بلا آخر جمعیت اسلام پاکستان کے امیرجناب فضل الرحمان نے
اسلام آباد اپنے احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ شرکاء اپنے
پنے خیمیں اُکھاڑ کر واپس اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ہمیں جناب
علامہ طاہر قادری کا دھرنا یاد آ گیا۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ جب تک لاہور
کے مظلوموں کا بدلہ نہیں لوں، واپس نہیں جاؤں گا۔ مولانا نے تو قبریں تک
کھود لیں تھیں۔ مگر وہ بھی غلط طریقہ کار کی وجہ سے خیمے اُکھاڑ کر واپس
پورے پاکستان میں احتجاج کو پھیلانے کے نام سے اسلام آباد سے واپس روانہ ہو
گئے تھے ۔ بعد میں و ہ احتجاج کو جاری نہیں رکھ سکے ۔پھر قانونی کاروائی پر
ہی عمل کرنا پڑا۔ اب تو وہ سیاست سے بھی کنارہ کش ہو گئے۔ اسی طرح عمران
خان کا ۱۲۶؍ دن کا دھرنا ایک اتفاقی حادثے پر ختم ہوا تھا۔ بعد میں موصوف
نے سول نافرمانی پر زور دیاتھا۔یوڈیشنل ٹریبیونل نے فیصلہ دیا تھا کہ
الیکشن میں مکمل دھاندلی نہیں ہوئی اِکادُھکا خرابیاں تھی۔ اب مولانا نے
بھی شروع دن سے الیکشن کو نہیں مانا۔ نہ قانونی کاروائی کی طرف گئے ۔ عمران
خاں کا استعفی نئے الیکشن کے لیے دھرنا سیاست پر ہی انحصارکیا۔ اب عمران
خان کے استعفے اور نئے الیکشن کے مطالبات منظور نہ ہونے پر دھرنا ختم کر کے
اپنے بی پلان پر عمل کرنے اعلان کیا ہے۔دوسرے مرحلہ جس میں پاکستان کی بڑی
بڑی شا ہرائیں بند کرنے کی کال دی گئی۔کارکنوں کو اس نئے احتجاج میں شامل
ہونے کی ہدایت دی گئیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کارکن اپنے خیموں کے بوجھ کے
ساتھ شاہرئیں بلاک کرنے کے عمل میں شریک ہوتے ہیں یا اپنے گھروں میں جا کر
پھر تازہ دم ہو کر احتجاج میں شریک ہوتے ہیں۔مولانا صاحب نے ۲۷؍ اکتوبر کو
کراچی سے آزادی نام کا احتجاج شروع کیا تھا۔ جو پورے ملک کارکن مارچ کرتے
کرتے اسلام پہنچے تھے۔دو ہفتے سردی اوربارش کی سختیاں برداشت کر کے بلا آخر
بغیر کچھ حاصل کیے پلان بی میں داخل ہو گئے۔ کارکنان کو ہدایات کی گئیں کہ
وہ اپنے اپنے اضلع جائیں اور مقامی لیڈروں کی ہدایت پر شاہرائیں بلاک کرنے
کے احتجاج میں شامل ہو جائیں۔
اس دھرنے اور سابق دھرنوں پر تبصرے شرو ع ہو گئے ہیں۔ لوگوں کو جماعت
اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد یاد آتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مرد
مجائد اپنے کارکنوں کے ساتھ رہ کر دھرنا سیاست کرتے تھے۔ جبکہ دوسرے حضرات
کینٹینر میں محفوظ بیٹھ کر دھرنے کی سیاست کرتے تھے۔ عمران خان، علامہ طاہر
القادری اور اب مولانا فضل الرحمان نے کارکنوں سے دور رہ کر کروڑوں کے خرچ
سے تیار کردہ کینٹینز میں بیٹھ کر دھرنا سیاست کی۔ مولانا کے دھرنے کی بات
کی جائے تو پاکستان کے سیکولر حضرات اپنے بیرونی آقاؤں کے ساتھ مل کر اور
تعصب کے چشمہ لگا کر ہمیشہ دینی جماعتوں میں ساری خربیاں تلاش کرتے رہتے
ہیں ۔ مولانا فضل ا لرحمان کے پر امن دھرنا کر کے ان منہ بند کر دیے ہیں۔
نہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور ملک کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ ساری دنیا میں
جماعت اسلامی کے کارکنوں کے نظم و ضبط کے لیے مشہور تھے۔ اب اس میں جمعیت
علماء اسلام کے کارکنوں نے بھی دو ہفتے سردی اور بارش میں نظم ضبط اور پر
سکون رہ کر اپنا نام لکھوا لیا۔نون لیگی حکومت نے توعمران خان کے کارکنوں
پر تشدد کیا تھا۔ مگر عمران خان حکومت نے بھی بغیر رکاوٹ کے کارکنوں کو
اپنا جمہوری حق ادا کرنے کی سہولت دی کردانش مندی کا ثبوت پیش کیا۔ کچھ
سیاسی رہنماؤں کی سوچ ہے کہ مولانا نے جو کام آخر میں کرنا چاہے تھا وہ
