یہ عجیب اتفاق ہے کہ کرتاپورہ راہداری کا جس دن افتتاح
ہوا اسی دن بابری مسجد سے متعلق ایک غیر منصفانہ فیصلہ صادر ہوگیا ۔ اس طرح
گویا سکھ زائرین کے لیے گرودوارہ دربار صاحب تک جانے کا راستہ سفارتی سطح
پر کھول دیا گیا اور مسلمانوں کے لیے بابری مسجد کے دروازے قانونی طور پر
بند کردیئے گئے۔ اس موقع پر ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان
کے وزیر خارجہ شاہ احمد قصوری نے برلن کی دیوار کے گرنے کا ذکر کیا ۔ ۱۹۶۱
میں اس دیوار کو مشرقی جرمنی نے تعمیر کیا تھا تاکہ مغرب کی جانب ہجرتوں کو
روکا جاسکے۔ اتفاق سے ہندوستان بھی پاکستان کے مشرق میں واقع ہے۔ سوویت
یونین میں انتشار کے بعد ۹ نومبر ۱۹۸۹ کو مشرقی جرمنی کی حکومت نے اپنے
شہریوں کومغربی جرمنی اور مغربی برلن جا نے کی اجازت دے دی ۔ اس طرح گویا
دیوار میں ایک شگاف پڑ گیا اور اسی کے ساتھ مشرق کے باشندوں کی بڑی تعداد
نےمغرب کی جانب رختِ سفر باندھا ۔ مغربی جرمنی کے لوگوں نے انہیں درانداز
قرار دے کر روکنے کے بجائے ان کا بھرپور خیرمقدم کیا۔
تیس سال بعد کرتارپورہ کی راہداری کا افتتاح بھی یہی منظر پیش کررہا تھا ۔
دوممالک کے درمیان مذہب کی بنیاد پر امن کی نئی راہیں استوار ہورہی تھیں۔
ایک طرف سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی قیادت میں سکھ یاتریوں کا وفد
افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان کی خصوصی دعوت پر راہداری سے
داخل ہورہا تھا ۔ پانچ سو سکھ مردوخواتین زائرین پر مشتمل کارواں میں
منموہن سنگھ کے ہمراہ وزیر اعلی پنجاب ارمندر سنگھ، ارکان پارلیمان و
اسمبلی نوجوت سنگھ سدھوّ،اداکار سنی دیولاور ہرپریت سنگھ شامل تھے ۔ سرحد
کے دوسری طرف ان کا استقبال کرنے کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود
قریشی،وزیر داخلہ برگیڈئیر اعجاز شاہ،وزیر مذہبی امور نورالحق قادری،معاون
خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان،گورنر پنجاب چوہدری محمد
سرور،وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار،سینٹر فیصل جاوید،عثمان ڈار اور ابرار
الحق موجود تھے ۔ ۴۴ ایکڑ رقبہ پر محیط سکھوں کے دوسرے مقدس ترین گوردوارہ
دربار صاحب کی توسیع پر پاکستان و ساری دنیا کے سکھ حکومت پاکستان کے مشکور
و ممنون تھے اور ہندوستان و تمام عالم کے مسلمان عدالت عظمیٰ کے ذریعہ تما
م دلائل و شواہد کے باوجود بابری مسجد کے چھن جانے پر مایوس ومغموم تھے ۔
کرتارپور راہداری کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پوری
دنیا سے آئے ہوئے سکھ یاتری دیکھ لیں کہ آپ کامدینہ تیار ہوچکا ہے ۔ بابا
گرو نانک دیوجی کے550ویں سالگرہ کے موقع پر انہوں نے پوری سکھ برادری کو
مبارکباد دی ۔ انہوں نے کہا ہمارے نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ ایک قتل (ناحق)
پوری انسانیت کا قتل ہے تو باباجی گرونانک دیوجی مہاراج کا پیغام بھی امن
اور بھائی چارے کا ہی تھا جس پر دینا کے تمام مذاہب یقین رکھتے ہیں ۔ عمران
خان اپنی تقریر میں یہ بھی بولے کہ حضور نبی کریم ﷺ، تمام انبیاء اور صوفیا
کرام پوری دنیا کے لئے صرف دو پیغام لےکر آئے جن میں سے ایک امن اور دوسرا
انصاف ہے،انصاف سے خالی معاشرہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ بابری مسجد فیصلے
