مہاراشٹر اور ہریانہ کے صوبائی انتخاب کے ساتھ ملک کی ۱۸
ریاستوں میں ۵۱ مقامات پر ضمنی انتخابات بھی ہوے۔ ان میں ۶ اسمبلی کے حلقہ
گجرات میں تھے۔ گجرات کے انتخابات کا جائزہ لینا کئی وجوہ سے زیادہ اہم ہے۔
اول تو مودی اور شاہ کی جوڑی گجرات سے آتی ہے اس لیے یہ لوگ کتنے پانی میں
اس کا اندازہ ان کے اپنے صوبے میں مقبولیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس ضمنی
انتخاب کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بی جے پی کے چار ارکان اسمبلی ایوان
پارلیمان میں منتخب ہوکر چلے گئے لیکن دو کانگریسی ارکان اسمبلی اپنی پارٹی
بدل کر بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ اسی سبب سے چار ضمنی انتخابات چونکہ پانچ
ماہ قبل بھی ہوے تھے اس لیے سیاسی ما حول کی تبدیلی کا موازنہ بھی کیا
جاسکتا ہے۔ گجرات کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہیں سے راہل گاندھی نے ملک کے
سیاسی افق پر اپنی پہچان بنائی تھی۔ وکاس کا پاگل ہونا اور گبرّ سنگھ ٹیکس
جیسی اصطلاحات یہیں وجود میں آئیں ۔ امیت شاہ کے ایک سو پچاس سے زیادہ
نشستوں پر کامیابی کے خواب کو یہیں ۹۹ پر روک دیا گیا اور دیگر۳ ریاستوں
میں کامیابی اس کے بعد ہی ملی۔
گجرات کے رادھن پور اور بیاڈ سے پچھلی مرتبہ الپیش ٹھاکور اور دھول سنگھ
زالا منتخب ہوے تھے ۔ ان دونوں میں الپیش زیادہ مشہور ہوئے کیونکہ پچھلے
الیکش سے قبل انہوں نے کانگریس میں گھرواپسی کی تھی۔ ان کو کانگریس نے اپنا
سکریٹری اور بہار کا نگراں بنایا تھا۔ اس کے باوجود جب گجرات کے اندر ایک
عصمت دری کے معاملے میں بہار نوجوان کو ملوث پایا گیا تو انہوں نے اپنے
ہمنواوں کے ساتھ غیر متعلق بہاریوں پر حملہ کردیا ۔ الپیش بہت آرزو مند
رہنما ہیں ۔ دیگر پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے کے سبب انہیں ہاردک پٹیل کی
کانگریس میں آمد کھٹکتی تھی اس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے انہیں اپنے
دام پھنسا لیا ۔ الپیش ٹھاکور نے اپنی ابن الوقتی کا بڑی بے حیائی کے ساتھ
اعلان کیا تھا کہ مجھے وزیر بننا ہے اس لیے میں بی جے پی میں جارہا ہوں۔ بی
جے پی نے انہیں رادھن پور سے ٹکٹ دے کر ان کے خلاف لڑنے والے اپنے سابق
امیدوار لونگ جی ٹھاکور کی پیٹھ میں چھری گھونپ دی۔ اسی طرح بیاڈ سے سابق
کانگریسی دھول سنگھ زالا کو کمل پکڑا دیا ۔
وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے ان حلقوں میں کامیابی کو اپنے وقار کا مسئلہ
بنالیا تھا اس کے باوجود رائے دہندگان نے ان دنوں موقع پرستوں کو شکست فاش
سے دوچار کرکے دکھا دیا کہ اس طرح کی غداری کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
الپیش ٹھاکور کو تو خیر وزیر بننا تھا لیکن دھول سنگھ زالا کو نہ جانے کیا
سوجھی کہ انہوں نے اپنی بنی بنائی عزت کو خاک میں ملادی ۔ گجرات کے اندر
پٹیل برادی نے بی جے پی کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کیا اور برسوں تک اس پر ووٹ
اور نوٹ بچھاور کرتے رہے اسی لیے جب پہلی بار ان کے ہاتھ میں صوبائی اقتدار
