سعودی آرامکو کے شیئرز کے خریدار اور مملکت کی معیشت پر اثرات

سعودی عرب کی امیرترین شخصیات ’’ آرامکو ‘‘کے شیئرز خریدنے کی دوڑ میں شمولیت سے ترجیح دے رہے ہیں ۔ابو ظہبی حکومت نے آرامکو کے حصص میں 1.5بلین ریال کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ابو ظہبی سرمایہ کاری کے ادارے کے حکام کے مطابق ابوظہبی حکومت سمیت بڑے سرمایہ کار مجموعی طور پر 1.5بلین مالیت کے شیئرز خریدیں گے۔آرامکو عہدیداروں کے مطابق فی الحال صرف سعودی مارکیٹ میں آرامکو کے حصص کی فروخت جاری ہے تاہم خلیجی ریاست کے شہری بھی حصص خریدنے کے اہل ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کے امیرترین گھرانوں نے آرامکو کے شیئرز میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتاہے شہزادہ ولید بن طلال بھی آرامکو شیئرز ہولڈرس میں شامل ہوگئے ہیں۔ اردو نیوز کے مطابق بتایا جاتا ہے الولید بن طلال ، العلیان کا خاندان اور پٹرول کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرنے والے مالدار سعودی آرامکو کے شیئرز خرید رہے ہیں۔ امریکی خبررساں ادارے بلومبرگ کے حوالے بتایا جاتا ہے العلیان فیملی جو سوئس بینک، کریڈیٹ سوئس، میں بڑے حصے کی مالک بتائی جاتی ہے ، لاکھوں ڈالرز کے آرامکو حصص خریدنے جارہی ہے۔ آرامکو کے نمائندوں نے المجدوعی خاندان سے بھی شیئرز کے سودے سے متعلق رابطہ کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق المجدوعی فیملی مختلف شعبوں میں سرمایہ لگائے ہوئے ہے۔سعودی آرامکو کے حصص کی قیمت کا تخمینہ دو ٹریلین ڈالر بتایا جاتاہے ، واضح رہے کہ آرامکو شیئرز آپریشنز کے ذمہ دار سامبا کیپٹل کے مطابق پہلے پانچ دنوں میں سعودی آرامکو کے 73ارب ریال مالیت کے شیئرز خریدے گئے ۔ سامبا کیپٹل کی مجلس عاملہ کی ڈپٹی چیئرپرسن رانیا نشار کے مطابق سعودی حصص مارکیٹ آرامکو شیئرز کے اندراج کے بعد دنیا کی دسویں بڑی مارکیٹ بن جائے گی۔ الاقصادیہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ آرامکو کی مارکیٹ قیمت 1.6ٹریلین ڈالر سے لے کر 1.71ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ اعداد و شمار شیئرز مارکیٹ کے اعداد و شمار اور سعودی آرامکو کے شیئرز کے جاری کردہ نرخ کی بنیاد پر تیار کئے گئے ہیں۔ سعودی آرامکو کے شیئرز کی کل تعداد دو سو ارب بتائی جارہی ہے ۔ ایک حصص کی قیمت تیس سے بتیس ریال مقرر کی گئی ہے۔

