مولانا عبد القیوم آصف رحمتہ اﷲ علیہ کی رحلت

مورخہ 4اپریل 2011کو راقم لاہور ہی میں تھا کہ یہ دل دہلا دینے والی خبر ملی کہ مولانا عبد القیوم آصف ؒ جامعہ اشرفیہ میں خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، یقین جانیے کہ مولانا کی موت کا سن کر دل و دماغ کی عجیب سی حالت ہو گئی کیونکہ دل ہرگز ایسے حادثہ جانکاہ کے لیے قطعاً آمادہ نہ تھا ، اس جوان سال عالم دین کی موت کی خبر دینی حلقوں کے لیے بڑی دلخراش خبر تھی ، ملک بھر میں ان کے انتقال کی خبر بڑے کرب اور رنج الم کے عالم میں سنی گئی ۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو رستگاری نہیں مگر بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے چلے جانے سے ایک عہدہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ پس راقم فوری طور پر جامعہ اشرفیہ پہنچا ، مولانا مرحوم کی نماز جنازہ سہ پہر تین بجے جامعہ اشرفیہ میں مولانا فضل الرحیم نے پڑھائی جس میں جامعہ کے تمام اساتذہ کرام اور طلباء نے بھرپور جوش و جذبے سے شرکت کی اور بعد ازاں مولانا مرحوم کے بھانجے پروفیسر سعید عاصم کے ہمراہ جامعہ کی انتظامیہ سے مولانا کا جسد ِ خاکی وصول کر کے بھکر کی جانب روانہ ہوئے ۔حضرت خواجہ خان محمد ؒ کے نواسے مولانا عبد القیوم آصف ؒ کی بے وقت موت کا صدمہ بھلا کون بھلا سکے گا؟ آج جب اس عالم ربانی کی موت کا نوحہ لکھ رہا ہوں تو ہاتھوں پر مسلسل کپکپاہٹ سی طاری ہے اور زبان ہے کہ گنگ ہو چکی ہے ، حیران ہوں کہ اس شخص نے صرف بیالیس سال کی عمر میں بہت کچھ کمایا ، اس متبحر عالم ِ دین کا تذکرہ ہائے وفا رقم کرنا کافی مشکل لگ رہا ہے۔اس نوجوان نے 1968ء میں حضرت خواجہ خان محمد ؒ کے پہلے خدمت گار حاجی محمد عثمان کے گھر میں آنکھ کھولی تھی ، حضرت خواجہ خواجگان ؒ کے زیر سایہ قرآن حکیم حفظ کیا اور دیگر ابتدائی تعلیم بھی خانقاہ سراجیہ میں ہی حاصل کی ، بعد ازاں آپ کے والدین نے بھکر شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور 1982ء میں مولانا مرحوم ؒ نے وطن عزیز کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ کا رخ کیا اور وہاں سے عالم فاضل کا کورس مکمل کیا ، آپ کا شمار جامعہ اشرفیہ کے ہونہار طلباء میں ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ جامعہ اشرفیہ کے علماء اور طلباء کے دلوں میں آپ کا بیحد احترام پایا جاتا تھا ، دینی علوم کے ساتھ ساتھ آپ نے دنیاوی علوم پر بھی خاص توجہ مرکوز رکھی اور اس میدان میں بھی اپنی ذہانت و فطانت کا لوہا منوایا ، جامعہ اشرفیہ کے ہر پروگرام اور بالخصوص حسن قرات کی محفلوں میں آپ ہمیشہ سر فہرست رہتے ، دین اسلام سے محبت آپ کے رگ و پے میں اتر گئی تھی ، 1993میں مولانا مرحوم ؒ انگلینڈ کے شہر مانچسٹر کی مرکزی جامعہ مسجد میں تشریف لے گئے اور وہاں عرصہ پانچ سال تک خدمات سر انجام دیں ، 1998میں وطن واپسی ہوئی تو ایک بار پھر جامعہ اشرفیہ کی محبت و الفت مولانا کو اپنی جانب کھینچ لائی اور آپ نے مرتے دم تک جامعہ اشرفیہ کی چوکھٹ تھامے رکھی ، مجھے یاد ہے کہ ایک بار کافی عرصے کے بعد جب مولانا سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے مصروفیت جاننا چاہی تو مولانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بھائی ہم نے جامعہ اشرفیہ کو چھوڑ کر کہاں جانا ہے ، ان کے بھانجے پروفیسر سعید عاصم نے ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے بتایا کہ مولانا مرحوم ہمیشہ یہی کہتے کہ میں نے تقریبا ً چھبیس سے زائد ممالک کو بڑے قریب سے دیکھا ہے مگر جو مزہ اور سکون اس عظیم دینی درسگاہ سے وابستہ رہنے میں ہے وہ مجھے کہیں بھی نہیں ملا ۔ مولانا عبد الرحمٰن اشرفی ؒ کے ساتھ اس قدر قریبی تعلق تھا کہ مولانا اشرفی ؒ آ پ کو اپنا بیٹا کہہ کر فخر محسوس کرتے تھے ، مولانا فضل الرحیم ، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی کے ساتھ بھی آپ کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار اور روحانی نوعیت کے رہے ۔ ایک بات جو مولانا عبد القیوم آصف ؒ کواور بھی نمایاں کرتی تھی یہ کہ مولانا مرحوم ؒ کا شمار کرکٹ کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا ، انضمام الحق ، یونس خان ، راشد لطیف کے ساتھ مولانا کے دوستانہ مراسم تھے ۔خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آ پ کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے انڈر نائن ٹین کا اعزازی چیف سلکیٹر کا عہدہ دیا اور راشد لطیف اکیڈمی نے چیف سلیکٹر مقرر کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مولانا مرحوم نے مصباح الحق او ر محمد سمیع جیسے معروف بلے باز اور باﺅلر اس قوم کو دیے ، پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے آپ نے درجنوں ممالک کا دور ہ کیا مگر دینی اقدار کو بھی مضبوطی سے تھامے رکھا اور خدمت دین میں بھی ہر اول دستے کا کردار ادا کیا، مانچسٹر قیام کے دوران ہی آپ کی ملاقات پاکستانی شہری ،معروف صنعت کار حاجی عبد الرحمٰن سے ہوئی جس نے مولانا کے خلوص و جذبے سے متاثر ہوتے ہوئے ان سے مشورہ لینا چاہا کہ میں دین کی خدمت کس انداز میں کر سکتا ہوں؟ مولانا عبد القیوم آصف ؒ مرحوم نے انہیں بھکر میں مقیم معروف عالم دین اور جے یو آئی (ف) کے سر پرست اعلیٰ مولانا محمد عبد اللہ مدظلہ سے متعارف کروایا اور یوں مولانا مرحوم کی محنتوں سے اس پسماندہ خطے کو ایک عظیم دینی درسگاہ جامعہ قادریہ کی صورت میں میسر آئی جہاں اس وقت سینکڑوں طلباء و طالبات دینی علوم کے حصول کے لیے مصروف ِ عمل ہیں ۔ اس جواں سال عالم دین کے جسد خاکی کے ہمراہ جب ہم رات دس بجے بھکر شہر میں پہنچے تو لوگوں کے جم غفیر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور ہر طرف رنج والم میں ڈوبی سسکیاں ابھر رہی تھیں، مولانا عبد القیوم آصف ؒ کی دوسری نماز جنازہ علاقہ کی ممتاز دینی درسگاہ جامعہ قادریہ کے سبزہ زار میں سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ کند یاں حضرت خواجہ خلیل احمد مدظلہ کی اقتداء میں ادا کی گئی جس میں جے یو آئی کے سر پرست اعلیٰ مولانا محمد عبدا للہ مدظلہ ، صاحبزادہ عزیز احمد ، صاحبزادہ سعید احمد ، جے یو آئی کے پنجاب میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد صفی اللہ سمیت علاقہ بھر کی معزز سیاسی و سماجی شخصیات اور شہریوں نے شرکت کی اور یوں 1968ء میں ابھرنے والا یہ آفتاب مسلسل بیالیس سال تک عالم میں روشنیاں بکھیرنے کے بعد مورخہ 4اپریل 2011ء کو دریائے سندھ کے اس پار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔ ملک کے معروف شاعر اور مولانا مرحوم کے بھانجے پروفیسر سعید عاصم کا یہ شعر ان کی زیست کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے ۔
سر سبز کر گیا ہے امیدوں کی کھیتیاں
بنجر زمین کے لیے ابر ِ بہار تھا وہ
Abdul Sattar Awan
About the Author: Abdul Sattar Awan Read More Articles by Abdul Sattar Awan: 37 Articles with 32775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.