بھارت میں عام انتخابات کے نتائج دیکھ کرہی سیاسی مبصرین
اوربالخصوص مودی کے ناقدین نے اپنے شدیدخدشات کااظہار کردیاتھا کہ اب بھارت
کی سیاسی ثقافت مکمل طورپرتبدیل ہو جائے گی۔مودی دوسری باروزیراعظم منتخب
ہونے اوران کے پہلے دورِحکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے میں نے تحریرکیاتھا
کہ اب بھارت کے مسلمانوں کیلئے بھی مسائل بڑھ جائیں گے اورمیرے خدشات
صدفیصددرست ثابت ہوئے اورمودی کے دوسری باروزیراعظم بننے پربھارتی مسلمانوں
میں بجاطورپرخوف میں اضافہ ہواہے۔ دوسری بار کامیابی نے بی جے پی کے
کارکنوں اور قیادت کی طرزِ فکر وعمل میں مسلمانوں کے حوالے سے مزیدسختی
پیداکردی ہے۔پہلے دورِحکومت میں بھی بھارتیہ جنتاپارٹی نے مسلمانوں کیلئے
غیر لچک داررویہ اپنایاتھا۔ انتہا پسندی عروج پرتھی ۔ نئی دہلی کے نواح میں
گڑگاوں کے علاقے میں مقامی کونسل کے سربراہ شہزادخان کہتے ہیں کہ بھارت میں
مسلمان محفوظ نہیں۔مسائل بڑھ گئے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کم وبیش
21کروڑہے۔اتنی بڑی اقلیت ہونے کے باوجودانہیں مسائل کاسامنا ہے۔بھارتیہ
جنتا پارٹی کے دوبارہ اقتدارمیں آنے پربھارتی مسلمان خودکومزیدالگ تھلگ
محسوس کررہے ہیں۔ان کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ
جو کچھ پچھلے دورمیں ہوااب اس سے زیادہ ہوگا اوربابری مسجدکے فیصلے نے شکوک
کویقین میں تبدیل کردیاہے۔
حالیہ انتخابات کے حوالے سے جومہم چلائی گئی تھی وہ کئی حوالوں سے انتہائی
نوعیت کی تھی۔ایک طرف توآسام میں بسنے والے بنگالی مسلمانوں کو بنگلا دیشی
قراردیکرانہیں ملک سے نکالنے پرزوردیاگیااوردوسری طرف گاندھی کوقتل کرنے
والے نتھورام گوڈسے کوحقیقی محب وطن قراردینے کی بھرپور کوشش کی
گئی۔نتھورام گوڈسے نے گاندھی کواس لیے قتل کیا تھاکہ اس کے خیال میں وہ
مسلمانوں کے مطالبات کوکچھ زیادہ اہمیت دے رہے تھے اوران کی طرف جھک گئے
تھے۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہرپیداکرنے کی
بھرپورکوشش سے بھارتیاجنتاپارٹی نے کسی بھی مرحلے پرگریز نہیں کیا۔اس کے
باوجود قوم نے بی جے پی کوپسندکیااور27کروڑووٹروں نے بی جے پی کومینڈیٹ سے
نوازاجو ایک نیا ریکارڈ ہے اوریقینا وزیراعظم عمران خان کی بھارتی پائلٹ کی
غیرمشروط رہائی نے بھی کلیدی کرداراداکیا۔
آج کے بھارت میں مسلمانوں کیلئے اٹھ کھڑے ہونے والے مسائل سے متعلق کتاب کی
مصنفہ نازیہ ارم کہتی ہیں پانچ سال قبل جب بی جے پی نے ووٹ مانگے تھے تب اس
کے سامنے ترقی کاایجنڈاتھا۔اِس نکتے پرزوردیاگیاتھاکہ بھارت کونئی زندگی
بخشی جائے گی۔ قوم کویقین دلایاگیاتھاکہ ترقی کانیادورشروع ہو گا،جس کے
نتیجے میں عوام کوبھرپورزندگی بسرکرنے کاموقع ملے گا۔ہمیں یقین تھاکہ پانچ
سال قبل بی جے پی نے اقتدارملنے کے بعدجوکچھ کیاتھااس کی روشنی میں اِس
بارقوم غلطی نہیں کرے گی،یعنی حساب مانگے گی اور ووٹ کے ذریعے فیصلہ سنائے
گی مگرافسوس کہ ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔ہم غلطی پرتھے
اِس حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ بھارت میں واضح ہندواکثریت اورمسلم
