برطانیہ نے 1947 میں یہودیوں کو مضبوط بناکر مسئلہ فلسطین
یہودیوں اور عربوں پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسے چاہیں نمٹا لیں جبکہ یہ پیدا
کردہ ہی برطانیہ کا تھا، اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین اس کے قیام کے فوراً
بعد لایا گیا لیکن آج تک لٹکا ہوا ہے، اس کے حل کے لیے 29 نومبر 1947 کو
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے روس و امریکہ کی فلسطین کو تین حصوں میں
تقسیم کرنے کی تجویز کو دو تہائی اکثریت سے قرارداد نمبر 181 کے تحت منظور
کرلیا جسے عربوں نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوے ناجائز قرار دیا، اس قرار
داد کے بعد برطانوی فوجوں کی واپسی شروع ہوئی تو عربوں اور یہود میں مسلح
تصادم شروع ہوگئے، یہود جوکہ دوسری جنگ عظیم میں موقع سے فائدہ اٹھا کر
مکمل طور پر مسلح ہوچکے تھے جبکہ عرب مفتی امین الحسینی کی عدم مزاحمتی
پالیسی کی وجہ سے کمزور ہوچکے تھے اس لیے یہود کے سامنے عرب زیادہ دیر تک
نہ ٹھہر سکے اور اس دوران اپنے اکثریتی علاقوں میں یہودیوں نے عرب اقلیت پر
انتہائی مظالم ڈھائے جس کے باعث عرب ہجرت کرنے پہ مجبور ہوگئے جن کی تعداد
جلد ہی لاکھوں تک پہنچ گئی، اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر یہودیوں نے 14 اور
15 مئی 1948 کی درمیانی شب تل ابیب میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان
کردیا، قرارداد نمبر 181 کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنا قرار
پایا تھا جس میں تقریباً ساڑھے چار ہزار مربع کلومیٹر عربوں کا جبکہ تقریباً
ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر یہودیوں اور یروشلم و گردونواح پہ مشتمل 279
مربع میل کا علاقہ اقوام متحدہ کے ماتحت رہنا قرار پایا تھا لیکن صہیونیوں
کے وسعت پسندانہ عزائم اور جارحیت تھم نہ سکی جو آج بھی جاری ہے، جیسا کہ
اسرائیل کی پارلیمنٹ کے باہر یہ الفاظ کندہ ہیں ''اے اسرائیل تیری سرحدیں
نیل سے فرات تک ہیں'' اس ماٹو پہ اہل یہود پوری طرح عمل پیرا ہیں اور دیگر
عرب ملکوں کا بہت سا علاقہ ہتھیا کر آج اسرائیل اپنے قیام کے وجود سے چار
گنا بڑھ گیا ہے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر قیام ہونے
والا اسرائیل آج تقریباً تیس ہزار مربع کلومیٹر پر قابض ہے، اسرائیل کا
قیام تو اسی دن ہوگیا تھا جب عربوں نے پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کے خلاف
برطانیہ و اسکے اتحادیوں کی مدد کی اور جنرل ایلن بی نے عربوں ہی کی مدد سے
1917 میں فلسطین کو فتح کیا اور اپنی صلیبی کڑواہٹ انڈیلتے ہوے صلاح الدین
ایوبی کی روح کو للکار کہا کہ ''لو صلاح الدین ہم پھر واپس آگئے'' اور
برطانیہ نے انعام کے طور پر عربوں کو اعلان بالفور کے زریعے نومبر 1917 میں
اسرائیل کے قیام کا اظہار کیا اور 1920 میں ہربرٹ سیموئیل کو فلسطین کا
کمشنر لگادیا گیا جوکہ نہ صرف یہودی بلکہ سرگرم صہیونی رہنما تھا، 1887 میں
یہودیوں نے طے کیا تھا کہ فلسطین کو یہودی ریاست بنایا جائیگا اس مقصد کے
لیے ایک تنظیم بنائی گئی جسکا نام ایک پہاڑی صہیون کی نسبت سے صہیون رکھا
گیا جس سے ساری دنیا کے یہودیوں کو منسلک کیا جانا طے پایا تھا، اس کے بعد
منصوبہ بندی کے ساتھ یہودیوں نے فلسطین میں آباد ہونا شروع کیا تو 1903 تک
