امریکااوراس کے حواری پچھلے چند برس سے بھارت کی کئی
دہائیوں سے دبی خواہش کی چنگاری کوبھڑکاکراسے خطے میں چھوٹا امریکا بنانے
کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت جو بھی ہے،
اس کے برعکس پاکستان اور بھارت کاتنازع صدیوں کاپس منظر رکھتا ہے۔
برصغیرمیں رہنے والی دوبڑی قوموں میں کشمکش پرانی ہے جو مختلف منازل طے
کرکے پاکستان کے مطالبے پر منتج ہوئی۔ اگراس تقسیم کواچھے اندازسے مکمل
کردیا جاتا توشایددونوں ملک آج عداوت کے اس مقام پرکھڑ ے نہ ہوتے جہاں
بھارت کے سابقہ حکمرانوں خصوصاً مسلمانوں سے نفرت کی پالیسی پر چلنے والے
ہندو انتہا پسندوں کی پشت پناہی کرنے والے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے
لا کھڑا کیا ہے۔ تقسیم کے وقت انگریزنے مسئلہ کشمیرکی صورت میں خطے کوایک
ایسازخم دیاجسے وقت کامرہم، دوستی کے وعدے، مشترکہ مفادات یا بقائے باہمی
کے معاہدے بھی مندمل نہ کرسکے اور یہ زخم اب ایک ناسور بن چکا ہے۔ حالات اب
اس نہج پر پہنچ چکے ہیں یہ معاملہ نہ صرف ملکوں کی بقا اور انا کا مسئلہ بن
چکا ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ خدانخواستہ کسی ممکنہ عالمی ایٹمی
جنگ کاسبب بھی بن سکتاہے۔ جب تنازعات کے ساتھ اس نوع کے حقیقی خطرات وابستہ
ہوجائیں توان سے آنکھیں چرانا آیندہ نسلوں کی مکمل تباہی پرمنتج ہوسکتاہے۔
ایسے میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق حقائق اور قابض فوج کے ہاتھوں ریاستی دہشت
گردی کسی بھی حیثیت یا انداز سے خود بھارت کے لیے مثبت نتائج کی حامل نہیں
ہو سکتی۔
دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مشرف دور میں پیدا ہونے والی لچک سے بھارت
نے خوب فائدہ اٹھایا، یہ ایک الگ کہانی ہے تاہم بھارت کے اندر سے بھی اب تک
کسی نے اس الزام کو دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہاں کے حکمراں مسئلہ
کشمیر کا حل چاہتے ہی نہیں اور اس کے لیے عالمی طاقتیں خصوصاً امریکا کھل
کر اس کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ اصول پسندی اور معاملہ فہمی پر عمل کرتے
ہوئے کئی مرتبہ پاکستان کی جانب سے بھارتی شرائط اور موقف سے قریب تر جاکر
معاملہ طے کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن بھارت کے غرور و تکبر، ہٹ دھرمی،
جنگی جنون اور پاکستان کوپانی کابلبلہ سمجھنے کی روایتی پالیسی نے بات بننے
ہی نہیں دی۔ نائن الیون کے بعد حالات کے بھنورمیں گھرے ہوئے پاکستان سے
بھارت نے کبھی کوئی سنجید ہ بات چیت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ بھار ت
اس زعم میں مبتلاہوگیاتھاکہ امریکانے اسے خطے میں چھوٹاامریکابننے کالائسنس
عطاکردیا ہے۔
کشمیرمیں حریت پسندوں کی کارروائیوں سے عاجز بھارت نے آخری چارہ کار کے طور
پر گرم تعاقب کاآپشن پیش نظررکھا۔ بھارت کاسخت گیر طبقہ ’علاج دنداں اخراج
دنداں‘ کے نظریے کے تحت کئی مرتبہ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوکرحریت
پسندوں کے ٹھکانوں کوتباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا لیکن پاکستان کی
طرف سے جوابی اشاروں اور بروقت تنبیہ کے باعث بھارت اپنے ان ناپاک ارادوں
کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکا۔ بھارتی پارلیمنٹ پرحملے کے وقت ایک بار پھر یہ
بھارتی خواہشیں جوان ہوتی دکھائی دی تھیں لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ
ہو سکے، پھرممبئی پرہونے والے حملے کے بعد بھارت نے اپناکیس بعینہ اسی طرح
تیار کیاجس طرح امریکانے نائن الیون کے حملوں کے بعد کیاتھا۔ وہی غصہ، وہی
تکبر،وہی تمکنت، وہی عجلت اور ماحول کوسازگاربنانے کے لیے وہی ڈرامے
بازی،بے ربط اورمبہم مطالبات پیش کرنے کا وہی سخت انداز۔ غرض یہ کہ بھارت
مستقل طور پر خود کو پاکستان پر حاوی اوراپنے آپ کوچھوٹاامریکاثابت کرنے
کی کوششوں میں مصروف ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ناکامی ہی اس کا
مقدر ٹھہرے گی۔
امریکا کے ساتھ ہمارے تلخ رشتوں کی جڑیں تاریخ میں اس قدرگہری نہیں، تاہم
کچھ اس کاحجم اوروسائل بڑے ہیں اورکچھ ہم نے اپنے رزق کیلئےخود ساختہ مسائل
بنارکھے ہیں،جنہوں نے امریکاکوپاکستان کیلئےامریکابنارکھاہے مگر بھارت کس
خوش فہمی میں مبتلا ہوکرخودکوگرم تعاقب کے لیے تیارکر رہا ہے؟ کیافروری میں
جگ ہنسائی کے بعد اس کے ہوش ٹھکانے نہیں آئے؟ 3 بارجنگیں چھیڑنے اورانہیں
طوالت دینے والا بھارت جس ’منتر‘ کے بل پر چوتھی بار خواہش، ماحول اور
اسرائیلی و امریکی مدد کے باوجود پاکستان پر جنگ مسلط نہیں کرسکا، اس کے
پیچھے پاکستانی پاکستان کا ایٹمی قوت اور عسکری میدان میں برتری کاحامل
ہونااہم ہیں۔بھارت ہی نہیں ہرطاقت کامسلمہ اصول یہی ہے کہ اسے طاقت ہی کی
زبان سمجھ میں آتی ہے۔
یادرکھیں! اگر ہمارے حکمرانوں نے کسی مصلحت یا خوف میں آکربھارت کی کسی
غیرذمے دارانہ حرکت کے جواب میں لچک اورنرمی کاراستہ اپنایا تو پھر ایک نہ
ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہو سکتا ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ بھاری حکومتیں
ہٹ دھرم اور بدعہدی کی زندہ مثالیں رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر دھاوا بول
کربھارت اپنی ناپاک دیرینہ خواہش کی تکمیل چاہتا ہے،اس حوالے سے ہماری
پالیسی واضح، موثر اور دو ٹوک ہونی چاہیے۔
|