اقلیت کے درمیان کشیدگی رہی ہے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے اندرونی
اختلافات بھی کم نہیں رہے مگرپھریہ انتہائی افسوسناک امریہ ہے کہ بی جے پی
کے گزشتہ دورمیں گائے کی حفاظت کے نام پر میدان میں نکلنے والے انتہاپسندوں
کے ہاتھوں ملک بھرمیں مسلمانوں پرڈھائے جانے والے بہیمانہ تشددمیں اضافہ
ہواہے۔گزشتہ دورمیں گائے کی حفاظت کاذمہ لینے والے انتہاپسند ہندووں کے
ہاتھوں45 مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گڑ گاؤں میں دوسرے علاقوں سے آنے
والے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔یہ لوگ مقامی فیکٹریزمیں
ہندووں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔گڑگاوں صنعتی علاقہ ہے جس میں آئی ٹی کی بہت
سی کمپنیاںبھی کام کرتی ہیں۔اس علاقے میں مسلمانوں کیلئے نمازپڑھنے کی جگہ
بھی کم پڑتی جارہی ہے۔مساجدمیں زیادہ گنجائش نہیں،جس کے باعث مسلمان سڑکوں
پریاکھلے مقامات پرنمازاداکرتے ہیں۔اس پربہت سے ہندوؤں کواعتراض
ہے۔مسلمانوں کونئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی۔کھلے
مقامات پرنمازادا کرنے کے خلاف مہم چلانے والے ہندوقوم پرست گروپ کے سربراہ
راجیومتل کاکہناہے کہ ہماری مہم دراصل ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں کے مطابق
ہے۔ہم اس بات کے خلاف نہیں کہ مسلمان نمازپڑھیں۔ ہمارازوراس بات پرہے کہ وہ
مساجدمیں یا پھرنماز کیلئے مختص دیگرمقامات ہی پرنمازاداکریں۔
بی جے پی کے بہت سے کارکن اورقائدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حال ہی میں ختم
ہونے والے مودی کے پہلے دورِوزارتِ عظمی کے دوران ہندومسلم فسادات کی
تعدادنہ ہونے کے برابر رہی ۔ان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے
نفرت کی لہر نہیں پائی جاتی۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی بہت سی
تنظیموں اورگروپس کی رائے بالکل اس کے خلاف ہے۔ان کاکہنا ہے کہ بی جے پی کے
پچھلے دورِحکومت میں مسلمانوں کونشانے پررکھنے کی روش پروان چڑھائی گئی
اوران کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ ہوا۔مودی کے گزشتہ دورِحکومت میں مجموعی
طور پرفضاایسی رہی کہ مسلم مخالف جذبات کو کھل کرپنپنے کاموقع ملااور اِس
حقیقت سے کوئی انکارنہیں کرسکتاکہ مسلمان خودکوپہلے سے زیادہ غیرمحفوظ تصور
کرتے ہیں۔ انتہا پسند ہندواب بہت کھل کرسامنے آچکے ہیں۔وہ اپنے ارادوں
کوعملی جامہ پہنانے میں ذرابھی باک محسوس نہیں کرتے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ساوتھ ایشین ڈائریکٹرمیناکشی گنگولی کہتی ہیں فسادات سے
زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اب کسی بھی وقت کسی بھی مسلمان کونشانہ بنایا
جاسکتاہے۔سبزی بیچنے والے مسلمانوں کوبھی گھیرکرتشددکانشانہ بنایاجاتاہے۔
بہت سے مسلمان گھرسے کھانالیکرنکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں گائے کا
گوشت چیک کرنے کے نام پرتلاشی لینے کے عمل میں انہیں تشددکانشانہ نہ
بنایاجائے۔انتہاپسندہندویہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں کسی بھی معاملے میں
