آزادی مارچ دھرنوں سے ترقی ممکن ؟

قرآن پاک میں ارشاد ہے جس کے مفہوم کے مطابق جیسے اعمال ویسے حالات ،ہمارے اعمالوں کے بقدر ہی ہم پر حکمران اور حالات مسلط کیے جاتے ہیں ۔حضورؐ جب عرش پر تشریف لے گئے تو انہوں نے وہاں دیکھا کہ کچھ چیزیں زمین سے آسمان کی طرف آرہی ہیں اور کچھ آسمان سے زمین کی طرف تو انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ زمین سے آنے والے مسلمانوں کے اعمال ہیں اور آسمان سے زمین پر جانے والے اعمالوں کے بقدر فیصلے ہیں، اگرہمارا یقین اس پر آجائے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے تو پھر شاید ہمیں کسی دھرنے ،ہڑتال ،اجتماع کی ضرورت ہی نہ رہے کیونکہ حکمرانوں اور جماعتوں کی تبدیلی سے ہمارے ملک کے حالات نہ پہلے درست ہوئے ہیں اور نہ ہی اب کوئی چانس ہے ۔ماضی کی مثالیں ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر آنے والا دور پہلے سے برا ثابت ہوا ہے اور ہر آنے والا حکمران بھی اپنے پچھلے کو کوستا رہتا ہے لیکن جب تک ہم اﷲ کے احکامات کو نبی کریم ؐکے طریقوں کے مطابق پورا نہیں کرتے نہ تو ملک سے مہنگائی ختم ہوگی نہ ہی بے روزگاری اور نہ امن بحال ہوگا اور نہ ہی انصاف وعدل ہوگا۔یہود ونصاریٰ کے طریقوں پر چل کر ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔ہاں البتہ انہوں نے ہمارے اسلاف کے طریقوں کو اپنا کر ترقی ضرور کرلی ہے۔ہماری مثال آدھا تیتر ،آدھا بٹیر والی ہے ۔ہم نے اسلام اور کلمہ کے نام پر ملک حاصل تو کرلیا لیکن ہمارے حکمرانوں اور عوام دونوں نے کبھی بھی اسلام کو نافذ کرنے کی مخلصانہ کوشش نہیں کی اور تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی اپنے مقصد سے ہٹا وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا ۔ہم نے سودی نظام میں اپنے آپ کو جکڑ کر اﷲ تعالی سے جنگ مول لی ہے ۔اب اﷲ سے کون جنگ کرسکتا ہے ۔سود در سود آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک ،ایشیئن بینک اور دیگر ممالک سے قرضوں کی لعنت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ،آج قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے ہم مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں لیکن نہ تو سود سے چھٹکارا حاصل کرنے کو تیار ہیں نہ ہی کفایت شعاری ،سادگی اور عدل وانصاف ،میرٹ فراہم کرنے کو ،ہمارے اسلام نے امیر غریب کا فرق رکھے بغیر ہر وقت بڑے سے بڑے آدمی کا احتساب آزاد اور غیر جانبدار نظام کے ذریعے جاری رکھا لیکن آج غریب انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے جبکہ بااثر افراد جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود چھوٹ جاتے ہیں ، سانحہ ساہیوال اس کی زندہ مثال ہے سرعام موٹر وے پر بچوں کے سامنے ان کے والدین کی بیدردی سے قتل کردیاجاتا ہے پھر انہیں دہشت گرد بھی قرار دیا جاتاہے لیکن عدالتوں سے انہیں باعزت بری کردیاجاتا ہے ہماری عدالتوں میں بیوہ ،یتیم ،مسکین سمیت کتنے لوگ ایسے ہیں جو انصاف کے لئے برسوں دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن انصاف ناپید ہے۔نااہلوں کو بڑے بڑے منصب پہ ،عہدوں پہ سفارش ،رشوت کی بنیاد پر لگا کر ترقی دے کر ہم نے اپنے اداروں کا بیٹرا غرق کرلیا ،رشوت اقرابا پروری ،سفارش کا ناسور ہمیں دیمک کی طرح چاٹ گیاہے لیکن ہماری توجہ اس خرابی کی طرف نہیں جاتی ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر حکومت نے عوام کے لئے ڈلیور نہیں کیا لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جس طرح کی خراب کارکردگی دکھائی ہے اس نے بائیس کروڑ عوام کو بہت مایوس کیا ۔اب ہمارے سیاسی کلچر میں جماعتوں کے پاس حکومت کی اپوزیشن کرنے کے علاوہ اور تو کوئی چارہ ہے نہیں سو وہ انہوں نے آزادی مارچ کے ذریعے شروع کررکھا ہے ،دیکھیں اس کا کیا رزلٹ نکلتا ہے لیکن جمعیت علماء اسلام (ف) چونکہ ایک مذہبی جماعت ہے اور ان کا حلقہ ووٹرز بھی مذہبی طبقہ جن میں مدارس وغیرہ کے لوگ زیادہ ہیں کو کم از کم امت کے اعمال درست کرنے کی طرف توجہ ضروردینی چاہئے اور اعمال کی بہتری کی ابتداء اپنے آپ سے کرنی چاہئے ۔اب آزادی مارچ کا تھوڑا ذکر ہوجائے ،اسلام آباد سے ایک رشتہ نے ہمیں بتایا کہ مولانا آزادی مارچ اور حکومت کی جانب سے کنٹینر لگائے جانے کے باعث عوام الناس کو پریشانی کا سامنا ہے لیکن انہوں نے خاص کر پٹھانوں کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آزادی مارچ ،دھرنا میں انتہائی ڈسپلن کا مظاہرہ کیا ہے کسی سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا گیا کسی گاڑی کی توڑ پھوڑ نہیں کی ،دھرنے کے شرکاء نے گانے بجانوں ،رقص وسرور کی بجائے جو کہ پی ٹی آئی کے دھرنے میں بے حیائی دیکھنے کو ملی تھی وہ پانچ وقت نماز کا اہتمام جاری رکھا ہوا ہے ۔صبح سویرے گندگی وغیرہ کو سڑک سے صاف بھی کیا جاتاہے ۔یہ فرق ہے مدارس کے پڑھے ہوئے طلباء اور ہماری مادر پدر آزاد یونیورسٹیوں اور کالجز ،سکولوں میں پڑھے ہوئے طالب علموں کے درمیان ،ہمارا دین جس کی تعلیم وتربیت ہمارے سرکاری وپرائیویٹ اداروں سے تقریباًناپید ہوچلی ہے کے مقابلے میں ہمارے مدارس ،ہمارے دین کی بقاء واحیاء کے ضامن ہیں اور ہم چلے ہیں مدارس میں اصلاحات کرنے ،بھائی آپ کو اصلاحات کرنی ہے تو اپنے تعلیمی نظام کو اور اپنے سسٹم کو بے حیائی ،سود سے پاک کرکے کرو ،مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل سے ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے اور جو نظام اور ایجنڈا ہمارے اکثر سیاسی جماعتوں کا ہے اس میں کوئی بھی برسراقتدار آجائے ہمارے مسائل جوں کے توں رہیں گے ۔.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

Sohail Azmi
About the Author: Sohail Azmi Read More Articles by Sohail Azmi: 183 Articles with 158048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.