ان کی تعداد 35000 کے لگ بھگ تھی جو 1920 تک ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور
ہربرٹ سیموئیل کی تعیناتی کے بعد یہودیوں کے غول کے غول فلسطین میں آنے لگے
اور دس سال کے قلیل عرصے میں یہودیوں کی تعداد میں دو سو گنا اضافہ ہوچکا
تھا، اس دوران فلسطینی عربوں پہ بے پناہ ظلم ڈھائے جاتے رہے، فلسطین دنیا
کا بدنصیب ترین علاقہ ہے جو جنگ عظیم اول سے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی
سامراجیت کا سب سے زیادہ شکار ہوا، جغرافیائی، تاریخی و تمدنی اعتبار سے یہ
شام کا علاقہ تھا لیکن جب 1920 میں عرب ملکوں کی تقسیم کی گئی تو پہلے سے
طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطین کو شام سے علیحدہ کردیا جس کا بھانڈا اشراکیت
پسند پھوڑ چکے تھے اور 1922 میں لیگ آف نیشن نے اس خطے پر برطانوی تسلط کو
منظور کرلیا پھر یہودیوں کو لا کر بسانا شروع کردیا گیا بظاہر یہ ایک یہودی
سائنسدان ویزمین کی ایماء پر ہورہا تھا جس نے برطانوی بحریہ کو مضبوط کیا
تھا لیکن اصل میں یہ صلیبی کڑواہٹ تھی جو اہل صلیب کے دلوں میں بذریعہ اتم
موجود تھی اور ہے یہودیوں کی آبادکاری کے بعد فلسطینیوں کا استحصال شروع
ہوا، طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے، فلسطینیوں کو جانی و مالی و معاشرتی طور پر
مارا جاتا رہا، عربوں اور یہود کے مابین متعدد بار جنگیں ہوئیں جس میں
فرانس، برطانیہ و امریکہ نے کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کرتے رہے، فلسطینی
ظلم کی چکی میں پستے رہے اور بے بسی و بے کسی کے احساس میں ڈوب گئے لیکن
کسی نے اصلاً فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم نہ رکھا جس کی وجہ یہود کی دولت
اور مغربی طاقتوں کی طاقت ہے نتیجتاً عربوں کی بے کسی و بے بسی مایوسی کی
شکل اختیار کرگئی تو ان طاقتوں نے اسے دہشتگردی قرار دیدیا جبکہ اسرائیل کے
ظلم و ستم پر کسی کو اعتراض نہیں اس ضمن میں ہزاروں رپورٹیں، پیپرز، ثبوت
موجود ہیں لیکن کون ہے جو فلسطینیوں کی بیبسی کا احساس کرے، لیبیا نے
اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کی راہ میں پڑنے کی کوشش کی تو معمر قذافی
کو قصہ پارینا بنادیا گیا اور اقوام متحدہ آج بھی اسرائیلی جارحیت کے سامنے
بے بس نظر آتی ہے، 1977 میں 29 نومبر کو عالمی یوم یکجہتی فلسطین کو منظور
کرنے سے زیادہ کچھ نہ کرپائی اور ہر سال 29 نومبر کو فلسطینیوں سے یکجہتی
کے طور پر منایا جاتا ہے مختلف پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن عملی
طور پر کوئی قدم نظر نہیں آتا جبکہ یہودی دہشتگرد فورسز کا ظلم و ستم بجائے
کم ہونے کے اور بھی بڑھتا جارہا ہے، ہر سال کی طرح اس بار بھی بہت سے
پروگرامات سیمینارز منعقد کیے گئے فلسطینیوں سے زبردستی کی ہمدردی میں
کاغذوں کے پیٹ بھرے گئے، ٹیبلوز پیش کیے گئے، خاموشیاں اختیار کی گئیں،
تقریریں ہوئیں، ریلیاں نکالی گئیں لیکن اسرائیلی فورسز پہاڑ پہ سے بمباری و
شیلنگ کریگی اور نہتے فلسطینیوں کا خون بہا کر چیس کہتے ہوے دو پیک فالتو
چڑھائیگی، اقوام متحدہ و عالمی برادری اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسرائیل کی
جارحیت و توسیع پسندانہ عزائم پر سخت و عملی اقدام اٹھائے تاکہ انسانیت کو
سکھ کا سانس مل سکے لیکن شاید یہودیوں کی دولت اور اسلاموفوبیا کے مرض میں
مبتلا افراد اسرائیل کے وحشیانہ اقدام و جنگی جرائم پہ بے بس ہیں۔
|