کسی معروف لکھاری کے قلم سے لکھے ہوئے ایک مضمون پر نظر
پڑھی جسکا عنوان تھا کہ جگنیش کو تلاش کریں ، مضمون کو پوری طرح سے پڑھ
نہیں پائے البتہ اس مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ گجرات کے دلت کو برہنہ کر
مارنے والوں پر جگنیش میوانی جو دلت تنظیم کاقائد ہے اور گجرات کے دلتوں کی
آواز ہے اور فی الوقت گجرات اسمبلی کا رکن ہے اس نے اس بات کااعلان کیا کہ
اگر پولیس دلت کو برہنہ کرمارنے والے افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ہے
تو وہ گجرات بند کروائیں گے اور دلتوں پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں
گے ۔ جگنیش میوانی کے اس اعلان کے بعد پولیس فوری حرکت میں آتے ہوئے
ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے لگی ہے ، اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ جب ایک
دلت کی آواز پر پولیس اس قدر حرکت میں آتی ہے تو پہلو خان ، محمد اخلاق
جیسے شہیدوں کی کوئی کیوں نہیں آواز بن پارہاہے ؟۔ کوئی جگنیش میوانی کی
طرح مسلمانوں میں لیڈر کیوں نہیں بن پارہاہے ؟۔ کسی مسلم لیڈر کی اس طرح کی
آواز پر پولیس سنجیدگی کا مظاہر ہ کیوں نہیں کرپارہی ہے ؟۔ اس مضمون میں
جو سوالا ت ہیں ان سوالات کے جوابات ہماری نظر میں کچھ اس طرح سے ہیں اور
ان جوابات کے علاوہ ہمارے بھی کچھ سوالات ہیں جسے ملت اسلامیہ کو خود تلاش
کرنا ہوگا ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کے لائق کوئی نہیں ہیں ،
نہ ہی مسلمان اس قدر کمزور ہیں کہ وہ اپنی قوم کی آواز بن کر سامنے نہیں
آسکتے،لیکن یہاں یہ بات ہے کہ مسلمانوں میں قیادت کو ماننے کا جذبہ نہیں
ہے اور جو لوگ قیادت کرنے کے لئے آگے آتے ہیں ان قائدین کو کمزور کرنے کے
لئے غیروں سے زیادہ مسلمان ہی آگے آجاتے ہیں ۔ کنیہا کمار،جگنیش
میوانی،عمر خالد ، ہاردک پٹیل ، شیہلارشید یہ وہ نوجوان ہیں جنہوںنے ایک
وقت میں ملک میں تحریک اٹھائی تھی، ہاردک پٹیل کو انکی قوم نے گجرات میں
بھر پور ساتھ دیا وہ پٹیل برادری کے لیڈر بن گئے ، جگنیش میوانی نے جب
دلتوں کی آواز بن کر آگے آنے کی پیش رفت کی تو دلتوںنے انہیں ہاتھوں
ہاتھ لیتے ہوئے نہ صرف اپنا قائد بنایا بلکہ بی جے پی جیسی طاقتور سیاسی
جماعت کے سامنے جگنیش میوانی کو کامیاب کرتے ہوئے اسے گجرات کی اسمبلی میں
پہنچادیا تھا۔ کنہیاکمار کو آج نہ صرف ہندوستان میں شناخت ہے بلکہ وہ
عالمی شخصیت بن چکاہے اسکے علاوہ اسے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں عوام کی
جو تائید ملی ہے وہ قابل ستائش اور قابل قبول ہے ۔رہی بات عمر خالد اور
شہیلارشید کی ۔ یہ دونوں مسلم سماج سے تعلق رکھتے ہیں اور ان دونوں کا
معاملہ ایسا ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ۔ شہیلارشید کو مسلم سماج کا ایک
بڑا حصہ بطور قائد قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے ، مسلم دانشوروںکی یہ
سوچ ہے کہ ایک لڑکی جسےباحجاب و باپردہ ہونا چاہئے ، صوم و صلوٰۃ کی پابند
ہوتے ہوئے شریعت کی پاسدار ہونی چاہئے وہ کیسے مردوں کے برابر بیٹھ کر اپنی
قیادت کو ثابت کرسکتی ہے ، اس لئے شیہلارشید جیسی لڑکیوں کو قائد بننے کا
موقع نہیں ہے ۔ یہ بات اور ہے کہ آج مسلم سماج کی لڑکیاں جو سیاست و قیادت
میں اپنے جوہر آزمانا چاہتی ہیں انہیں ہماراسماج قبول نہ کرتا ہو لیکن وہ
لڑکیاں جو تعلیم کے نام پر اپنے آپ کو پس پردہ رہ کر عریانیت کی دلدادہ
ہوچکی ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ بازاروں میں شاپنگ کے نام پر گھومنا