اختلافی آواز اٹھانے کاپوراحق ہے اوراس معاملے میں وہ تشددکی راہ پر گامزن
ہونے سے ذرابھی گریزنہیں کرتے۔ دوسری طرف مسلمانوں اوردیگراقلیتوں
کوپورایقین ہے کہ اگرانہیں تشددکا نشانہ بنایاجائے گاتوریاست کسی بھی مرحلے
پرمداخلت نہیں کرے گی۔
حالیہ انتخابی مہم نظریاتی اعتبارسے غیرمعمولی تھی۔کانگریس کے ششی تھرو کے
مطابق یہ بھارت کیلئے نظریاتی اورروحانی شناخت کامعاملہ تھا۔ان کا استدلال
ہے کہ بی جے پی نے بھارت کی نظریاتی شناخت کوانتہائی مسخ کر دیا ہے۔مودی کے
پہلے دورِحکومت میں جوکچھ ہوا،اس کے مقابلے میں اب بہت زیادہ ہوگیاہے۔بہت
جلدبھارت آبادی کے حوالے سے دنیاکا سب سے بڑاملک ہوگااورایسے میں
انتہاپسندی کاجن پوری طرح بوتل سے باہر آئے گااورخرابیاں قابوسے
باہرہوجائیں گی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہروکے دورمیں
بھارتی قوم پرستی جس نوعیت کی تھی وہ اب کہیں دکھائی نہیں دیتی۔تب قومی سوچ
غالب تھی،جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے پنپنے کی گنجائش تھی
اورلوگ تمام باتیں بھول کربھارت کا سوچتے تھے۔بی جے پی نے ہندوانتہاپسندی
کواس قدرپروان چڑھایاہے کہ اب بھارت کاسیکولرازم داؤپر لگ چکاہے اوربھارت
کے ہندوریاست ہونے کابھرپورتاثرابھرکرسامنے آچکاہے۔
نہرومجموعی طورپراس بات کے حق میں تھے کہ بھارت میں تمام مذاہب کے لوگ مل
کررہیں اورملک کی بہبودکیلئے کام کریں۔دوسری طرف ونایک ساورکر تھے جواگرچہ
ملحدتھے مگر ہزاروں سال سے اس خطے میں بسے ہوئے ہندووں کوملک کی سب سے بڑی
حقیقت کے طورپرتسلیم کرانے کے حق میں تھے اور ان کے نظریے کی روشنی میں
بھارت میں صرف ہندووں کیلئے گنجائش تھی،مسلمانوں کیلئے ذرابھی گنجائش نہ
تھی۔ساورکرکے نظریے کے مطابق صرف ہندووں کوبھارت کی سرزمین پررہنے کاحق
تھااوراس کاسبب یہ تھا کہ ان کے دیوی دیوتاؤں،رسوم ورواج اورثقافت کاتعلق
بھارتی سرزمین سے تھا۔دوسری طرف مسلم اورمسیحی ان کی نظرمیں بھارت میں رہنے
کے حق دارنہ تھے کیونکہ ان کی مقدس سرزمین عرب تھی یاپھرفلسطین اوریہ کہ ان
کے خدا کی سرزمین بھی بھارت نہ تھی۔
کون ہندوستانی ہے اورکون نہیں،اس حوالے سے ہندووں میں بھی اختلاف
پایاجاتاہے۔ساورکرکی نظرمیں صرف ہندووں کو ہندوستان میں رہنے کاحق
تھا۔انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ ہرہندوکوعسکری تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ان کے
نظریات کے مطابق معرض وجود میں آنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی
سوچ میں اب تھوڑی بہت تبدیلی واقع ہوچکی ہے ۔اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے
بہت سے اذہان کاکہناہے کہ مسلمانوں اورمسیحیوں کونظراندازکرکے بھارت کو
مکمل تصور نہیں کیاجاسکتا۔ان کی نظرمیں مسلمان اورمسیحی بھی اپنے مذہب کے
ساتھ ملک کالازمی حصہ ہیں اورانہیں تسلیم کیاجانا چاہیے۔
انتہاپسنداوربنیادپرست ہندووں کادعوی ہے کہ نہرونے سیکولرازم کی بات صرف اس
لیے کی تھی کہ مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ان کے خیال
میں مسلمانوں کوشرعی اصولوں کے مطابق شادی کی اجازت دیکریاکشمیریوں کیلئے
