راشد اشرف۔ نگراں کار:
www.wadi-e-urdu.comا۔ ۹ ا پریل ۱۱۰۲
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ انسان جب کسی اسپتال کے آئی سی یو میں
وینٹیلیٹر کے سہارے سانس لے رہا ہو تا ہے تو بے ہوشی کے عالم میں وہ کیسے
کیسے مناظر دیکھتا ہوگا۔۔۔ اور بیہوشی کی سرحدوں سے ہوش میں آنے کے مختصر
درمیانی عرصے میں وہ کن کن باتوں کو یاد کرتا ہوگا۔۔۔۔ یقیناً وہ تمام
باتیں اسے یاد آتی ہوں گی جو اس کی زندگی سے جڑی تھیں !
اپنی تحریروں میں تواتر کے ساتھ جنگل، خوشبو، بارش، ناریل، درخت اور چائے
کا ذکر کرنے والا پاکستان کا درویش صفت، ایماندار اور ہردلعزیز مصنف پچھلے
ایک ماہ سے بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔جناب عبدالحمید جو اے حمید کے نام سے
جانے جاتے ہیں، لاہور کے ایک نجی اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں
مبتلا ہیں۔۔ایک ایسی جنگ جس میں زندگی کے غالب آجانے کا امکان روز بروز کم
سے کم ہوتا چلا جارہا ہے ۔ مجھ جیسے ان کے ان گنت چاہنے والوں کے یہ ایک
اذیت ناک صورتحال ہے ۔ یہ تو خدا سلامت رکھے جناب عطاءالحق قاسمی کو کہ جن
کی تگ ودو کی وجہ سے اے حمید کے علاج کا تمام خرچہ حکومت پنجاب برداشت کر
رہی ہے ورنہ ان کے اہل خانہ میں اس کی سکت نہ تھی۔ اس ملک میں ہر کوئی ان
جیسا خوش قسمت کہاں جس کو اس کڑے وقت میں کوئی عطاءالحق قاسمی نصیب ہوجائے۔۔۔
کتنے ہی ادیب و شاعر کسمپرسی کے عالم میں دم توڑ گئے ۔ شاعر و ادیب کیا،
یہاں تو اساتذہ کا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوتا۔ ۷ دسمبر ۳۰۰۲ کو ملیر،
کراچی میں واقع ایک تاریخی درسگاہ میں علم کی روشنی پھیلانے والے پروفیسر
غازی خان جاکھرانی اور ان کی اہلیہ کی پندرہ رو ز پرانی لاشوں کا ملنا تو
آج بھی کچھ لوگوں کو یاد ہوگا جو بھوک سے دم توڑ گئے تھے۔ عدالت میں دائر
کیس کے تصیلات اور اس میں ملوث لوگوں کے نام و دیگر تفصیل یہاں پڑھی جاسکتی
ہے:
https://archives.dawn.com/2006/05/16/local4.htm
کل شام مجھے اے حمید کے بیٹے مسعود حمید اپنے والد کے علاج کے سلسلے میں کی
جانے والی عطاء الحق قاسمی صاحب کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کرچکے تھے ۔۔۔۔آج
صبح جب مجھ سے رہا نہ گیا تو لاہور میں عطاءالحق قاسمی صاحب کو فون کر ڈالا۔
۔۔۔۔ وہ مجھے حمید صاحب کے علاج کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں اور ان
کے مثبت نتائج کے بارے میں بتاتے رہے۔ لیکن ہر آن پر اُمید باتیں کرنے والے
عطاء صاحب ، اے حمید کی صحتیابی کے بارے میں تذبذب کا شکار نظر آئے۔ جو شخص
چند دن وینٹیلیٹر پر گزار لے، اس کی صحت کے بارے میں ڈاکٹر بھی زیادہ
پرامید نہیں رہتے اور ادھر اے حمید تو پورے ایک ماہ سے وینٹیلیٹر
(ventilator) پر ہیں۔۔۔۔ لیکن بقول عطاء صاحب، ہمیں خدا کی ذات سے امید
نہیں چھوڑنی چاہیے!
