مولانا کا پلانA سے Cپر اختتامی مراحل میں

مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کا آزادی مارچ، دھرنا، جلسہ، احتجاج جو بھی تھا اسلام آباد میں اپنی مدد مکمل پلان بی میں داخل ہوا، وہاں بھی زندہ نہ رہ سکا اور اپنے اختتامی پلا سی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کہانی کا آغاز 27اکتوبر 2019ء بروز جمعہ المبارک مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی پارٹی جمعیت علماء اسلام کے چاہنے والے، کارکن، مولانا کے مدرسوں کے طلبہ، اساتذہ اور مولانا سے محبت رکھنے والوں کا مرکزی قافلہ میرے گھر سے بہت نذدیک سہراب گوٹھ پر جمع ہوا، بسوں، ویگنوں اور کاروں پر مشتمل یہ کارواں سہراب گوٹھ پہنچ گیا۔ قبلہ مولانا فضل الرحمٰن اس کارواں کی قیادت از خود کر رہے تھے۔ سفر شروع ہونے سے قبل مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے کارواں میں شریک شیردل کارکنوں سے خطاب کیا، انہیں بتایا کہ وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہے ہیں۔ اس دھرنے میں دو چار دن نہیں بلکہ کئی دن بلکہ مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ مولانا صاحب نے سہراب گوٹھ سے ساتھیوں کو رخصت کیا اور خود سکھر پہنچ گئے۔ اس سے قبل مولانا اور حکومت کے مابین ایک ماہدہ تحریری طور پر طے پاگیا کہ دھرنے کی جگہ کیا ہوگی، دھرنے کے شرکاء کیا کچھ نہیں کرسکتے حکومت انہیں کیا سہولتیں دے گی۔ یہ معاہدہ جمعیت کی ضلعی انتظامیہ اور اسلام آباد کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کے مابین طے پایا۔ بنیادی بات یہ ہوئی کہ مولانا صاحب اور ان کے ساتھی ڈی چوک پر دھرنا دینے کی خواہش رکھتے تھے اور حکومت انہیں ڈی چوک سے باہر رکھنا چاہتی تھی۔ حکومت کی حکمت عملی یہاں کامیاب ہوئی اور معاہدہ میں دھرنے کے شرکاء کو ڈی چوک کے بجائے پشاور موڑ پر بڑے میدان میں دھرنا دیناپاگیا۔ حکومت نے اُس میدان کو ٹرالر اور ٹریکٹروں سے صاف ستھرا بھی کرایا۔

دھرنے کا مرکزی قافلہ جو کراچی سے چلا تھا، سندھ کے مختلف شہروں میں حکومت سندھ کی آشیرباد لیتا ہوا سکھر پہنچا، جہاں پر قبلہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ دھواں دھار تقاریر سننے کو ملیں، قافلے کو پنجاب میں داخل ہوکر ملتان اور لاہور ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچنا تھا۔ دیگر شہروں سے بھی قافلے اسلام آباد کا رخ کر رہے تھے۔ ان تمام قافلوں کو 31اکتوبر کو اسلام آباد پہنچنا تھا اور وہ پہنچے۔دھرنا دینے کے مقاصد کیا ہیں، کسی کو معلوم نہیں، کہا گیا کہ اسلام آباد پہنچ کر بتا یا جائے گا۔ ملتان کے بعد لاہور میں مولانا صاحب کو نون لیگ کی جانب سے وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی انہیں توقع تھی۔ انہوں نے بیمار نواز شریف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، ان کی اس خواہش کو رد کردیا گیا، حالانکہ نون لیگ اور اہل خانہ کی ملاقاتیں میاں نواز شریف سے جاری تھیں۔ مولانا کو یہ دوسرا بڑ جھٹکا لگا۔ پہلا یہ کہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے ورکروں کی شمولیت اور ان کے استقبال کی جو توقعہ کر رہے تھے انہیں وہ نہیں ملا، دوسرے اہم جھٹکا بیمار میاں صاحب سے ملاقات نہ کرنے دینا۔ حالانکہ دھرنے کے آغاز سے قبل بیمار میاں صاحب نے ایک چٹھی چھوٹے میاں صاحب کے نام لکھ کر یہ ہدایت کی تھی کہ نون لیگ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے احتجاج یا جلسے کو کامیاب بنائے اس میں شریک ہو۔ یہ خط جگہ جگہ پڑھ کر سنایا بھی گیا۔ چھوٹے میاں صاحب نے شروع میں کہا تھا کہ وہ مولانا صاحب کو استقبال اسلام آباد میں کریں گے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ اب مولانا بجھے دل کے ساتھ اپنی منزل اسلام آباد کی جانب روانا ہوئے، اس تکلیف کا اظہار مولانا نے اپنی پہلے دن کی تقریر میں کیا کہ لاہور والوں کی کچھ مجبوریاں ہوں گی، جس وجہ وہ شریک نہ ہوسکے، لیکن وہ جہاں بھی رہیں دھرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ مولانا نے بڑی حکمت کا ثبوت دیا اور نون لیگ کی بے مروتی سے انہیں جو دکھ پہنچا تھا اسے خوبصورتی سے اپنے د ل میں چھپا لیا، اور انہیں اپنے ساتھ رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔

دوسری جانب عمران خان اور ان کی حکومت کو 2014ء کا اپنا 126دنوں کا دھرنا یاد آرہا تھا اور وہ اس فکر میں تھے کہ اس کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومت کو یا کسی اور کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ مولانا اپنے مخصوص حلقوں سے مخصوص قسم کے اپنے جانثاروں کو اتنی بڑی تعداد میں اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مخصوص حلقوں اور مخصوص لوگ اس لیے کہا کہ اس جمع غفیر میں نوے فیصد لوگ مولانا کے پیروکار، مدرسوں کے طالب علم، اور ان کی جماعت کے رضاکار ہیں۔ قابل تعریف بات آج تک یعنی جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ گزرنے تک، تمام راستے، خواہ وہ جلوس اور شرکاء ملک کے کسی بھی کونے سے آئے پر امن، پرسکون اور باادب بہ لحاظ رہے۔ حالانکہ ان کے منتظمین کے ہاتھوں میں ڈنڈے موجود تھے۔ دونوں دھڑوں کی جانب سے ایک دوسرے پر زبانی گولا باری کا سلسلہ پہلے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ عمران خان اس پوزیشن میں ہر گز نہیں تھے کہ وہ دھرنا دینے سے روک سکتے تھے، اس لیے کہ میڈیا نے ان کے دھرنوں کے کلپ چلانا شروع کردیے تھے۔ اجازت دینا، ان سے نمٹنا تو ہر صورت میں حکومت کو ہی تھا۔ ابھی تک مطالبات سامنے نہیں آئے تھے۔ اس لیے سب تجزیہ کار بھی شش و پنج میں تھے کہ مولانا کس لیے دھرنا دینے جارہے ہیں لیکن مولانا کی جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ اپنے پتے اسلام آباد جاکر بتائیں گے۔ وہ رفتہ رفتہ اور ایسا ہی ہوا۔ حکومت نے دونوں طرح تیاری کر لی، یعنی مذاکرات کے لیے ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی، دوسری جانب انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد کی حفاظت کے لیے کنٹینر جیسا کہ سابقہ ادوار میں ایسے موقع پر ہوتا رہا تھا۔ پولیس، بلکہ اضافی نفری، رینجرز، اور فوج ضرورت پڑنے پر۔

ملک کے معاشی حالات، بے روزگاری، مہنگائی، کشمیر میں بھارت کا ظلم، تین ماہ سے مسلسل کرفیو، عالمی سطح پر حالات، بھارت کی سرحد کی خلاف ورزیاں، دھمکیاں اور بے شمار قسم کی مشکلات اور حالات کا پاس حکومت مخالف جماعتوں کو اور نہ ہی حکومت کو، صورت حال کچھ اس طرح کی کہ ایک گروہ کہہ رہا ہے کہ ہم آرہے ہیں، حکومت یا عمران خان اور ان کے وزراء سے پیار محبت کر نے نہیں بلکہ دو دو ہاتھ کرنے، حکومتی ردِ عمل ٹھیک ہے آجاؤ ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔ حکومت کی تو ایجنسیاں ہوتی ہیں وہ اندر کی صورت حال کے بارے میں حکومت کو مطلع کرتی ہیں، یہاں وہ ایجنسیاں کیا کرتی رہیں، انہیں اندازہ اور معلومات نہیں تھیں کہ مولانا کتنا بڑا جمع غفیر اپنے ساتھ لے کر اسلام آباد پر جڑھائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حکومت کو جب معلوم ہوگیا تھا تو جو کاروائیاں اب ہورہی ہیں، گفت و شنید، ثالثوں کو بیچ میں ڈالنے کی ہو ہیں،اب مولانا نے اپنے شو کا آغاز کیا، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، اسفندیارولی خان اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے قائدین بھی اسٹیج پر آئے اور مولانا سے پہلے حکومت کو خاص طور پر عمران خان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ منظر عمران خان کے دھرنوں کا منظر پیش کر رہا تھا، فرق صرف اتنا تھا کہ اس مرتبہ عمران خان ایوان اقتدار میں تھے اور دیگر حزب اختلاف کی جماعتیں کنٹینر پر براجماں تھیں اور خوب اگلی پچھلی رقابتیں نکال رہی تھیں۔ اس وقت عمران خان کے دھرنے کی یادیں تازہ ہوگئیں۔کنیڈا کے ایک مزاح نگار شاعر خالد عزیز نے اپنے شعری مجموعے ”بیگم نامہ“ میں عمران خان کے 126دن کے دھرنوں پر یہ قطعہ کہا تھا ؎
جب سے عمران نے دھر نے میں بٹھا رکھا ہے
حاکم وقت کی نیندوں کو اڑا رکھا ہے
عقد ثانی کا ارادہ ہے بس اس جیت کے بعد
سارے ارمانوں کو سینے میں دبا رکھا ہے

مولانا صاحب نہ صرف آزادی مارچ آواز بلند کیے ہوئے تھے اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے کہا کہ یہ مارچ بھی ہے، جلسہ بھی اور دھرنا بھی۔ اب یہ آزادی مارچ نہیں بلکہ دھرنا ہوگیا، اس وقت تک جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوجاتے۔ اگر عمران خان کے دھرنوں کو یاد کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ صرف چہرے بدل گئے، عمران خان کی جگہ مولانا نے لے اور نواز شریف کی جگہ عمران خان، باقی تمام باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔ مولانا صاحب کی پہلی تقریر کے بعد واقعی عمران خان اور ان کی پارٹی اور اتحادیوں کی نیندیں اڑگئیں ہوں گی۔ پہلا مطالبہ مولانا نے عمران سے استعفیٰ طلب کیا، دوسرا مطالبہ نئے انتخابات تھے دونوں مطالبات کر کے مولانا نے سب کو حیرت میں ڈالدیا، یہ مطالبہ عمران کی حکومت کے لیے تو کسی طو رمنظور نہیں تھی عام تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ مولانا نے یہ کیا عجیب و غریب مطالبہ کیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ حکومت کے خلاف احتجاج، جلسے، جلوس، دھرنا، سب کچھ قانونی اور جمہوری عمل کا حصہ لیکن کسی بھی حکومت کو چاہے وہ کسی طرح بھی اقتدار میں آئی ہو، ہزاروں کا مجمع لا کر وزیر اعظم سے استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا۔ عمران خان کی مثال سامنے ہے، عمران خان نے تو بہت ہی سخت قسم کے جملے استعمال کیے تھے، ڈی چوک میں دھرنا تھا، ریڈ زون میں بھی قدم رکھ لیے تھے لیکن میا ں نواز شریف نے استعفیٰ نہیں دیا تھا بلکہ کسی بھی قسم کا معاہدہ طے پاگیا تھا۔ لیکن مولانا صاحب نے نہ صرف استعفیٰ کا سختی سے مطالبہ کیا بلکہ ڈی چوک میں داخل ہونے کا اشارہ بھی دیا۔ لیکن ایسا کیا نہیں۔ کہا کہ ڈی چوک چھوٹا پڑجائے گا، یہ جگہ ہی مناسب ہے۔ رفتہ رفتہ مولانا کے اعصاب کچھ ڈھیلے محسوس ہونے لگے تھے، لیکن اپنی مطالبے پر قائم، اس دوران حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مشاورت بھی ہوئی، اے پی سی بھی ہوئی جس میں نہ تو شہباز شریف اور نہ ہی بلاول شریک ہوئے، اپنے نمائندے بھیج دئے۔ جس میڈیا کا خیال ہے کہ مولانا نے نون لیگ کو واضح پیغام دیا کہ وہ اپنی حیثیت کی وضاحت کریں۔ دونوں بڑی جماعتیں مولانا کے اس مطالبے پر کہ عمران خان کی حکومت کو چلتا کیا جائے ساتھ ہیں لیکن طریقہ کار پر اختلاف ہے نہ تو وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو گرانے میں مولانا کی ہم نوا دکھائی دے رہی ہیں۔ مولانا نے حکومت کو دو دن کی مہلت دی پھر اس دھمکی پر خاموشی اختیار کر لی۔ دو بڑی جماعتوں کے علاوہ دیگر چھ چھوٹی جماعتوں کی کوئی خاص وقعت نہیں، وہ تو باراتی ٹولا ہے۔ نورانی میاں مرحوم کے صاحبزادے کو معصوم چہرے کے ساتھ مولانا کے کبھی دائیں کبھی بائیں کھڑے اور بیٹھے دیکھ کر نورانی میاں یاد آگئے۔ وہ کیا تھے اور ان کی فرزند ارجمند کیا ہے۔ محمود خان اچکزئی بھی مورت بنے مولانا کے دائیں بائیں ہوتے رہے۔ بڑی جماعتوں پی پی اور نون لیگ کی کیفیت ہاں ہاں نہ نہ والی، دل بھی چاہتا ہے کہ اور پھر خیال آتا ہے کہ کہا مولانا دس سال ان جماعتوں کے پیچھے چلتے رہے اب مولانا کو اپنے آگے کیسے لگالیں۔ دونوں جماعتیں احتساب کے بھنور میں پھنس گئیں تھیں اس دوران مولانا کو ایک خلامحسوس ہوا، مولانا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ زیرک سیاست داں بھی ہیں انہوں نے بھانپ لیا کہ یہ وقت دونوں جماعتوں کو اپنے پیچھے لگانے کا ہے، چھٹ بھیے تو خود بخود پیچھے ہولیں گے۔ یہی ہوا، احتجاج، جلسہ، آزادی مارچ اور دھرنا۔ مولانا نے جو مطالبات حکومت سے کیے ان میں سرِ فہرست عمران کا استعفیٰ، نئی انتخابات۔ عمران اور اس کی پارٹی کی جانب سے دوٹوک جواب کہ اس پر بات نہیں ہوگی، مولانا فرماتے کہ صرف اس پر ہی بات ہوگی۔ اب تک کی جانے والی تمام کوششیں لاحاصل رہیں۔ بارہ ربیع الا ول سیرت کا اہتمام بھی کیا گیا۔ مولانااپنے احباب کے ساتھ کب تک کھلے میدان میں ٹکے رہیں گے۔ موسم نے بھی مولانا اور ان کے ساتھیوں کو ڈرایا دھکمایا لیکن اس کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مولانا بیٹھے رہے،گفت و شنید کا سلسلہ دراز ہوا، چودھری برادران نے بھی اپنا کردار ادا کیا، موسم نے بھی مولانا کو مجبور کیا، کچھ آثار یہ بھی دکھائی دیے کہ دھرنے والے ایک ایک کرکے کھسکتے جارہے ہیں۔ 15روز کے بعد مولانا نے رات گئے تقریر کی اور اپنے پلان بی کا اعلان کرتے ہوئے اسلام آباد سے گھر واپس جانے کا اعلان کردیا، ان کا یہ کہنا تھا لوگ جیسے تیار بیٹھے تھے ٹینٹ اترنے لگے، دریاں لپٹنے لگیں، گاڑیوں پر سامانا ن لادا جانے لگا۔ دوسری جانب پلان بی پر عمل شروع ہوگیا ملک کی مختلف شاہراؤں پر مولانا کے لوگ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ سڑکیں بند کردیں، یہ مولانا کا پلان بی تھا، اسلام آباد کے دھرنے سے صرف اسلام آباد کے لوگ پریشان تھے پلان بی نے مختلف شہروں پر سفر کرتے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا تھا۔ اب حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے سڑکوں کو صرف دن میں بلاک کیا جائے گا رات میں راوی چین لکھتا ہے۔ اس پلان کو حکومت کے علاوہ مخالفین اور عوام نے نا پسند کیا چنانچہ مولانااور ان کے ساتھی بھانپ گئے کہ اس عمل سے ان کے مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچے گا، چنانچہ چند دنوں میں ہی پلان بی کی بساط لپیٹ لی گئی۔ مولانا نے اپنے آزادی مارچ سے جو حاصل کرنا تھا وہ انہیں حاصل ہوچکا،اب مولانا اپنے پلان بی سے پلان سی پر منتقل ہوگئے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مل کر ہفتہ میں دو یا تین احتجاجی جلسے پر اکتفا کرنے پر مجبورہوگئے۔دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کا جو اخلاقی ساتھ دیا ہے، وہ نہ ہ محسوس کیا گیا بلکہ مولانا نے بھی اس اخلاقی حمایت کی نوعیت کو اچھی طرح محسوس کر کر لیاتھا۔ دیکھتے ہیں کہ مولانا کا پلان سی کتنے دن جاری رہتاہے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف صاحب اڑان بھرچکے ہیں، زرداری صاحب بھی بیمار ہیں، وہ بھی اڑان بھر نے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ امکانات یہی ہیں کہ وہ بھی لندن یا دبئی اڑان بھر کرجائیں گے۔

