ریاست مدینہ اور غربت یہ ممکن ہی نہیں ہے

حضرت عمرؓ کی خلافت کا دور ہے ، اورحضرت عمرؓ کا معمول ہے کہ وہ روز رات کے وقت مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کہیں کوئی رعایا میں سے کوئی مشکل میں یا تکلیف میں تو نہیں۔ ایک روز آپ معمول کے مطابق رات مدینہ کی گلیوں میں چلتے چلتے ایک جھونپڑی کے پاس سے گزرے، تو کیا سنتے ہیں کہ ایک بچہ بہت زور زور سے رو رہا ہے۔ حضرت عمرؓ کچھ دیر رکے مگر وہ بچہ لگاتار روتا رہا ،تو حضرت عمرؓ نے آواز دے کر کہا کہ بچے کو چپ کرواؤ کیا بات ہے کس وجہ سے بچہ رو رہا ہے؟ مگر جب کوئی آواز نہ آئی تو آپ چل پڑے۔ کچھ دیر بعد جب دوبارہ اس جگہ سے گزر ہوا توکیا سنتے ہیں کہ بچہ ابھی بھی رو رہا ہے، حضرت عمرؓدوبارہ آواز دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ بچہ کس وجہ سے رو رہا ہے بچے کو چپ کرواؤ۔ مگر پھر آواز نہ آئی تو آپ کچھ دیر رُک کر چل پڑے ۔اسی طرح آپ کا گزر جب یہاں سے تیسری مرتبہ ہوا تو اس مرتبہ بھی وہ بچہ زاروقطار رو رہا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ اس بار بھی رُک جاتے ہیں اور غصہ سے آواز دے کر کہتے ہیں کہ کیا بات ہے، کس وجہ سے بچہ اس قدر زاروقطار رو رہا ہے، اس کو چپ کیوں نہیں کرواتے آپ لوگ؟۔ تو اندر سے خاتون جو کہ بچے کی والدہ ہیں بولتی ہیں کہ میرا بچہ اس وجہ سے رو رہا ہے کیونکہ اس کی عمر ابھی تھوڑی ہے ،یہ روٹی نہیں کھا سکتا ہے، کوئی ٹھوس غذا نہیں کھا سکتا ہے، جبکہ میرے گھر میں غربت کے ڈیرے ہیں۔ میں اس بچے کو بہت مشکل سے پال رہی ہوں، اور خلیفہ وقت حضرت عمر ؓنے اعلان کر رکھا ہے کے وظیفہ اس بچے کو دیا جائے گا جو ٹھوس غذا کھانا شروع کر چکا ہوگا۔ تواس وجہ سے میں زبردستی اپنے بچے کو ٹھوس غذا کھلا رہی ہوں تاکہ کل خلیفہ کی عدالت میں پیش ہوکر یہ کہہ سکوں اور دکھا سکوں کہ میرا بیٹا ٹھوس غذا کھا سکتا ہے، تو خلیفہ میرے بیٹے کے لئے ماہانہ وظیفہ کا اجرا کریں گے۔ یہ سننا تھا کہ حضرت عمرفاروقؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوجاتے ہیں،اور اس ہی حالت میں واپس پلٹتے ہیں۔ آپ ؓزاروقطار روتے جارہے ہیں، آپؓ پر خدا کا ڈر اس قدر طاری ہوجاتا ہے۔ کہ اے عمرؓ! کل تو روز قیامت اس بچے پر ہو رہے ظلم کا کیا جواب دے گا ؟ اس گھر میں غربت کا اور افلاس کا کیا جواب دے گا؟ اس واقعہ کے بعد اگلی ہی صبح خلیفہ وقت حضرت عمرؓ اعلان کر دیتے ہیں کہ آج سے ریاست اسلامیہ میں جو بھی بچہ پیدا ہوگا اس کا تب سے ہی وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا۔ ٹھوس غذا والی شرط آج سے ختم کردی جاتی ہے ۔یہ ریاست مدینہ کا نظام اور یہ ہے ریاست مدینہ کے حکمران۔