والے دن یہ عمومی قسم کا جملہ ایک خاص معنیٰ اخذ کرلیتا ہے۔ نیلسن منڈیلا
کا حوالہ دے کر عمران خان نے طنز کا ایسا تیر چلایا جو بالکل نشانے پر جا
بیٹھا ۔ وہ بولے لیڈر وہ ہوتا جو انسانوں کو اکھٹا کرے وہ نہیں جو نفرتیں
پھیلا کر ووٹ حاصل کرے۔
افتتاح سے قبل سرحد کے اس جانب گرداسپور گرُدوارا میں وزیراعظم نریندر مودی
نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کرتارپور راہدری منصوبے کی تکمیل پر
پاکستانی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا بھی شکریہ ادا
کیا ۔ بابری مسجد سے متعلق اگر فیصلہ مبنی برانصاف ہوتا تو پاکستانی
وزیراعظم بھی اس کا مثبت جواب دیتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ یہ بات
تاریخ میں رقم ہوچکی ہے کہ سکھ مت کے بانی بابا گرونانک کے یوم ولادت پر
پاکستان نے سکھوں کا دل جیت لیا اور ہندوستان کی عدلیہ نے اسی دن مسلمانوں
کی دل شکنی کردی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ
پاکستانی وزیر اعظم نے کرتار پور کے معاملے پر بھارت کے جذبات کو سمجھا اور
عزت دی۔ کاش کہ وہ بھی پاکستانی عوام نہ سہی تو ہندوستانی مسلمانوں کے
جذبات کو سمجھتے اور انہیں عدل سے محروم نہ کرتے یا کم ازکم اس فیصلے پر
اطمینان کا اظہار کرنے سے گریز کرتے بلکہ تاسف ظاہر کرتے جیسا کہ نرسمہا
راو ، ایل کے اڈوانی اور اٹل بہاری واجپائی نے بابری مسجد کی شہادت کے وقت
کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کرتارپور راہداری کو دیوار برلن کے گرنے سے
تشبیہ دیتے ہوئے بالکل درست کہا کہ اس منصوبے سے دونوں ممالک کے مابین پائی
جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ دو پڑوسی ممالک کی
کشیدگی میں کمی یقیناً اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہمیت ایک ہی ملک کے اندر
رہنے والے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے نے ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان
ایک ایسی دیوار اٹھا دی ہے جو برلن کی دیوار سے بھی زیادہ اونچی اور
خونخوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں عالمی سطح پر کرتار پور راہداری کا افتتاح
کو امن کی جانب تاریخی قدم کے طورپر سراہا جارہا ہےوہیں سپریم کورٹ کے
فیصلے پر اندرون ملک باضمیر دانشور اپنی بے چینی کا اظہار کیا ا ور بیرون
ملک ذرائع ابلاغ میں اس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بابری کا مسجد کا فیصلہ اگر مسلمانوں کے حق میں آتا تو ساری دنیا کےعدل
پسند اسے بھی سراہتے۔ عمران خان بھی وزیراعظم نریندر مودی کی اسی طرح تعریف
و توصیف کرتے اور ان کا شکریہ ادا کرتے لیکن افسوس جہاں ایک دیوار گری وہیں
دوسری معنوی دیوار تعمیر ہوگئی۔ ایک راہداری کھلی تو دوسری مسدود کردی گئی۔
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کرتارپورہ راہداری کھول ہندوستان کے صوبہ
پنجاب میں رہنے والے سکھوں کو اپنے ملک میں آنے کی سہولت دے رہا ہے اور ہم
اپنے شہریوں کو نہ صرف بابری مسجد بلکہ جموں کشمیر جانے سے بھی عملاً روک
رہے ہیں ۔ وہ سکھوں کے دل جیت رہا ہے اور ہم اپنے ہی کشمیری بھائیوں کی دل
شکنی کررہے ہیں ۔ ہندوستان اور دنیا بھر کے سکھ پاکستانی وزیراعظم کے تئیں
احسانمندی کے جذبے سے سرشار ہیں جبکہ ہم نے خود اپنے ہی عوام کو سوگوار
کررکھا ہے۔ |