حضرت ٹیپو سلطان شہید ؒ قابل حکمران ہونے کے علاوہ جنگ
آزادی کے وہ اولین سپاہی رہے جنہوںنے ملک کو انگریزوں کے ناپاک قدم سے دور
رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان گنوادی ، جتنی سیاست ٹیپوسلطان نے اپنی
حکومت کے دوران نہیں کی تھی اس سے کہیں زیادہ سیاست انکے اس دنیا سے چلے
جانے کے بعد انکے نام پر کی گئی ہے ۔ ٹیپو سلطان شہیدؒ کے نام پر سیاست
کرنے کا سلسلہ پچھلے 10-15 سالوں میں زیادہ ہوگیا جب کرناٹک میں بی جے پی
کے پاس کوئی مدعہ باقی نہیں رہا ۔ 1990 سے 1999 کے درمیان کرناٹک کی بی جے
پی کے پاس فرقہ پرستی کا کوئی مدعہ تھا تووہ ہبلی کے عید گاہ میدان کا تھا
اور جب اس مدعے کو حل کردیا گیا تو انکے پاس یہاں سیاست کرنے کا کوئی مدعہ
ہی باقی نہ رہا اور انہوںنے ٹیپو سلطان شہید ؒ کے مدعے کو سیاسی مدعہ بنا
کر پیش کرنا شروع کیا اور آج تک یہ مدعہ بحث و مباحثوں کا سبب بنا ہواہے ۔
حضرت ٹیپو سلطان کے نام پر سیاست کرنے والی صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ
کانگریس بھی برابر کے حصہ دار ہے ۔ جس وقت مرکز میں یو پی اے حکومت موجود
تھی اس وقت کے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے رحمان خان نے ریاست میں
حضرت ٹیپو سلطان یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو جذباتی
بنادیا تھا۔ ٹیپو سلطان کے نام سے یونیورسٹی بنانے کی بات تو دور اس
یونیورسٹی کو عمل میں لانے کے لئے کبھی مرکزی حکومت نے باضابطہ طور پر
اعلان تک نہیں کیا تھا ۔ رہی بات ٹیپو کے نام پر یونیورسٹی بنانے کی ، اس
طرح کی یونیورسٹی کی ریاست میں ضرورت بھی نہیں تھی ، جو سہولت اقلیتوں کے
لئے مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کی جانی تھی اس سہولت کو رحمان خان نے
فراہم کرنے سے ہاتھ اٹھا دئے تھے ، جسٹس سچر کمیٹی نے اپنی سفارشات کو نافذ
کروانے کے لئے یو پی اے حکومت کو دو بار مکتوب بھی لکھا تھا اور اس دوران
رحمان خان ہی اقلیتی امور کے وزیر تھے لیکن انہوںنے کبھی بھی جسٹس سچر
کمیٹی کی سفارشات کو صد فیصد نافذ کروانے کے لئے پیش رفت نہیں کی تھی ،
مسلمانوں کو ٹیپو یونیورسٹی کی ضرورت قطعی نہیں تھی بلکہ انہیں ملک بھر میں
تعلیمی و روزگار کے شعبے میں ریزرویشن کی ضرورت تھی جسے پورا کرنے میں وہ
ناکام رہے ۔ البتہ ٹیپو یونیورسٹی کو عمل میں لانے کا اعلان کرتے ہوئے وہ
کچھ دنوں تک اخباروں و میڈیا کی سرخیوں میں ضروررہے ۔ مسلمانوں نے کبھی بھی
ٹیپو کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہی نہ تھا البتہ کرناٹک کے
مسلمانوں کا ایک حصہ بنگلور میں بنے ہوئے ایر پورٹ کو ٹیپو سلطان کے نام سے
جوڑنے کامطالبہ کرتا رہا لیکن رحمان خان نے کبھی اس تجویز پر غور تو نہیں
کیا البتہ یونیورسٹی کے نام پر گمراہ ضرور کیاہے ۔ اسکے بعد ٹیپو سلطان سے
جوڑ کر اگر کسی نے ہمیں جذباتی کیا ہے تو وہ سابق وزیر اعلیٰ سدرامیا ہیں
جنہوںنے ٹیپو جینتی کو سرکاری سطح پر منعقد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے
مسلمانوں کو پس و پیش میں مبتلا کردیا ہے ۔ جس طرح سے حج سبسڈی کے نام پر
مسلمانوں کا استحصال ہوتا رہا ، مسلمان بدنام ہوتے رہے اسی طرح سے ٹیپو
جینتی کے نام پر مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑاہے ۔ پورے ملک میں حج کو جانے
