جس طرح بارش ہوتی ہے توپانی آتاہے جب زیادہ بارش
ہوتی ہے توزیادہ پانی آتاہے ٹھیک اسی طرح جب کوئی اجنبی دھوکہ دیتاہے
توتکلیف ہوتی ہے،جب کوئی جاننے والاوعدہ خلافی کرتاہے توزیادہ تکلیف ہوتی
ہے،جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تواورزیادہ تکلیف ہوتی ہے اورجب بھرم ٹوٹتاہے
تواوربھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے،جب وزیراعظم کہتے ہیں کہ کسی کواین آراونہیں
دونگا،جب احتساب کی بات کرتے ہیں توخوشی ہوتی ہے پرجب بغیرڈیل،ڈھیل اوراین
آراوکے ایک بڑاسزایافتہ مجرم بغیربے گناہی ثابت ہوئے ایک ایسے شخص کی ضمانت
پرجوخودضمانت پرہے جیل سے نکل کرجہازمیں سوارہوکرلندن پہنچ جاتاہے تومعلوم
ہوجاتاہے کہ این آراودینے یالینے کااختیاروزیراعظم کے پاس نہیں
یاپھروزیراعظم قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں اورپھربھرم ٹوٹ جانے سے جس قدرتکلیف
ہوتی ہے اُس قدرزیادہ پانی زیادہ بارش سے بھی نہیں آتا،تبدیلی سے قبل
ہواکابدلتارخ پیغام دے رہاہے کہ ماضی کی طرح ایک بارپھر حکومت بھی جیت
گئی،عدلیہ نے بھی انصاف کے تقاضے پورے کرکے عزت پائی اورن لیگ کوبھی سات
ارب کی ضمانت دیئے بغیرنوازشریف کی بیرون ملک روانگی مبارک ہو،مجھے کیوں
نکالاسے کسی کونہیں چھوڑوں گاتک حکمران طبقے انتہائی کامیاب جبکہ
غریب،مسکین عوام شدیدناکام ثابت ہوچکے ہیں،
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تازہ بیان میں کہاتھا کہ ہرقسم کی
طاقت ہر اثر اور تمام دھمکیاں نیب آفس کے گیٹ کے باہر ختم ہوجاتے ہیں،جہاں
بھی کرپشن ہوگی خواہ وہ اس میں کوئی بھی ملوث ہو نیب ایکشن لے گا،نیب نے
اپنی منزل کا تعین کرلیا ہے،کرپشن فری پاکستان نیب کی منزل ہے،راستے میں
جتنے طوفان آئیں نیب پیچھے نہیں ہٹے گا،30،35 سال اقتدار میں رہنے والوں
اورچندماہ کے حکمرانوں میں فرق دیکھنا ہوگا ،دیکھناہوگاکہ30،35 سالوں میں
کتنی کرپشن ہوئی اورحالیہ دورحکومت کے 12 ماہ میں کتنی کرپشن ہوئی،ہواکارخ
بدل رہاہے اب ایسے کیسز پرکام جاری ہے جن سے اس تاثر کی نفی ہوگی کہ احتساب
یکطرفہ ہے،بی آر ٹی پشاور کیس میں سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دیا ہواہے،اس
کی روشنی میں نیب ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا، کوشش کررہے ہیں یہ حکم
امتناعی ختم ہو تاکہ اس کیس کی مزید چھان بین کریں،چیئرمین نیب کے طویل
بیان میں قابل غورپہلوہواکابدلتارخ ہے،ہواکے بدلتے رخ کااندازہ توسابق
وزیراعظم میاں نوازشریف کو ملنے والے تیزترین ریلیف سے بھی ہورہاتھااورکسی
کی بیرون ملک روانگی میں تاخیرپراتحادیوں کے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ
اختلافی بیانات بھی ہواکے بدلتے رخ کی صدائیں سنارہے تھے اورپھرکسی بلکہ
کئی کسیوں کاآزادی مارچ،اسلام آبادمیں دھرنااورپھرپلان بی کے تحت ملک کے
مختلف علاقوں میں دھرنے بھی ہواکے بدلتے رخ سے پیداہونے والے بگولے معلوم
ہورہے ہیں،20نومبرکووزیر اعظم عمران خان کی 18 نومبر والی تقریر پر اپنے
ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ صاحب نے کہا
کہ جس کیس پر وزیراعظم نے بات کی ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ کسی کوباہر جانے
کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی،اس طرح کے بیانات کے حوالے سے وزیراعظم کو
خیال کرنا چاہیے،عدلیہ اب آزاد ہے، عدلیہ نے 36 لاکھ کیسز کا فیصلہ
کیا،عدلیہ نے ایک وزیر اعظم کو سزا دی اور نااہل کیا،ایک سابق آرمی چیف کے
مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے،وزیر اعظم عمران خان چیف ایگزیکٹو ہیں،
ہمارے منتخب نمائندے ہیں، محترم وزیر اعظم کے وسائل فراہم کرنے کے بیان کا
