کہتے ہیں تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی نے تاریخ
سے سبق نہیں سیکھا، پاکستان میں دو پارٹی سسٹم نے اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر
لی تھیں کہ بیورو کریسی کو بھی ایک عادت پڑ چکی تھی ، وہ ایک کے بعد دوسرے
کے انتظار میں صرف ذاتی مفادات کے خول میں بند ہوکر غیر معمولی کیا ؟ معمول
کے کام کرنے سے بھی پہلو تہی کرتے رہتے تھے، ایک سال ہی میں بیورو کریسی تو
باقاعدہ تجزیہ کرنے بیٹھ جاتی تھی کہ اب حکومت میں کون اائے گا تاکہ’’
ایڈوانس بکنگ‘‘ یعنی خوشامد کے باقاعدہ دفتر سجا کر پیش کر دیئے جائیں اور
آنے والوں کو اپنے من پسند عہدوں و محکموں اور اپنی مکمل وفاداری کا یقین
دلایا جائے ، جب عمران خان نے اس اسٹیٹس کو کو توڑنے اور غیر معمولی انداز
میں کام کرنے ، اعلیٰ اخلاقی معیار کا دعویٰ شروع کیا تو سب سے پہلے بیورو
کریسی کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئیں بیوروکریسی نے باقاعدہ صف بندی شروع
کر دی کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا ملک کوڑا کرکٹ سے لیکر ایک باوقار قوم
میں کبھی تبدیل نہ ہو اور ہماری حکمرانی اور بادشاہت کا سکہ چلتا رہے ،
اسلئے اکثر سیاستدان تو یہ تک بھی کہتے تھے کہ عمران خان وزیر اعظم بن گیا
تو میں خود کشی کر لوں گا ، اسی طرح میڈیا کے محاذ پر بھی ایک طبقے نے
تبدیلی کا مذاق اڑایا، لیکن جب عمران خان جیت گیا اور حکومت بنا لی تو
میڈیا سمیت ، بیوروکریسی نے وہی حربے جو عمران خان اخلاقی معیار کے حصار
میں استعمال کرتے تھے ، انہوں نے چالاکی سے اپنے تحفظ کیلئے استعمال کرنا
شروع کردیئے انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ عمران خان فلاسفر نہیں مبلغ
بھی نہیں اور نہ ہی روایتی سیاستدان ہے بلکہ وہ شعور کا دیا، کر دکھانے
والا اور روایت شکن ہے ، وہ صاف نیت کے ساتھ چاہتا ہے کہ میری قوم باوقار
طریقے سے کھڑی ہو جائے ، عمران خان کو نسلی تحفظ، مالی فائدے اور بادشاہت
قائم کرنے کا کوئی زعم نہیں ہے ، مگر کیا کیجئے! ہماری روائتی گھاک
سیاسدتانوں اور بے لگام دانشوروں کا ، کہ انہوں نے پہلے گیئر پر ہی گاڑی کے
آگے رکاوٹوں کے پہاڑ کر دیئے ابھی صرف معیشت کی زبوں حالی کا تذکرہ چل رہا
تھا کہ عمران خان نے ایک ہی اوور میں پانسہ پلٹ دیا باقی اہم بڑے اصلاحی
ایجنڈے کی تقویت اور آگے بڑھانے کیلئے اسے بیوروکریسی کی مدد کی ضرورت تھی
جس میں عمران خان کو بری طرح زدوکوب ہونا پڑ رہا ہے۔ میری اکثر دوستوں سے
انتخابات سے پہلے بات ہوتی تھی اور میرا موقف یہی تھا کہ بیورو کریسی عمران
خان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی کیونکہ اکہتر سال سے ان کی تربیت
اور انداز ، خوشامد اور باس بن کر رہنے میں ہی ہوئی ہے البتہ ساٹھ کی دہائی
میں اسی بیوروکریسی نے بے مثال انداز میں خدمت کی مگر بعد میں آنے والے
سیاسدتانوں نے بیوروکریسی کو ایک مرتبہ پھر غلامی کے دور میں لا کر چھوڑا
ہے اسے اپنا فرمانبدار بنا کر وہیں لا کھڑا کیا جہاں صرف فائلوں کے پیٹ
بھرے جاتے ہیں مگر غریب عوام خالی پیٹ سوتے ہیں حال ہی میں جنم لینے والے
واقعات وہ چاہے ڈی پی او گوندل کا واقعہ ہو یا آئی جی اسلام آباد کا اسی
انداز کی عکاسی کرتا ہے حالانکہ اس موقع پر دونوں طرف صبر و تحمل کی ضرورت
تھی عمران خان کی ٹیم نے بھی آہستہ آہستہ اصلاح کی طرف جانا تھا اور اپنے
شاہی احکامات بتدریج ختم کرنے تھے مگر غلطیاں دونوں طرف نمایاں ہونے لگی
ہیں جس اختیار اور اقتدار کی رسہ کشی سے نکلنے کیلئے جدو جہد کی گئی تھی وہ
ماند پڑ رہی ہے اور بوجھ صرف عمران خان کے کندھوں پر ہے غلامی سے آزادی اور
سیاست سے پاک ادارے ایک طویل سوچ، فکر اور عمل کا تقاضا کرتی ہے اس کو
سمجھے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا ہے لوگوں کو امید ہے کہ عمران خان جس طرح
اور کئی مسائل سے نکل آئے ہیں ان سے بھی نکل جائیں گے اور جو بات کہی جاتی
تھی کہ اب تمام ادارے ایک صفحے پر نہیں بلکہ کتاب ہی ایک ہے اس کے عملی
مظاہر نظر آئیں گے ، آئندہ جس ایک سال میں پاکستان کا ایک شاندار نقشہ
اُبھرتا دکھائی دے رہا ہے قانون کی بالا دستی اگر بنی گالا سے شروع ہو جائے
تو100روزہ پلان کو زیادہ تقویت ملے گی عمران خان کی ٹیم کو قربانیاں دینا
ہوں گی اور بیورو کریسی کو ایک بڑا لیڈر ضائع ہونے سے بچانا ہوگا ان دونوں
طاقتوں کا توازن قائم کرنے کیلئے حکمت، قربانی اور عمل سے کام لینا ہوگا
ورنہ یہ اُلجھی ہوئی لٹ کبھی سلجھ نہیں پائے گی اور ملک ایک مرتبہ پھر
مایوسی کی انتہا کو چھو جائے گا جس کے نتائج کسی اور طاقت کیلئے جگہ پیدا
کردے گی دانشوروں کو عمران خان کی شخصیت ، حکمت عملی کو سمجھنا ہوگا وہ جب
بات کرتا ہے تو اس کے پیچھے صاف نیت نمایاں نظر آ تی ہے اُسی کو بنیاد بنا
کر عمل کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا اُلجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوشش کریں ۔
|