اور ادھر ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں کہ جس کے حکمران ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں۔ غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر ماں نے اپنے شیر خوار بچے سمیت تین بچوں کو مار ڈالا اور پھر خود بھی خود کشی کر کے مر گئی ۔وجہ معلوم کی گئی تو پتہ چلا کہ مہنگائی اور غربت اس قدر گھر میں ڈیرے جما چکی تھی کہ گھر میں دو وقت پیٹ بھر روٹی میسر نہیں تھی ۔اور بچے اسکول میں پڑھتے تھے تو ان کی چند سو روپے فیس بھی ادا نہیں ہو پا رہی تھی، بہت صبر کیا مگر ہر روز فاقہ کشی کی نوبت جان ہی نا چھوڑ رہی تھی۔ بچوں کو سکول سے ہٹا لیا گیا ،اس کے باوجود بھی حالات میں ذرا برابر بھی بہتری نہیں آئی۔ آج بھی باپ روز مرہ کے معمول کے مطابق خالی ہاتھ گھر لوٹا تھا اورآج بھی ہمیشہ کی طرح گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ باب کسی کام کے سلسلہ میں گھر سے باہر گیا تو ماں نے بچوں کو جو بھوکے ہی سو گئے تھے سب کو گلا دبا کر انتہائی سفاکیت سے قتل کر ڈالا۔ نا جانے ماں کی مامتا نے کیسے خود کو سہارا دیا ہوگااتنے بڑے گناہ کو کرتے ہوئے۔ اور پھرماں نے خود بھی چھت سے جھول کر خودکشی کرلی۔

یہ تو ایک گھر کی کہانی اور ایک حادثہ کی روداد ہے۔ اسی طرح کے ہزاروں بلکہ لاکھوں واقعات ہمارے ملک میں رونما ہو چکے ہیں اور لگاتار رونما ہو رہے ہیں۔ کہیں پر ماں نے اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کو نہر میں پھینک کر مار ڈالا اورپھر خود بھی نہر میں کود گئی۔ کہیں پر باپ نے اپنے پورے ہی گھر کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ کہیں پر باپ صبح کام کی تلاش میں نکلا مگر کام نہ ملنے پر خودکشی کر گیا ،اور اپنے اہل و عیال کو روتا چھوڑ گیا ۔کہیں پر ماں نے کھانے میں زہر ڈال کر پورے گھر کو ہی ابدی نیند سلا دیا اور آخر میں خود بھی موت کی وادیوں میں چلی گئی ۔اور ان سب دل دہلا دینے والے واقعات اور سانحات کی وجہ ایک ہی بنی اور وہ ہے غربت ،تنگدستی و بیروزگاری۔

یہ تو وہ لوگ ہیں جو غربت سے تنگ آکر دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی ملک میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اس غربت و بیروزگاری سے تنگ آکر دوسروں کی دنیا اور گھر اجاڑتے ہیں ،دوسروں کا سکون اور چین چھین لیتے ہیں ۔اور اس کے پیچھے وجہ کیا ہوتی ہے ،صرف اور صرف اس غربت و بیروزگاری۔