خیر مقدم کرتے ہیں، وزیراعظم کا اعلان خوش آئند ہے پرہم نے امیر غریب سب کو
انصاف فراہم کرنا ہے،ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں،یاد رہے کہ
وزیراعظم عمران خان نے بھی موجودہ چیف جسٹس پاکستان اورآئندہ چیف جسٹس
پاکستان کے نام لے کرانہیں انتہائی محترم کہاتھااوراب چیف جسٹس پاکستان آصف
سعیدکھوسہ نے بھی وزیراعظم عمران خان کومحترم کہاہے،اب کسی محترم نے کسی
محترم کوپیغام دیاکہ وسائل کارخ موڑدیں گے یعنی وسائل کی کمی سے پریشان
ہونے کی ضرورت نہیں فراہمی انصاف میں کمزوراورطاقتورطبقات کافرق ختم کردیں
اورپھرکسی محترم نے کسی محترم کوپیغام دیاکہ احتیاط سے کام
لیں،کمزوراورطاقتورکاطعنہ نہ دیں،وسائل کارخ موڑدیں اچھی بات ہے پراب
ہواکارخ بدل رہاہے لہٰذاکسی کوتیزترین ریلیف دینے کی ذمہ داری خودقبول کریں
اوربیرون ملک جانے والے کسی کی کسی کوریلیف دینے کی تیاری کریں،کون
بتاسکتاہے کہ جن36 لاکھ کیسز کے فیصلے کرنے کابتایاگیاہے اُن میں کتنے
کیسزمیں انصاف بھی ہواہوگا؟کیااُن 36 لاکھ کیسزمیں کوئی ایک کیس بھی ایساہے
جس میں کسی غریب کسی کوکسی امیرترین کسی جیسا تیزترین انصاف ملاہوگا؟نہائے
دھوئے فراہمی انصاف کے ذمہ دارکسی کسی،بے گناہ اورباعزت آئین سازاسمبلی کے
ممبرز کسی کسی،قابل احترام سکیورٹی اداروں کے ذمہ داران کسی کسی،پڑھے لکھے
ماہربیوروکریسی میں بیٹھے کسی کسی،سچے حکمران کسی کسی اورقول کے پکے
اپوزیشن میں بیٹھے کسی کسی اوران سب طاقتور کسیوں کے انتہائی طاقتورقوانین
،معلوم ہے یہ سب کہاں پائے جاتے ہیں؟جی نہیں یہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ
ہراس جگہ پائے جاتے ہیں جہاں جہاں عوام یعنی محکومین غلامی پسند،خوش
آمدی،سیاسی ومذہبی کارکنان کی اکثریت ہواورانسانیت اقلیت میں چلی جائے،سوال
یہ پیداہوتاہے کہ ماضی میں ریاست نے کبھی کسی کے ساتھ خفیہ یااعلانیہ ڈیل
نہیں کی؟کبھی کسی کوخفیہ یااعلانیہ این آراونہیں دیاگیا؟عدالتیں مجرموں کی
جانب سے طبی بنیادوں پرریلیف کیلئے دائردرخواستیں فوری سنے اورمظلوم کی
درخواست سالوں تک سماعت کیلئے مقررنہ ہوسکے تومظلوم کیاکرے؟کہاں اورکس سے
انصاف مانگے؟چیف جسٹس خودشراب برآمدکرے اورپھروہی شراب شراب ثابت نہ ہوپائے
توقانون کیاکرے؟
سزایافتہ مجرموں کوانسانی بنیادوں پرضمانت ملے گی توپھرریاست کے امن کی
ضمانت کون دے گا؟جرائم پیشہ مجرموں کے حقوق غالب آجائیں گے توپھرجرائم پیشہ
عناصرکی حوصلہ شکنی کیسے ہوگی؟انسانی ہمدردی کی بنیادپرانصاف کیسے ممکن
ہوسکتاہے،قاتل بھی انسان اورمقتول بھی انسان عادل قاتل کے ساتھ انسانی
ہمدردی کرے گاتوپھرانصاف کہاں اورکون دے گا؟منشیات فروش بھی انسان
اورمنشیات سے متاثرہوکرمرنے والے بھی انسان اب یہ فیصلہ کون کرے گاکہ
انسانی بنیادوں پرہمدردی کاحق دارمنشیات فروش ہے یامنشیات کے استعمال کے
باعث جان سے جانے والے؟سچ تویہ ہے کہ رخ ہوا کا بدلتا رہتا ہے ،حکمران طبقے
اوراُن کے طاقتور قوانین ہواکے رخ کے ساتھ بدل جاتے ہیں،جب ہواکارخ بدلتاہے
توجوخودضمانت پرہواُس کسی کاایک بیٹااورایک دامادبیرون ملک مفرورہوایسے کسی
کی ضمانت پرایسے کسی کوجس کے دوبیٹے عدالتی اشتہاری،بیرون ملک مفرورہیں
پچاس روپے کے اشٹام پربیرون ملک جانے کی اجازت دینا یقیناکسی طاقتورقانون
کاہی کام ہوسکتاہے،ہواکے رخ بدلتے ہی سیاسی پرندے ہواکے رخ کے ساتھ ایک سے
دوسری چھتری پراُڑان بھرنے لگتے ہیں،اگلی چھتری یقیناگجراتی ہوگی،غلامی
پسندعوام طاقتورہواکے بدلتے رخ کے ساتھ گرد بن کر محوسفر ہوجاتے ہیں کبھی
بغاوت نہیں کرتے،ناانصافیوں کے ذمہ داران کاگربیان پکڑنے کے قابل نہیں
ہوپاتے
اعتبار نظر کریں کیسے
ہم ہوا میں بسر کریں کیسے
تیرے غم کے ہزار پہلو ہیں
بات ہم مختصر کریں کیسے
رخ ہوا کا بدلتا رہتا ہے
گرد بن کر سفر کریں کیسے
(باقی صدیقی)
|