والے مسلمانوں کی تعداد 0.01 فی صد ہوا کرتی ہے لیکن حج سبسڈی کے مزے لوٹنے
کا الزام 16 کروڑ مسلمانوں پر لگتا رہا ، اسی طرح سے سال 2013 سے 2018 تک
منعقد کی جانے والی ٹیپو جینتی میں کرناٹک کے 1 لاکھ کے قریب مسلمانوں نے
ہی حصہ لیا تھا لیکن بدنام سارے مسلمان ہوئے ، ویسے بھی ٹیپو جینتی کے نام
پر سوائے چند گھنٹوں کے اور کو ئی کام ہی نہ ہوا ،نہ کبھی کسی اسٹیج سے
ٹیپو کے نام پر حکومت نے کسی منصوبے کا اعلا ن کیا اور نہ کبھی ٹیپو کو
حقیقی خراج عقیدت پیش کی گئی ۔ چند مفاد پرست سیاستدان ٹیپو کےلباس کی طرح
اپنا دامن ڈھانپ لیا اور ٹیپو زندہ باد کے نعرے لگاکر اپنے سیاسی مفادات کی
تکمیل کرلی ۔ ٹیپو سلطان کو لے کر ریاست میں مثبت نظریات پیش کرتے ہوئے صرف
کانگریس نے ہی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ جے ڈی یس اور کچھ دنوں کے لئے عمل
میں آنے والی یڈویورپا کی قیادت والی کے جے پی کو بھی ٹیپو سلطان کے نام
سےفائدہ ہوا۔ 2007 کے دوران کمار سوامی نے اعلان کیا تھا کہ بنگلور میں زیر
تعمیر بین الاقوامی ایر پورٹ کو ٹیپو سلطان ایر پورٹ کے نام سے پکارا
جائیگا ، جب الیکشن ہوا تو نہ ٹیپو کا نام رہا نہ کمار سوامی کی زبان باقی
رہی ۔ 2013 کے الیکشن سے قبل عمل میں آنے والی کے جے پی کے سربراہ بی یس
یڈویورپا کو محسوس ہوا کہ انکی پارٹی کو اگر مسلمانوں کے ووٹ دلوانا ہے تو
اسکے لئے انہیںجذباتی کرنے کی ضرورت ہے ، اسی بات کو سوچتے ہوئے یڈویورپا
نے سال 2013 میں حضرت ٹیپو سلطان شہید کی درگاہ میں حاضری دیتے ہو ئے اس
بات کااعتراف کیا تھا کہ حضرت ٹیپو سلطان اس ملک کے عظیم حکمران ہیں
اورمیسور ریاست کی شان ہیں ، جیسے ہی یڈویورپا نے سال 2019 میں اقتدار حاصل
کیا انہیں ٹیپو سلطان سے جو محبت تھی وہ عداوت میں بدل گئی اور انکی عداوت
اس قدر مضبوط تھی کہ وہ ٹیپو کو ملک مخالفت حکمران کہنے سے بھی پیچھے نہیں
ہٹے ، اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد یڈویورپا نے پہلے ٹیپو جینتی کو منسوخ
کیا پھر اسکے بعد نصاب سے انہیں ہٹانے کا اعلان کیا ، بی جے پی کا دعویٰ ہے
کہ وہ ٹیپو سلطان کے نام و نشان کو ریاست سے ہٹادینگے ۔ سب سے بڑی بات یہ
ہے کہ ریاست میں پارٹی کوئی بھی ہو لیکن سیاست سب نے ٹیپو پر کی ہے ۔ قوم
کوئی بھی ہو لیکن جذبات ٹیپو پر ہی بھڑکائے ہیں ۔ موقع کوئی بھی ہو لیکن
غلط استعمال ٹیپو کے نام پر ہی ہواہے ۔ فرق اتنا ہے کہ کسی نے مثبت سوچ سے
ٹیپو کے نام سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے تو کچھ نے منفی سوچ سے ٹیپو کو
بدنا م کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن لوگوں نے ٹیپو کو
اپنا رول ماڈل مانا اور جس حکومت نے انہیں مثالی حکمران قرار دیا وہ ٹیپو
کے دور کی حکومت کی طرح ہی دوبارہ حکومتیں قائم کرتے ۔ عدل و انصاف کے تحت
مسلمانوں کو انکے حقوق سے آراستہ کرتے اور جو لوگ ٹیپو کو اس ریاست کا
بدترین بادشاہ سمجھتے ہیں وہ ٹیپو سے بہتر راج کرتے ہوئے ریاست میں بہترین
حکومت کرتے ، کے آریس سے بڑا باند ھ بناتے ، ریشم کے کارخانوں کو ملک
بھرمیں لگانے کے لئے پیش رفت کرتے ، لیکن مثبت سوچ والوں نے کبھی اس جانب
توجہ دی نہ ہی منفی سوچ والوں نے ۔ بس ٹیپو سلطان پر سیاست ہی چلتی رہی ہے
۔
|