مارچ ۸۰۰۲ کی ایک شام میں لاہور میں واقع اے حمید صاحب سے ملاقات کی عرض سے
سمن آباد لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ پر گیا تھا۔ وہ ایک گھنٹہ پلک
جھپکتے گزر گیا تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، وہ کتابوں سے گھرے چھوٹے سے کمرے
میں اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ میں بے صبری سے اس شیفتگی کا ذکر کر رہا
تھا جو ایک زمانے سے مجھے ان سے ان کی تحریروں کے تعلق سے ہے ۔ وہ میری
باتیں سن کر انکساری سے مسکرا رہے تھے۔ میں ان کو شہاب نامہ میں قدرت اللہ
شہاب کی ان کے بارے میں رائے یاد دلاتا ہوں کہ کس طرح شہاب صاحب جو اس
زمانے میں پنجاب ڈائریکٹر آف انڈسٹریز کے عہدے پر فائز تھے اور حمید صاحب
کو پاور لومز کا پرمٹ دے چکے تھے (ان دنوں پاور لومز کا کاروبار انتہائی
منفعت بخش کہلاتا تھا اور قدرت اللہ شہاب کے پاس دن بھر اسی سلسلے میں
سفارشوں کا بیزار کن تانتا بندھا رہتا تھا ) اور کچھ عرصے بعد حمید صاحب،
جو ان پرمٹس کو باآسانی بلیک مارکیٹ میں فروخت کر کے ایک بڑی رقم بنا سکتے
تھے، شہاب صاحب کو وہ پرمٹس واپس کرنے آئے تھے۔
میں اس کاروبار کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کام
میرے بس کا روگ نہیں ہے ۔۔وہ قدرت اللہ شہاب سے کہہ رہے تھے۔
یہ شہاب صاحب کے لیے ایک غیر متوقع بات تھی۔۔۔اور پھر انہوں نے قلم اٹھایا
اور شہاب نامہ میں حمید صاحب کے لیے یہ جملہ لکھا:
اس کی دلنشیں تحریروں کی طرح اس صاحب طرز ادیب کا کردار بھی اتنا ہی صاف
اور بے داغ تھا کہ اس نے اپنے پرمٹ کو بلیک مارکیٹ میں بیچنا بھی گوارا نہ
کیا۔۔۔۔شہاب اس محکمے میں اپنی تقرری کے تمام عرصے کے احوال کے اختتام پر
لکھتے ہیں : پنجاب کے ڈائریکٹر آف انڈسٹریز کی حیثیت سے اے حمید، آتا پیسنے
کی چکی والا محمد دین، آغا حسن عابدی اور ابن حسن برنی کے ساتھ میری
ملاقاتیں اس زمانے کی خوشگوار یادیں ہیں۔ باقی متروکہ صنعتوں کی الاٹمنٹوں
کا سارا کام ایک متعفن دلدل کی ناگوار سڑانڈ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
|
اے حمید۔ پاک ٹی ہاؤس کے باہر
|
شہاب نامہ میں درج اس واقعے کے ذکر پر حمید
صاحب ہنسنے لگے اور کہا: یار ! جب کبھی میری بیوی مجھ پر ناراض ہوتی ہے تو
میں اسے شہاب نامہ دکھا کر کہتا ہوں کہ دیکھو قدرت اللہ شہاب جیسے انسان نے
میرا ذکر کتنے اچھے انداز میں کیا ہے۔
پھر میں اے حمید کو ان کے لکھے ناول ڈربے کے اقتباسات سنانے لگتا ہوں جو
میرہ پسندیدہ ترین ناول ہے ۔ میں ان سے اس ناول کے کرداروں کے بارے میں
دریافت کرتا ہوں ور انہیں یہ بات بتا تا ہوں کہ کالج کے زمانے میں کس طرح
ایک لائبریری سے ۰۶۹۱ کا شائع ہوا یہ ناول مجھے ملا تھا جسے میں نے منہ
مانگی قیمت (تیرہ روپے) دے کر اس کے مالک سے خرید لیا تھا اور پھر ایک روز
اس ناول کو میرے والد مرحوم نے پڑھا اور اپنے ہاتھوں سے اس کو محفوظ کرنے
کی خاطر اس پر گردپوش لگا دیا۔ حمید صاحب میرے ہاتھ سے اس ناول کو لے کر
بغور دیکھتے ہیں، میری درخواست پر ناول پر اپنے آٹو گراف ثبت کرتے ہیں اور
اس کے تازہ نسخے کے حصول کے لیے مقبول اکیڈمی کے مالک کے نام مجھے ایک رقعہ
لکھ دیتے ہیں ۔ میں نے اس رقعے کو تبرک سمجھ کر حفاظت سے رکھا اور ایک جگہ
محفوظ کردیا، ملاحظہ ہو:
https://www.flickr.com/photos/41786707@N05/5109237158/
اس ملاقات کی تصویر اور ایک مختصر سی ویڈیو (انٹرنیٹ پر موجود واحد ویڈیو
ریکارڈ) بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہے:
https://www.flickr.com/photos/41786707@N05/4371908038/in/photostream/
حمید صاحب کو اپنی یاداشیں لکھنے کی درخواست کے ساتھ ان سے ملاقات کی
خوشگوار یادیں لے کر میں وہاں سے لوٹا تھا!