مولانا صاحاحب کو سیاست ورثہ میں ملی ہے، وہ مذہبی رہنما بھی ہیں، دینی مدارس کی بڑی تعداد ان سے محبت کرنے والی ہے، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہوگی۔ وہ اپنے والد قبلہ مولانا مفتی محمود کے وصال کے بعد سے عملی سیاست میں اگلی صف میں آئے، ان کی زندگی میں بھی وہ ان کے ساتھ شریک سیاست تھے۔ مَیں نے قبلہ مفتی محمود صاحب کی عملی سیاست کا وہ دور جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں شروع ہوا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا، بھٹو صاحب کے مد مقابل پاکستان قومی اتحاد جس میں نو جماعتیں شامل تھیں، اسے نو ستاروں کا نام دیا گیا تھا، مفتی صاحب اس اتحاد کے میرِ کارواں تھے مفتی صاحب، ان کا بہت تھا احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ نو ستاروں کے صف اول کے رہنماؤں میں سے تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان کی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا،انہوں نے اب تک قومی اسمبلی کے آٹھ انتخابات میں حصہ لیا، تین میں وہ ناکام ہوئے، وہ اپوزیشن لیڈر بھی رہے، ان کا حلقہ انتخاب ان کا آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان رہا ہے۔ انہوں نے1988ء میں کامیابی حاصل کی جب کہ1990ء میں اِسی نشست پر ناکام ہوئے پھر1993ء میں انتخاب جیتا،1997ء میں انہیں شکست ہوئی۔ 2002ء میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے پھر2008ء میں کامیاب ہوئے، 2013ء میں کامیاب رہے سابقہ انتخابات 2018ء میں کامیاب نہ ہوسکے، موجودہ قومی اسمبلی مولانا کے بغیر ہے۔ اس بات کا بھی مولانا کو بہت ملال ہے،ہونا بھی چاہیے، اس بات کا اظہار وہ نہیں کرتے لیکن لگتا ایسا ہی ہے ان کے عمل سے۔ وہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے، خارجہ امور کی کمیٹی اور کشمیر کمیٹی کے چیرئ مین بھی رہے۔ لیکن کشمیر کمیٹی کے چیرئ مین کی حیثیت سے ان کی کشمیر کے لیے جو جدوجہد ہونی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آئی، انہیں مرکزی وزیر کا درجہ بھی حاصل رہا۔ مولانا صاحب طویل عرصہ سے حکومتی مشینری کا حصہ چلے آرہے ہیں، عادتیں تبدیل ہوجاتی ہیں، مولانا صاحب نے اپنے طالب علموں کی وردی یافتہ اور ڈنڈہ بردار تنظیم بھی بنائی اور سلامی بھی لی۔عمران خان اور مولانا آگ اور پانی بنے ہوئے ہیں، حالانکہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی، لیکن عمران خان نے کام ہی ایسا کیا کہ خیبر پختونخواہ میں نہ صرف مولانا بلکہ قبلہ اسفند یار ولی اور ان کے جماعت کو اقتدار سے کلین بولڈ کردیا۔ پنجاب میں نون لیگ چاروں خانے چت، اب کوئی سلیکشن کہے یا کچھ اور، نون لیگ کی پنجاب میں حکومت جاتی رہی، مرکز بھی ہاتھ سے گیا، سزا ہوئی، بیمار ہوئے اور باہر کی راہ لی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ضرور قائم ہے لیکن اپوزیشن عمران خان کی ہے، زرداری جیل میں، بلاول کی سیاست سب کے سامنے ہے، گورنر راج کی تلوار اپنی جگہ موجود ہے، سندھ کے حکمرانوں کو ا س کا بھی ڈر ہے، بلوچستان سے سینٹ کے چیرئ مین زرداری صاحب کی طاقت پر منتخب ہوئے پر انہیں اب تحریک انصاف کی آشیرواد صاحل ہے۔ عمران خان کو چند اتحادیوں کے علاوہ تمام اپوزیشن کی سخت مزاہمت کا سامنا ہے،عمران کے اتحادی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، فوری تیور بدلنے لگتے ہیں۔شدید اور سخت مخالفین، طویل عرصہ اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے مقابلے میں عمران خان کا حکومت برقرار رکھنا بڑی بہادری ہے۔ مولانا صاحب کا پلان سی رفتہ رفتہ سمندر کی لہروں کی مانند ساحل سے ٹکرانے کے بعد زمین بوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے، مولانا صاحب کو اب کوئی نیا اور منفرد پلان بنا نا ہوگا۔ (9دسمبر2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1253341 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More