موت کو دعوت دینے والی گاڑی کا شوق اور اسکی قیمت۰۰۰؟
دنیا میں کئی ایجادات ایسی ہوتی ہیں جس کیلئے انسان کے دماغوں پر غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں اور وہ اس چیز کو انمول سمجھ کر پیسہ کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور آخر کار وہ اسے حاصل بھی کرلیتاہے۔ گذشتہ دنوں ایسے ہی واقعات سعودی عرب میں پیش آئے ۔ مملکت سعودی عربیہ کے دارالحکومت ریاض میں ریاژ سیزن کے تحت گاڑیوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا جہاں پر ایک منفرد کار 2030جسے مستقبل کی گاڑی کا نام دیا گیا تھا 32لاکھ ریال میں فروخت کی گئی۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق مستقبل کی کار کی نیلامی کی گئی تو سب سے زیادہ بولی لگانے والے نے 32لاکھ چار ہزار پانچ سو ریال میں کار اپنے نام کرلی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ کار ریاض سیزن کے موقع پر بطور خاص تیار کی گئی۔ اس کار کے سلسلہ میں بتایا جاتاہے کہ یہ دنیا میں صرف ایک ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں اس ماڈل کی کوئی اور کار نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہیکہ اس پُر آسائش کار کو 2030کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سعودی محکمہ تفریحات کے سربراہ ترکی آل الشیخ نے ٹویٹ کی کہ ’’بک کرلو‘ ‘ یہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی کار ہے۔ اسپورٹس کار 2030دو برقی انجنوں سے آراستہ ہے ۔ یہ ساڑھے تین سیکنڈ میں 100کلو میٹر کی اسپیڈ سے چلنے لگتی ہے۔ گاڑی کے انجن 376کلو واٹ پاور کے ہیں۔ گاڑی کا وزن 19سو کلو گرام ہے۔ یہ ایک بار چار ج کرنے پر 365کلو میٹر کی مسافت طے کرسکتی ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہیکہ اتنی قیمتی اور پھر صرف ساڑھے تین سکنڈ میں 100کلو میٹرکی اسپیڈ سے چلنے والی کار خریدنا عقل مندی ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے ۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدات
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان چار مفاہمتی یادداشتوں اور سات اسٹراٹیجک (دفاعی) فارمولوں پرسعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ابو ظبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید ال نہیان کی موجودگی میں دستخط کئیگئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی ولیعہد محمد بن سلمان 27؍ نومبر کو متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر ابو ظبی پہنچے ،اس موقع پر انکا خیرمقدم ابو ظبی کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے ایئر پورٹ پہنچ کرکیا اورپھر سرکاری استقبال ابوظبی کے سرکاری قصر الوطن میں کیا گیا۔ دونوں ممالک کے شہزادے محمد بن سلمان اور شیخ محمد بن زاید اپنے اپنے وفد کی قیادت کی۔ سعودی اماراتی رابطہ کونسل کے دوسرے اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، ترقیاتی، عسکری اور علوم و معارف کے شعبوں میں مکمل تعاون مؤثر شکل میں آگے بڑھانے کی کوششوں کے ماحول میں منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ابو ظبی کے ولیعہد اور اماراتی مسلح افواج کے نائب سربراہ اعلیٰ شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے ساتھ اسٹراٹیجک تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نے خادم الحرمین الشریفین کی ہدایات پر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے ابو ظبی پہنچے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آمد پر متحدہ عرب امارات میں موجود دنیا کے سب سے اونچے ٹاور برج الخلیفہ کو سعودی عرب کے قومی پرچم سے آراستہ کیا گیا تھا۔ برج الخلیفہ کو 2010میں عوام کیلئلے گھولا گیا یہ ٹاور دبئی کے مشہور مقامات میں ایک ہے اور اسے عام طور پر مختلف اہم مواقع پر روشن کیا جاتا ہے۔