پہلے کر کے اپنی سیاست میں کمزروری ظاہر کر دی۔کچھ حضرات کا کہا تھا کہ
سیاست کرنے میں قومی سوچ کا بھی خیال رکھا جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔ ان کا
کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت پاکستان کی بقا کی جنگ جاری ہے۔ بھارت نے اپنا
آخری کارڈ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارت میں ضم کر
لیا۔ وہ بھی بین القوامی اصلوں اوربھارت کے آئین کی خلاف دردی کرتے
ہوئے۔اپنے پٹھو گورنر کی درخواست کشمیر کی خصوصی دفعات ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے کو
یک سر قلم ختم کر کے پاکستان کی شہ رگ جموں کشمیر کو دوحصوں میں بانٹ کر
جموں کشمیر اور لداخ کارگل میں اپنے گورنر لگا دیے۔ آزاد کشمیر پر حملہ کر
کے اسے بھی بھارت میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ واقعی پاکستان کی بقاء
کی جنگ کا موقعہ ہے۔ جس کو مولانا نے اپنی سمجھ کے مطابق صحیح نہیں سمجھا ۔
حکومت کو کشمیر بارے اقدامات کرنے اور زور ڈالنے کے بجائے اسے مقامی طور پر
مصروف کر دیا۔ جسے مورخ غلطی ہی تصور کرے گا۔ ایک نکتہ نظر یہ بھی اُٹھا یا
گیا کہ ۲۷؍ تاریخ کو بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر کے قبضہ کیا
تھا۔ جبر کے اس دن کو کشمیری ۷۲ سال مناتے ہیں۔ مولانا صاحب سے درخواستیں
کی گئی کہ ۲۷؍ کے بجائے کوئی اور تاریخ مقرر کر لی جائے مگر مولانا نے اسی
تاریخ کو ا حتجاج رکھ کر غلطی کی۔ ویسے ان کے اتحادی ۹جماعتوں میں سے دو
بڑی جماعتوں نے اپنی رائے دی تھی۔ نون لیگ نے کہا تھا کہ نومبر کی بجائے
دسمبر میں احتجاج شروع کیا جائے مگر مولانا نہیں مانے۔پیپلز پارٹی اور نون
لیگ نے دھرنے سیاست کو ناپسند کیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی جمہوری طریقہ اختیار
کرنے پر ساتھ دینے کا کہا تھا۔ مگر مولانا نے دھرنے پر ہی اپنی سوچ رکھی۔گو
کہ شہباز شریف اور بلاول زرداری نے دھرنے میں خطاب کیا مگر ان کی ٹوکن ہی
حاضری تھی۔ اسفند یار ولی صاحب بھی اپنے جماعت کے کارکنوں کے ساتھ آئے تھے
مگر ان کے دھرنے میں بھرپور شرکت نہ ہو سکی۔ صرف پختون ملی خواہ پارٹی نے
مولانا کے ساتھ شامل رہی۔
صاحبو! کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے الیکشن جیت کر
کے اپنے حق حکمرانی کے پانچ پانچ سال مکمل کیے تھے۔ سیاست دان اس پرعمل
کرتے ۔الیکشن کے طریقہ میں خرابیوں کو مل جل کر پارلیمنٹ میں قانون سازی سے
ختم کرتے۔ پڑوسی ملک کی طرح الیکٹرون ووٹنگ کا طریقہ اختیارکرتے ۔یہ کیا
بات ہے کہ جب جمہوری الیکشن ہوتے ہیں تو ہارنے والوں کا ہار ماننی چاہیے۔
بلکہ ہارنے والی پارٹیاں دست و گریبان ہوجاتیں ہیں۔ اس نورا کشتی سے عوام
کا نقصان ہوتا ہے۔پارٹیاں پارلیمنٹ میں عوام کی بھائی کے بجائے ایک دوسرے
سے لڑتی رہتی ہیں۔ دشمن پاکستان پر چاروں اطراف سے حملہ آورہے اور یاست دان
اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ یہ بزور وقت منتخب حکومتوں کے ختم کرنے کے
ڈرامے ختم ہونا چاہیے۔ جو کچھ کرنا ہے وہ پارلیمنٹ کے ا ندر ہی کریں۔سیاست
دانوں کی سیاسی لڑئیوں کی وجہ سے جر نیلوں کو ملک میں مارشل لا لگانے
کابہانہ ملتا رہا ہے۔ اب سیاسی اختلافات ختم کر کے ملک کو بھارت کی دھمکیوں
کو سامنے رکھ کر پالیساں بنائیں۔ حکومت اور اپوزیشن پاکستان کے نا مکمل
ایجنڈے میں مصروف کشمیریوں کی عملی مدد کرنے کی پالیسیاں وضع کریں۔ پانچ
سال انتظار کریں۔ عوام میں اپنی کارکردگی بڑھائیں ۔ الیکش میں جیتنے کی
کوشش کریں ۔ ورنہ تاریخ پاکستان کے ساستدانوں کو نہیں بخشے گی۔اﷲ پاکستان
کی حفاظت کرے آمین۔
|