|
اے حمید (دائیں جانب) اور احمد راہی
|
اس دن کے بعد سے حمید صاحب سے مستقل فون پر
رابطہ رہنے لگا اور گاہے گاہے کراچی سے ان کو لاہور کتابیں ارسال کا سلسلہ
جاری رہتا تھا ۔ اپنی بیماری سے چند ماہ پیشتر انہوں نے مجھ سے ابن اشاء پر
اپنی لکھی کتاب کی فرمائش کی جو لاہور میں نایاب ہے اور حمید صاحب کے پاس
بھی اس کا کوئی نسخہ موجود نہیں تھا۔ یاد رہے کہ اے حمید ابن انشاء کے گہرے
دوست رہے ہیں اور ابن انشاء کے خطوط پر مبنی کتاب خط انشاءجی کے میں اے
حمید کے کئی بے تکلفانہ خطوط موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک خط میں (اقتباس)
انشاءجی رقم طراز ہیں: ارے حمید، میری جان ! تمہارے یادوں کے گلاب سب کے سب
میں نے پڑھے ہیں بلکہ سونگھے ہیں اور پرانے دنوں کی یاد پر دل کو کچھ کچھ
ہوتا ہی رہا ہے۔ تم ڈنڈی مار جاتے ہو۔عشق و عاشقی اور لڑکیوں کے تذکرے میں
بھی تم ڈنڈی بلکہ ڈنڈا مار جاتے ہو۔ لڑکیاں تمہاری بھولی بھالی صورت
رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں۔خیر میاں ہم تو تمہارے عاشق ہیں۔فی
زمانہ اور کوئی ہمیں اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
حمید صاحب کی لکھی ایک کتاب امرتسر کی یادیں میں عرصہ پندہ برس سے تلاش
کررہا تھا لیکن ہر جگہ ناکامی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ حمید صاحب کے پاس
بھی اس کتاب کا ایک ہی نسخہ باقی رہ گیا تھا۔۔۔۔کچھ عرصہ پیشتر کراچی سے
ایک شناسا لاہور جارہے تھے، میں نے ان کے ذمے یہ کام لگایا کہ حمید صاحب سے
وہ نسخہ لے کر اس کی فوٹو کاپی بنوا کر لے آئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ کام
سرانجام پایا اور میں نے حمید صاحب کا شکریہ ادا کیا۔
|
اے حمید ۔ پچیس برس قبل کی ایک تصویر
|
حمید صاحب کا سن پیدائش ۸۲۹۱ ہے، اس حساب
سے وہ ۳۸ برس کے ہوئے۔ امرتسر میں پیدا ہونے والے اے حمید نے ۸۴۹ ۱ میں
اپنا پہلا افسانہ منزل منزل لکھا جسے راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی ۔ بہت
جلد ان کے افسانے لاہور سے شائع ہونے والے معیاری جریدوں کی زینت بننے لگے۔
وہ ایک کثیر التحیر مصنف ہیں، انہوں نے کم و بیش ۰۰۲ ناولز لکھے جبکہ بچوں
کے لیے ان کی لکھی مشہور زمانہ سیریز امبر ناگ اور ماریہ کے ۰۰۱ ناولز منظر
عام پر آئے۔ ان کی چند دیگر کتابوں کے نام یہ ہیں:
منزل منزل
لاہور کی یادیں
داستان گو
امریکانو
چاند چہرے
گلستان ادب کی سنہری یادیں
دیکھو شہر لاہور
جنوبی ہند کے جنگلوں میں
اردو شعر کی داستان
اردو نثر کی داستان
مرزا غالب لاہور میں
اے حمید نے ریڈیو پاکستان میں عرصہ دراز تک ملازمت کی، بعد ازاں وہ وائس آف
امریکہ سے وابستہ ہو کر واشنگٹن چلے گئے جہاں سے واپسی پر انہوں نے وائس آف
امریکہ کی دلچسپ یادوں کی قلم بند کیا جو پہلے کراچی کے ایک جریدے نیا رخ
میں قسط وار شائع ہوئی اور بعد ازاں اسے کتابی صورت میں امریکانو کے عنوان
سے سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے لیے ڈرامے
بھی لکھے،
خاص کر بچوں کے لیے لکھا گیا سیریل عینک والا جن بہت مقبول ہوا۔وہ پچھلے
کئی برس سے لاہور کے روزنامے نوائے وقت میں اتوار کے روز کالم لکھ رہے تھے۔۔۔
۳۰۰۲ میں ابو الحسن نغمی کی خودنوشت یہ لاہور ہے منظر عام پر آئی جس میں
نغمی صاحب نے اے حمید کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح دسمبر ۰۱۰۲ میں لاہور سے
ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ رہے ناصر قریشی صاحب کی خودنوشت ادبیات
نشریات شائع ہوئی جس میں قریشی صاحب نے حمید صاحب کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے۔
|
مارچ ۸۰۰۲۔اپنی رہائش گاہ پر ۔راقم نے محفوظ کی۔
|
اے حمید ان لوگوں میں سے ہیں جن کی شخصیت
کا مکمل عکس پڑھنے والے کو ان کی تحریروں میں گاہے بگاہے نظر آتا ہے اور
یوں مزید معلومات کے حصول کے لیے کسی خارجی سہارے کی چنداں ضرورت نہیں
محسوس ہوتی۔ کڑکی کے زمانے میں بھی حمید صاحب اچھا لباس پہنتے تھے اور
احباب کی محفل میں الگ ہی نظر آتے تھے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہمیشہ بہترین لباس
پہنو، بہترین خوشبو استعمال کرو اور بہترین لڑکی سے محبت کرو۔
ان کی تحریروں میں ایک عجب دلکشی ہے ، پڑھنے والا کچھ دیر تمام غموں سے
نجات پا کر گھنے جنگلوں، درختوں، پرندوں ، خوشبووں کی ایک ایسی دنیا میں
پہنچ جاتا ہے جہاں سے وہ نکلنا نہیں چاہتا لیکن کیا کیجیے کہ دیکھتے ہی
دیکھتے کتاب ختم ہوجاتی ہے اور اسے دنیاوی بکھیڑوں میں لوٹنا پڑتا ہے۔
وہ لاہور شہر کی روایات کے امین ہیں۔ لاہور کی محفلوں، کھانوں، ناشتوں،
پہلوانوں ، تکئیوں، اکھاڑوں، لائبریریوں اور تھیٹر کمپنیوں کا جس انداز سے
اے حمید نے اپنی تحریروں میں ذکر کیا ہے وہ کسی اور کو کہاں نصیب۔۔۔۔اسی
طرح امرتسر شہر کے ذکر میں بھی یہی موضوعات ان کی تحریر کا خاصہ رہے ہیں (دیکھئے:
امرتسر کی یادیں۔سن اشاعت:۱۹۹۱)۔ ممتاز مفتی جب ہندوستان کا سفرنامہ لکھ
رہے تو اے حمید کے ذکر کے بغیر آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کی محفلوں
کا تذکرہ جس طرح اے حمید نے کیا ہے وہ اپنی جگہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثت
اختیار کر گیا ہے۔سعادت حسن منٹو کے آخری دنوں کا احوال ہر حساس پڑھنے والے
کو افسردہ کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اس افسوسناک احوال کی منظر کشی یا تو اے
حمید نے کی ہے یا پھر معروف مزاح نگار محمد خالد اختر کے مضمون منٹو کے
آخری دن سے اس کا پتہ ملتا ہے۔
اے حمید کی خاکہ نگاری کا ڈھنگ بھی دوسروں سے جدا نظر آتا ہے ۔ اپنی کتاب
چاند چہرے میں انہوں نے فیض احمد فیض ، سیف الدین سیف، پروفیسر وقار عظیم،
اخلاق احمد دہلوی، ابن انشائ،ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، عبدالمجید عدم،
احمد راہی، ابراہیم جلیس، راجہ مہدی علی، چراغ حسن حسرت، مرزا سلطان بیگ
وغیرہ پر خاکے لکھے ہیں اور ان خاکوں میں ایسے ایسے واقعات تحریر کیے ہیں
جو کہیں اور پڑھنے میں نہیں آتے۔ اسی طرح ان کی کتاب “گلستان ادب کی سنہری
یادیں“ بھی حقیقتاً سنہری یادوں اور باتوں کا ایک ایسا مرقع ہے جو ہمیشہ
یاد رکھی جائیں گی۔اے حمید اوائل عمری ہی میں گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے
اور انہوں نے یہ عرصہ بمبئی میں گزارا تھا۔اسی طرح جنوب مشرقی ایشیاء کے
بھی کئی ممالک بھی انھوں اچھی طرح دیکھ رکھے تھے۔ آگے چل کر اس آوارہ گردی
کے تجربات ان کی تحریروں کو جلا بخشنے میں خوب کام آئے اور ان ممالک کے
تجربات ، رہن سہن، بول چال اور ثقافت کو انہوں نے اپنی تحریروں میں گاہے
بگاہے استعمال کیا اور ان کی تحریروں کا یہی وصف ان کے قارئین کے دل میں
گھر کرگیا!