پچھلے ہی دنوں کی بات ہے ایک پوش علاقہ میں ایک ڈاکٹر اپنی فیملی کے ہمراہ سفر کر رہا تھا کہ راستہ میں ایک جگہ ڈاکوؤں نے بندوق کی نوک پر روک لیا۔ ڈاکٹر نے تھوڑی سی ہوشیاری کرکے نکلنے کی کوشش کی تو ڈاکوؤں نے فائرنگ کردی ،جس کی زد میں آ کر اس ڈاکٹر کی معصوم بیٹی اور بیٹا موت کی نیند سو گئے۔ خود ڈاکٹر اور اس کی بیوی شدید زخمی ہوگئے ،پل میں ہی ان تین ڈاکوؤں نے ہنستا مسکراتا گھر اجاڑ کر رکھ دیا۔ جب گرفتاری ہوئی اورتفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس حیوانیت اور سفاکیت کے پیچھے بھی غربت اپنے جال پھیلائے بیٹھی ہے۔ غربت سے صرف یہ ہی نہیں کئی اور دوسری معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ معاشرے میں بے راہ روی عام ہوجاتی ہے، غربت سے تنگ لوگ ناجائز طریقوں سے اپنی غربت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم تمام لوگ ریاست پاکستان کے شہری ہیں جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آئی ہے۔ اور موجودہ حکمران بھی ریاست مدینہ کے دعوے کرکے اور ریاست مدینہ کے نعرے لگا کر حکمرانی پر براجمان ہوئے ہیں ۔مگر یہ دعوے شاید سابقہ حکمرانوں کی طرح محض دعوے ہی تھے ،ان میں کوئی حقیقت اور کوئی سچائی نہ تھی اور نہ ہی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جہاں عوام کا خون پسینہ نچوڑنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔ جہاں پر رعایا غریب سے غریب تر ہوتی جا رہی ہے، اور پھر اس کی اس غربت کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے طرح طرح کے جاہلانہ اقدامات وبیانات سے۔ یہ کیسی مملکت اسلامیہ ہے کہ جہاں پر لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے ،جہاں پر غربت و افلاس سے تنگ آکر لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جہاں پر غربت سے تنگ لوگ معاشرے کا امن و سکون تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ مگر حکمران اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے محض بلند و بانگ زبانی دعووں تک محدود ہیں۔

جبکہ ریاست مدینہ ہے ہر روز ذمہ داران بیت المال صدقہ اور زکوۃ کے پیسے لے کر نکلتے ہیں، ہر ایک دروازے پر دستک دی جاتی ہے کے مال زکوۃ یا صدقہ ہے کوئی حاجت مند ہے تو لے لے ۔مگر سارے علاقے کے دروازے کھٹکٹانے کے باوجود کوئی ایک ایسا حاجت مند میسر نہیں آتا کہ جسے بیت المال سے صدقہ اور زکاۃ کی حاجت ہو۔ یہ دن گزر جاتا ہے نئے دن کا سورج طلوع ہوتا ہے ،پھر ذمہ داران بیت المال نکلتے ہیں مگر آج بھی ہر دروازے پر دستک دینے کے باوجود کوئی ایسا فرد میسر نہیں آتا کہ جسے صدقہ یا زکوٰۃ کے مال کی حاجت ہو۔ اور پھر جب ریاست مدینہ کے ہر ایک باسی پر زکوۃ دینے کا وقت آتا ہے تو تب لوگ بھی ہر ایک دروازے کو کھٹکھٹاتے ہیں کہ کوئی تو ہم سے مال زکوۃ لے، مگر لوگوں کو بھی کوئی زکوۃ لینے والا بندہ میسر نہیں آتا ہے۔ اس قدر خوشحالی ہے، کہ ریاست مدینہ میں کسی کو بھی صدقہ یا زکوۃ کی ضرورت ہی نہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی کے مال کو لوٹنے کی کوشش نہیں کرتا ہے ،معاشرہ بگاڑ سے بالکل صاف ہے۔ لوگوں کا مال، عزتیں اور جان بالکل محفوظ ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے ؟
ہاں بالکل ممکن ہے۔ ہمارے نبی ؐنے جو نظام ہمیں سکھایا جب اسے حکومتوں میں لاگو کیا جائے تو معاشرہ خوشحال ہو جاتا ہے۔ جب اس قانون ونظام کو اپنایا جائے تو معاشرے سے برائیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ لوگوں کی جان ،مال اور عزت محفوظ ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب تب ممکن ہے جب معاشرے میں اس نظام کو عملی طور پر لاگو کیا جائے ،نہ کہ صرف ریاست مدینہ کی تسبیح کی جائے۔ اور عملاََ کوئی کام نہ کیا جائے تو یہ ہرگز ممکن نہیں کہ معاشرے سے برائیاں ختم ہوسکیں یا معاشرہ خوشحال ہو سکے۔ اس کے لیے ریاست مدینہ کے نظام و قوانین کو اپنانے کی عملاََ ضرورت ہے۔
 

Musab Ghaznavi
About the Author: Musab Ghaznavi Read More Articles by Musab Ghaznavi: 16 Articles with 12144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.