ایک اور کار کی قیمت 30لاکھ ریال
30لاکھ ریال کی اہمیت شاید بعض دولت مندوں کے پاس کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہاں قارئین اس خبر کے پڑھنے کے بعد محسوس کریں گے کہ دنیا میں کیسے کیسے لوگ ہیں جو اپنی دولت کا استعمال ایسے چیزوں میں کرکے بھی خوش ہوتے ہیں جسے پاگل پن ہی کہا جاسکتا ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں ایک سعودی شہر کی دیکھتے ہی دیکھتے قسمت جاگ اٹھے۔ بتایا جاتا ہے کہ آگ سے تباہ ہونے والی پرانی کار 30لاکھ ریال میں نیلام ہوگئی۔ امریکی کارساز کمپنی نے 1961ء میں یہ گاڑی بنیادی طور پر ایک بڑے کلائنٹ کیلئے تیار کی تھی جس میں ریسنگ کار کا انجن لگا ہوا ہے۔یہ کار اب ایک دوسرے سعودی شہری کی ملکیت ہے اور اسے ان دنوں وہ دارالحکومت ریاض میں ریاض سیزن کے موٹر شو میں رکھا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نایاب گاڑیوں کے شائقین اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ گاڑی کے موجودہ سعودی مالک نے اسے امریکی نیلام گھر سے 30لاکھ ریال میں خریدا ہے۔آگ سے گاڑی کو بھاری نقصان پہنچا تھا ، موٹر کا بکس جلا ہوا بتا یا جاتا ہے اور رنگ بھی جگہ جگہ سے اڑگیا ہے۔30لاکھ ریال میں خریدنے والے سعودی شہری سے قبل ایک اور سعودی شہری کی یہ کار ملکیت تھی۔ اس نے آگ لگنے سے گاڑی کے برباد یا غیر مستعمل ہونے پر یہ طے کرلیا تھا کہ اسے پرانی گاڑیوں کے مرکز (التشلیح) کے حوالے کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرلے گا۔ التشلیح سعودی عرب میں ایسے مقام کو کہتے ہیں جہاں ناکارہ گاڑیاں تول کر فروخت کی جاتی ہیں۔ خریدار قابل استعمال پرزے اور دیگر سامان نکال کر فروخت کرتے ہیں۔ سعودی شہری نے گاڑی کو تشلیح کے حوالے کرنے کا ارادہ ترک کردیا اور اسے امریکہ کے بین الاقوامی نیلام گھر میں نیلام کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیلامی کے دوران اسے اس بات کا احساس ہوا کہ آگ سے برباد ہونے والی گاڑی کتنی قیمتی اور نایاب ترین گاڑیوں میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں اس ماڈل کی صرف 34گاڑیاں موجود ہیں۔اور پھر یہاں اس کی قسمت جاگ گئی یعنی 30لاکھ ریال میں یہ گاڑی فروخت ہوگئی ۔اب ہوسکتا ہے کہ موجودہ سعودی شہری اس تباہ شدہ کار کو کمپنی میں واپس لے جاکر دوبارہ اسے اصلی حالت میں لانے کے لئے کوشش کرے۔ جبکہ اس گاڑی کے ایک حصہ پر ’’تالفہ‘‘ لکھا ہے جس کے معنی ہیں کہ یہ گاڑی ناکارہ ہوچکی ہے۔ اس طرح پیسوں کا بے دریغ استعمال کرنے والوں کے خلاف گذشتہ سال امام و خطیب مکہ مکرمہ شیخ صالح الطالب نے حرم مکہ میں خطبہ جمعہ میں متنبی کرتے ہوئے فضول خرچی سے بچنے کی تلقین کی تھی اور انہوں نے سعودی ویژن کے تحت ملک بھر میں کنسر پروگرام، سیمنا بینی کے اڈوں کی اجازت اور دیگر کئی بے شرمی و بے حیائی اور فحش کاری کے خلاف حق بات کرتے ہوئے حکومتوں کو جھنجوڑا تھا۔ جس کے بعد ذرائع ابلاغ کے مطابق انہیں حراست میں لے لیا گیا اور نہیں معلوم ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا گیا۔

سعودآئزیشن کے متاثرین
شاہی حکومت مملکت میں سعودآئزیشن کے ذریعہ ملک کے نوجوانوں کو روزگار سے مربوط کرکے معاشی ترقی و خوشحالی لاناچاہتی ہے ۔لیکن دوسری جانب سعودی عرب میں مقیم کئی ممالک خصوصاً ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکین وطن بے روزگار ہورہے ہیں اور وہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے اپنے بندوں کے لئے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزارت محنت و سماجی بہبود صنعتی ادارں کی 36ہزارجائیدادوں پر غیر ملکیوں کی جگہ سعودی شہریوں کو روزگار سے مربوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت محنت نے اس پر عمل در آمد کرنے کے لئے پانچ متعلقہ ادارے جن میں وزارت صنعت و معدنیات، تکنیکی و پیشہ وارانہ ریننگ کے اعلیٰ ادارے، فروغ افرادی قوت فنڈ (ہدف) اور سعودی ایوان ہائے صنعت و تجارت کونسل کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں۔