اب دیکھئے کہ بھلا اس انداز تحریر کو کون پسند نہ کرے گا:
“میں کبھی اکیلا اور کبھی کسی دوست کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے ٹولنٹن مارکیٹ
کا ایک چکر ضرور لگاتا تھا۔اس کی وجہ ٹولنٹن مارکیٹ کی وہ مخلوط ٹھنڈی
ٹھنڈی خوشبو تھی جو وہاں فضا میں ہر طرف بسی ہوئی ہوتی تھی۔میں جنوب مشرقی
ایشیاء کے ملکوں سے نیا نیا جدا ہوا تھا۔ ان ملکوں کی بارشوں کی آواز اور
استوائی پھولوں کی گرم خوشبوئیں میرے ساتھ سانس لیتی تھیں۔جب میں ٹولنٹن
مارکیٹ میں داخل ہوتا تو مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میں رنگون کی اسکاٹ مارکیٹ
اور کولمبو کے ساحل سمندر پر بارش میں بھیگتے ناریل کے درختوں میں آگیا ہوں۔“
لاہور کی سڑکوں کا احوال بیان کرتے ہوئے انداز تحریر ملاحظہ ہو:
“سردیوں کے موسم میں جب مطلع صاف ہوتا تھا تو ڈیوس روڈ سنہری دھوپ میں ایک
ایسی روشن سڑک لگتی جو مستقبل کے حسین سبزہ زاروں کی طرف جارہی ہو۔ رات کو
یہ سڑک کسی گمنام جزیرے کا خواب انگیز راستہ معلوم ہوتا تھا۔جب ساون کی
جھڑیاں لگتی تھیں تو بارش میں اس پرسکون خالی خالی سڑک پر ایک ایسی جنگلی
عورت کا گمان ہوتا تھا سنسان جنگل میں اکیلی بارش میں نکل آئی ہو۔
جوں جوں لوگوں کے دل تنگ ہوتے گئے، ڈیوس روڈ کشادہ ہوتی گئی۔ درختوں پر
کلہاڑے چلتے گئے۔ اور پھر وہ وقت آیا کہ اصل سڑک کی جگہ ایک ایسی سڑک
نمودار ہوگئی جس کا اصل سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ کبھی یہ سڑک
فطرت کی آغوش میں سانس لینے والی ایک آزاد جنگلی لڑکی تھی جو جنگل کی بارش
میں بے فکری سے نہایا کرتی تھی اور آج یہ سڑک مجھے ایک ایسی بھکاری عورت کی
طرح دکھائی دیتی ہے جس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، جس کے بالوں میں گرد جمی ہے
اور جو خوفزدہ آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سڑک پار کرنے کی کوشش کررہی
ہے۔“ (یادوں کے گلاب )
اپنے مخصوص انداز میں ماضی کے کسی دلچسپ واقعے کا ذکر کرنا تو اے حمید سے
سیکھئے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
“غفور بٹ ہفت روزہ اسکرین لائٹ کا مالک اور ایڈیٹر تھا۔دوسری منزل پر اس کا
دفتر تھا جہاں ہم شاعر ادیب تقریباً روزانہ شام کو مل بیٹھے تھے۔ہم سب فاقہ
مست ادیب تھے۔ کبھی کبھی اشفاق احمد بھی میرے اصرار پر یہاں آجاتا تھا۔
مبارک سینما کے مالک ملک مبارک صاحب کا انتقال ہوگیا۔ غفور بٹ سیڑھیاں چڑھ
کر ہانپتا ہوا آیا اور اپنے ایڈیٹر سے مخاطب ہو کر بولا :
تجمل! ملک مبارک کی وفات پر معذرت کا چوکھٹا لگانا نہ بھولنا
تجمل نے جان بوجھ کر کہا ٬ معذرت کا چوکھٹا ؟
غفور بٹ بولا: ہاں یار! وہی کہ ملک مبارک کے انتقال پر ادارہ اسکرین لائٹ
ان کے لواحقین سے معذرت خواہ ہے“۔ (داستان گو )
اے حمید ایک اور دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے
اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا
پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادب
لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادب لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم
نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا:
مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں
گے
