے حملوں کے بعدکیاتھا۔وہی غصہ وہی تکبر،وہی تمکنت وہی عجلت اور ماحول کو سازگار بنانے کیلئےوہی ڈرامے بازی،بے ربط اورمبہم مطالبات پیش کاوہی سخت انداز …… غرضیکہ بھارت اس موقع کو پاکستان کو چھوٹا اورخود کو بڑا یاکم ازکم چھوٹاامریکاثابت کرنے کیلئےاستعمال کرنے کی کوشش کررہاہے۔

امریکاتوبہرحال امریکاتھااس کے ساتھ ہمارے تلخ رشتوں کی جڑیں تاریخ میں اس قدرگہری نہیں کچھ اس کاحجم اوروسائل بڑے ہیں اورکچھ ہمارے رزق کے مسائل ہیں جنہوں نے امریکاکوپاکستان کیلئےامریکابنارکھاہے بلکہ ہمارے بچپن کا وہ روگ ہے جوآسانی سے نہیں چھوٹ رہالیکن بھارت کس خوش فہمی میں مبتلا ہوکرخودکوگرم تعاقب کیلئےتیارکررہاہے؟ کیافروری میں عالمی جگ ہنسائی کے بعداس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے؟تین بار جنگیں چھیڑنے اورانہیں طوالت دینے والا بھارت جس “منتر”کے باعث چوتھی بارخواہش،ماحول اورموادکے باوجوداگرپاکستان پرجنگ مسلط نہیں کرسکاوہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ہے۔بھارت ہی نہیں ہرطاقت کامسلمہ اصول یہی ہے کہ اسے طاقت ہی کی زبان سمجھ میں آتی ہے۔یادرکھیں اگر پاکستان کے حکمرانوں نے کسی مصلحت،خوف اورکسی خوف میں آکربھارت کی کسی غیرذمہ دارانہ حرکت کے جواب میں وہی حکمت عملی اختیار کی جوامریکاکے بارے میں اختیارکی جارہی ہے تویہ ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کانقطہ آغازہو گا۔آج ایک امریکاہے پھرپاکستان کیلئےدوامریکا پیدا ہوجائیں گے ایک امریکاکے زیرسایہ ادھرہندوامریکا،اِدھرمسلمان امریکا جس کے بعدیہ سلسلہ چھوٹے چھوٹے کئی امریکاپیداکرے گااور پاکستان سب کیلئےغریب کی جوروبن کررہ جائے گا ۔ مقبوضہ کشمیرپردھاوابول کربھارت اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کے قریب ترہے۔اب یہ پاکستان کے حکمرانوں کارویہ ہو گا جوبھارت کے پرانے خواب اورنئے رول کاتعین کرے گا۔
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا میرے رب کا!
فرعون مرے تخت پہ اتریں گے،کہاں تک
کب تک میں یونہی بیعتِ شدّاد کروں گا
اب تو دلِ وحشی درِ اخلاق میں ہے بند
اس وقت سے ڈرجب اسے آزاد کروں گا
صد دام صفت میر اتو اپنا ہے نشیمن
میں کیسے بھلا شکوۂ صیاد کروں گا
یہ عرض و گزارش تو غلامانہ ادا ہے
میں ہونٹ ہلاؤں گا تو ارشاد کروں گا
تو کیسے بچے گا مجھے رسوائیاں دے کر
تجھ کو بھی تو میں شامل روداد کروں گا

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315134 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.