زیادہ خودمختاری کااعلان کرکے صرف ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں،بھارت کی حقیقی
خدمت نہیں کی جا سکتی۔آج بھارتی معاشرہ مکمل طورپرتبدیل ہوچکاہے۔نہرونے
ہندوقوم پرستی کی شکل میں ابھرنے والی انتہاپسندی کوکچلنے کیلئے آرایس ایس
پرپابندی سمیت بہت سے اقدامات کیے۔یہ تمام اقدامات اب کچراکنڈی کی نذرہوچکے
ہیں۔آج کے بھارت میں سیکولرازم کے پنپنے کی گنجائش برائے نام دکھائی دے رہی
ہے۔مجموعی سوچ انتہاپسندی کی ہوچکی ہے ۔ بی جے پی اس سوچ کومزید پروان
چڑھانے پرتلی ہوئی ہے۔
ایک زمانہ تھاکہ کبھی کبھی کوئی ہندومسلم فسادہوجاتاتھا۔اب یہ سب کچھ یومیہ
بنیادپرہورہاہے۔تعلیمی اداروں میں جہاں جہاں ہندواکثریت ہے وہاں مسلم
اوردیگر غیرمسلم طلبہ کو واضح طورپرامتیازی سلوک کاسامناکرناپڑتاہے،انہیں
تشددکا نشانہ بنایاجاتاہے اورپوری کوشش کی جاتی ہے کہ وہ دب کررہیں،ان کی
شخصیت مسخ ہوجائے۔نازیہ ارم نے اپنی کتاب کی تیاری کیلئے درجنوں طلبہ اوران
کے والدین سے گفتگوکی۔انہیں بتایاگیاکہ تعلیمی اداروں کوانتہاپسندوں نے
خصوصی طور پرنشانہ بنایاہے۔بھرپورکوشش کی گئی ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے
والے طلبہ بہتراندازسے تعلیم مکمل نہ کرسکیں اوران میں مجموعی طورپرخوف کا
ماحول برقراررہے۔اعلی درجے کے تعلیمی اداروں میں بھی یہی ماحول پنپ رہاہے۔
ایک دورتھاکہ کسی بھی معاملے پرہندو مسلم فسادہوتاتھاتوکچھ دن بعدمعاملات
معمول پرآجاتے تھے اورسب پھرمل جل کر رہنے لگتے تھے۔اب ایسانہیں ہے۔اب
مسلمانوں میں الگ تھلگ رہنے کارجحان خطرناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ وہ
ہندووں سے واضح طورپرالگ رہنے پر مجبور ہیں۔نازیہ ارم کاکہناہے کہ
الیکٹرانک چینل اورسوشل میڈیانے معاملات کو انتہائی بگاڑدیاہے۔سوشل
میڈیاپرہروقت کوئی نہ کوئی اِشوزندہ رکھاجاتاہے۔پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ہم
آہنگی کی فضاکسی بھی طورپیداہی نہ ہو۔اختلافی امورکوہوادی جاتی ہے۔ملک کے
بارے میں عمومی تاثریہ ہے کہ یہاں توہمیشہ کشیدگی ہی برقراررہتی ہے۔نازیہ
کہتی ہیں کہ بھارت میں بہت کچھ خطرناک حدتک بدل چکاہے۔کل تک لوگ ساتھ رہتے
تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے بھی تھے۔اب ایسانہیں ہے۔اب صرف شکوک ہیں،نفرت
ہے اورکشیدگی ہے۔
ستم ظریفی تویہ ہے کہ تقسیم ہندکے بعدجب پاکستان سکھوں کی مذہبی زادی
کااحترام کرتے ہوئے کرتارپورراہداری کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے دنیابھرکی
سکھ برادری کادل جیت رہے تھے،عین اسی دن بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجدکا
فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مذہب کے استعارہ
”بابری مسجد”کاہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے عالمی طورپراپنے منہ
پرکالک ملنے کابھرپورمظاہرہ کیاجس پرخودبھارت کے مسلمانوں میں شدیدبے چینی
پیداہو گئی ہے اورمسلمان رہنماء اسدالدین اویسی سمیت بے شماردیگرمسلمان
رہنماء چیخ اٹھے ہیں۔یقیناًآج انہیں دوقومی نظریہ کی حقانیت کا ضرورپتہ چل
گیاہے کہ سفاک مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کامستقبل کیا ہے ؟
|