مرزا ا دیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے ، بولے:
“یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔احمد راہی صاحب حصہ نظم مرتب کرلیں گے اور آپ
افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“
ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان
کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع
کردیں “
میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور۔۔ضرور “
اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادب لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی
رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔ آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے
نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک
دکاندار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت
کردئے۔اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم
بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے
سگرٹ بھی پیتے رہے۔ اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے
پوچھ لیتے:
بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟
ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہوجائے گا۔ ہم دراصل بڑی
ذمے داری سے کام کرہے ہیں۔ “ (یادوں کے گلاب )
ہمارے ممدوح کو اپنی تحریر کے ذریعے پڑھنے والے کو اداس کرنے کا فن بھی آتا
ہے۔ سعادت حسن منٹو سے اپنی آخری ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
“میو اسپتال کی دوسری منزل کے میڈیکل وارڈ میں دروازے کے ساتھ ہی ان کا
بستر لگا تھا۔ منٹو صاحب بستر پر نیم دراز تھے اور ان کی بڑی ہمشیرہ ان کو
چمچ کے ساتھ سوپ پلانے کو کوشش کر رہی تھیں۔میں خاموشی سے بستر کے ساتھ بنچ
پر بیٹھ گیا۔ منٹو صاحب بے حد نحیف ہوگئے تھے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میرے
دل کو بڑا دکھ ہو رہا تھا۔ میں خاموش بیٹھا تھا۔ منٹو صاحب نے نگاہیں اٹھا
کر میری طرف دیکھا تو میں نے بڑے ادب سے پوچھا:
اب کیسی طبیعت ہے منٹو صاحب ؟
اس عظیم افسانہ نگار کے کمزور چہرے پر ایک خفیف سا اداس تبسم ابھرا اور صرف
اتنا کہا:
دیکھ لو خواجہ!
اور اس کے کچھ ہی روز بعد سعادت حسن منٹو کا انتقال ہوگیا۔ (یادوں کے گلاب
)
اے حمید لکھتے ہیں کہ نریش کمار شاد جب دہلی سے لاہور آیا تو سعادت حسن
منٹو کی قبر پر جاکر بہت رویا اور پھر کہا: “ خدا مسلمانوں کو خوش
رکھے۔ہمارے پیاروں کا نشان (قبر) تو بنا دیتے ہیں۔“
نہ جانے کیوں مجھے ہندوستانی فلم شرابی کا وہ منظر رہ رہ کر یاد آرہا ہے جس
میں ہیرو (امیتابھ) کے ہر دلعزیز “منشی جی “ بستر مرگ پر تھے اور جب وہ ان
سے ملنے اسپتال پہنچا تو اپنی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا ۔۔۔وہ منظر یادگار
تھا جس میں امیتابھ اپنے منشی جی کے سینے پر سر رکھ کر التجائیہ انداز میں
کہتا ہے کہ لوٹ آئیے منشی جی ۔۔۔۔منشی جی لوٹ آئیے ۔۔۔اور اسکرین پر یہ
منظر دیکھنے والے لرز اٹھے تھے!
اے حمید نے کہیں لکھا تھا کہ میں اپنے فلاں بیمار دوست کو بستر مرگ
پردیکھنے نہیں گیا اس لیے کہ میں جن سے محبت کرتا ہوں ان کو اس حالت میں
نہیں دیکھ سکتا ۔
حمید صاحب ! ہم آپ کو اس حالت میں دیکھنے کا حوصلہ کہاں سے لائیں ؟ |