آیا تو ان لوگوں نے کیشو بھائی پٹیل کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا۔
کیشو بھائی پٹیل کے سبب بی جے پی نے پٹیلوں کا دل جیت لیا لیکن بھوج میں
آنے والے زلزلہ کے بعد وہ بہت غیر مقبول ہوگئے اور بی جے پی کو مجبوراً
دہلی سے نریندر مودی کو درآمد کرکے وزیراعلیٰ بنانا پڑا۔ مودی کے زمانے
میں بھی پٹیل نے پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا یہی وجہ ہے دہلی جاتے ہوے انہوں
نے آنندی بین پٹیل کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی۔
آنندی بین پٹیل اور امیت شاہ کے درمیان بنتی نہیں تھی اس لیے پٹیل احتجاج
کا بہانہ بناکر امیت شاہ نے آنندی بین کا آنند چھین لیا ۔ امیت شاہ نے
اپنی برادری کے وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ تو بنوا دیا مگر وہ نااہل نکلے۔
ان کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد صوبے میں بی جے پی کا گراف لگا تار نیچے ہی
گرتا رہا لیکن چونکہ وہ شاہ کے خاص آدمی ہیں اس لیے انہیں ہٹانے کا خیال
بھی کسی دل میں نہیں آیا۔ پارٹی کے اندر شاہ کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ
کوئی ان کے خلاف اپنی زبان پر ایک لفظ لانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ مودی کی
قریبی مانی جانے والی آنندی بین جیسی سینئر رہنما اگر شاہ کے عتاب کا
مقابلہ نہیں کرسکیں تو دوسرے ایرے غیرے نتھو خیروں کی کیا بساط ؟ شاہ جی اس
ناعاقبت اندیشی نے پٹیل برادری پوری طرح بی جے پی سے دور کردیا ۔ اس کمی کو
پورا کرنے کے لیے انہوں نے پسماندہ ذاتوں کو کانگریس سے دور کرکے اپنے ساتھ
کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ الپیش ٹھاکور کو وزارت بلکہ نائب وزیراعلیٰ تک کا
لالچ دے کر اپنی پارٹی میں لانا اسی چانکیہ نیتی کا حصہ تھا مگر گجرات کے
عوام نے شاہ جی کے ان خوابوں کوخاک میں ملادیا ہے۔
یہ تو خیر کانگریس کی اپنی سیٹیں تھیں لیکن تھراد میں پندرہ سال بعد
کانگریس کے گلاب سنگھ راجپوت نے بی جے پی کے جیوراج پٹیل کو شکست دے کر
پارٹی کے ارکان اسمبلی میں ایک کا اضافہ کرلیا ۔ یہاں پر بی جے پی نے سابق
وزیر شنکر بھائی چودھری اور رکن پارلیمان پربت بھائی پٹیل کو کنارے کیا جس
کی قیمت اسے چکانی پڑی۔ ویسے بی جے کی تقدیر اچھی تھی جو احمد آباد کے
نزدیک امرائی واڑہ اس کے دھرمیندر پٹیل کو آخری وقت میں کامیابی ملی۔
سولہویں راونڈ تک وہ کانگریس جگدیش پٹیل سے پیچھے چل رہے تھے مگر آخری دو
راونڈ کے اندر انہیں ۶ ہزار کی بڑھت مل گئی اور وہ کامیاب ہوسکے۔ اس طرح
جہاں پانچ ماہ قبل بی جے پی نے چاروں کی چاروں ضمنی انتخابات میں کامیابی
درج کرائی تھی وہیں اس بار اسے تین تین پر اکتفاء کرنا پڑا۔ معاشی میدان
میں ناکامی کے سبب ملک بھر میں بی جے پی کی مقبولیت تیزی سے گھٹ رہی ہے اور
اسی گرتی ہوئی دیوار کو مندر کا سہارے سنبھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تو
وقت ہی بتائے گا کہ سنگھ پریوار اس میں کامیاب ہوسکت گا یا نہیں؟
|