، سیر و تفریح کے نام پر پارکوں و باغوں میں گھومنے والیاں ہمیں منظور ہیں
لیکن قیادت کرنے والی خواتین ہمیں بالکل بھی منظور نہیں خصوصََا ایسی صنف
نازک جو اپنی زبان و علم سے سامنے والے چت کر دے ۔ عمر خالد ، جو پختہ سوچ
، مثبت فکر اور دلیر رویہ رکھتاہو اسے بھی ہماری قوم قائدین کی فہرست میں
شامل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ جب بھی ہمارے درمیان کوئی قائد بن کر
ابھرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہماری قوم اس نوجوان یا شخص کی صلاحیتوں اور
قائدانہ رویہ پر نظر ڈالنے سے زیادہ اس بات کی تفتیش کرتی ہے کہ وہ کونسے
مسلک کا ہے ، کونسے خاندان سے ہے ، اسکا باپ کون تھا، وہ کونسی مسجد کو
جانے والوں میں سے ہے ؟۔ اسکا خاندانی پس منظر کیا ہے ؟۔ مانو کہ ہم اپنی
قوم کیلئے قائد نہیں بلکہ اپنے گھروں کی لڑکیوں کے لئے دولہے کا انتخاب
کررہے ہیں ۔ بات صرف نوجوان نسل کے قائدین کی ہی نہیں بلکہ اعتراضات پہلے
سے ہی ، سرسید سے لے کر اویسی تک جتنے بھی مسلمانوںنے مسلم قوم کی قیادت کا
دعویٰ کیا ہے ان پر انگلیاں اٹھتی ہی رہی ہیں ۔ سرسید کو بھی قوم نے کبھی
قادیانی کہا تو کبھی شیعہ کہا ۔ مولانا آزاد کو بھی قوم نے نہیں بخشا ۔
موجودہ دور میں اویسی برادران سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بننے والوں میں
سے ہیں۔ دنیا وی اعتبار سے انہیں اپنا قائد ماننے کی بات کی جاتی ہے تو
اویسی برادران کے اعمال کا حساب لیا جاتاہے ۔ ایسے ہی حالات کی وجہ سے قوم
نے ہر دور میں ذلالت کا سامنا کیا ہے ۔ انڈین ریوینیو سرویس کا ایک اعلیٰ
افسر اروند کیجریوال نے ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو
دہلی کی عوام نے اسکا ساتھ دیا اور اسے دہلی کا سی یم بنا دیا ، وہیں کشمیر
میں ہونے والے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے کے لئے آئی اے یس افسر شاہ فیصل
نے استعفیٰ دے کر جب سیاست میں قدم رکھا تو خود اسکی ہی قوم نے اسے ٹھینگا
دکھا یا ۔ سوچئے جب ہماری سوچ اور ہم عمل ایسا ہو تو کیسے ہمارے درمیان
جگنیش میوانی جیسے لوگ پیدا ہونگے ۔ کہاں ہمیں ہاردک پٹیل جیسے لوگ ملیں گے
۔ ایک طرف ہماری قیادت کے تئیں ہماری اپنی سوچ ایسی ہے تو دوسری جانب ہمارے
درمیان موجود مخبروں ( خبریوں ) کی وجہ سے قوم کو ملی قیادت سے محروم ہونا
پڑرہاہے ۔ جب بھی کسی خاص مدعے کو لے کر قوم کے ذمہ داران کسی شخص کی قیادت
میں نشستوں کااہتمام کرتے ہیں تو اس منصوبے کے رائج ہونے یا اس سلسلے میں
حتمی فیصلے ہونے سے قبل ہی منصوبوں کی جانکاری پولیس و جانچ ایجنسیوں کو مل
جاتی ہے ، اسکے علاوہ جوشیلے ، قائدانہ صلاحیت والے افراد کے تعلق سے کچھ
لوگ پولیس و جانچ ایجنسیوں کو اس طرح سے متعارف کرواتے ہیں جیسا کہ وہ
بغدادی و طالبانی گینگ سے تعلق رکھتے ہوں ۔ جب سے قوم میں مخبروں کی تعداد
زیادہ ہوئی ہے اس کے بعد سے ہی قوم کے رہنمائوں کی تعداد کم ہوتی گئی ہے ۔
آج ہمارے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو قائدین کے طورپر پیش
کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ قائدین کم ، پولیس کےخبری زیادہ ہوتے ہیں
اور پولیس سے قربت رکھنا یہ اپنے آپ کیلئے فخر کی بات سمجھتے ہیں ۔ قوم کی
ہر چھوٹی بڑی بات اور ہر حوصلہ مند قائد کی چھوٹی چھوٹی خامی کو جب پولیس
جان لے تو کیسے ممکن ہے کہ قوم میں قائدین پیدا ہونے لگیں ؟۔ نہ جگنیش پیدا
ہوگا نہ ہی کنہیاکمار قوم میں دکھائی دیگا۔
|