اب وزارت محنت کے مطابق صنعتی اداروں میں سعودائزیشن کی شرح سے متعلق ماہانہ رپورٹس جاری کی جائیں گی۔ سہ ماہی رپورٹوں میں کارکردگی کو اجاگر کرنے اور مقررہ اہداف کے حصول کی راہ میں حائل رکاووں کی نشاندہی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ان کے محرکات بھی بیان کئے جائیں گے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ گذشتہ تین سال کے دوران 12لاکھ غیر ملکی سعودی لیبر مارکیٹ سے نکالے جاچکے ہیں جبکہ لیبر مارکیٹ میں ابھی بھی 70لاکھ غیر ملکی روزگار سے منسلک بتائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بتایا جاتا ہے کہ روزگار کے سلسلہ میں سعودیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔سعودی عرب کا روزنامہ المدینہ کی رپورٹ کے مطابق بتایا جاتاہے کہ سعودائزیشن کی حکومتی پالیسی اور غیر ملکیوں پر عائد ہونے والی فیسوں کی وجہ سے 2016سے 2019کے درمیان 12لاکھ سے زائد غیر ملکی سعودی عرب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سعودی مارکیٹ میں 80فیصد غیر ملکی ہیں جن کے نکل جانے سے ان کی جگہ سعودیوں کو لینا چاہئے تھا لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا ۔ لیبر مارکیٹ میں اس وقت صرف 19لاکھ سعودی کام کررہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ رپورٹ تیار کرنے والے ادارے ’’ٹامسن رائٹرز‘‘ کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ غیر ملکیوں کی جگہ سعودی شہریوں کو بھرتی کرنے سے کترارہا ہے ۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ وزارت محنت کی جانب سے جو نئی پالیسی اختیار کی گئی ہے اس سے کس طرح کے اثرات مرتب ہونگے اور مزید کتنے تارکین وطن اپنے اپنے ملک واپس ہونگے کیونکہ اقاموں اور لیبر کارڈ و دیگر فیسوں میں بے تحاشہ اضافے نے تارکین وطنوں کو اپنے ملک واپس ہونے پر مجبور کردیا ہے۔

پاکستانی فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع
پاکستانی سپریم کورٹ نے پاکستانی فوجی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست کو از خود نوٹس میں بدلنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا تین روزہ سماعت کے بعد جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے حوالے سے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا۔ اس معاملہ کی سماعت چیف جسٹس پریم کورٹ آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔سپریم کورٹ کی جانب سے قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت ملنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آج ان لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی ہوگی جو اداروں میں تصادم چاہتے ہیں۔پاکستان آن لائن کے مطابق انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ آج ہمارے بیرونی دشمنوں اور اندرونی مافیا کے لئے برُا دن ہے ، ان لوگوں کیلئے مایوسی کا دن ہے جو چاہتے ہیں کہ ملک عدم استحکام اور اداروں میں تصادم کا شکار ہو۔

عراق میں عوامی احتجاج اور ہلاکتیں
عراق میں عوامی احتجاج کا آغاز اکٹوبر میں ہوا۔ بغداد اور جنوبی عراق میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب تک 330سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ بتایاجاتا ہیکہ 2003ء میں صدام حسین حکومت کے خاتمے کے بعد ہونیو الے یہ سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مظاہرین سیکوریٹی فورسز سے ام قصربندرگاہ کی طرف جانے والی سڑکیں کھولنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس طرف جانے سے روکنے کے لئے سڑکیں بند کررکھی تھیں۔ عراق ام قصر پورٹ کے ذریعہ تیل برآمد اور غذائی اجناس کو درآمد کرتا ہے ۔ احتجاج کے باوجود بندرگاہ پر معمول کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی شہر نجف، بصرہ، اور دوسرے علاقوں میں بھی مظاہرین نے متعدد شاہراہوں اور پلوں کو بند کررکھا۔ عراق کے حالات فی الحال بہتر ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210455 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.