اﷲ تعالٰی نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا،اسے اپنا
قرب حاصل کرنے کا سلیقہ سیکھایا،اسی میں سکونِ قلب عطا کیا اور بے شمار
نعمتوں سے نوازا،مگرانسان نا شکرہ رہا۔وہ اس حقیقت سے بے خبر ہو گیاکہ وہ
صرف ایک گندے نطفے کی پیداوار ہے،لیکن اس کی اچھاڑ بچھاڑاورتکبروغرورنے
زمین پر شر پھیلارکھا ہے۔جہاں اﷲ کے ہر امر کی اطاعت کرنا تھی،وہاں
نافرمانی اور انتشار برپا کیا۔جہاں انسان نے بغیر کسی امتیاز اور فرق کے
امن و چین سے زندگی بسر کرنا تھی،وہاں بلند ،کم ترکی تفریق پیدا کی اور
چوہدری بننے کے شوق نے تمام حدود پار کیں۔کیوں کہ تکبر سے غصہ پیدا ہوتا ہے
اور غصے سے انتقام لینے کی خواہش جنم لیتی ہے اور انتقام کی صورت میں عدل و
انصاف قائم نہیں رہتا۔
اسی تکبر کا مظاہرہ لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کے
حملے سے سامنے آیا۔جہاں کالے کوٹ والوں کے تشدد اور دہشت گردی کی بھینٹ دو
خواتین سمیت 6 مریض طبی امداد رکنے کی وجہ سے دم توڑ گئے۔سوشل میڈیا پر
وائرل ہونے والی ڈاکٹر عرفان کی چند باتوں نے پوری وکلاء برادری کو اتنا
مشتعل کر دیا کہ ان کی انسانیت ختم ہو کر رہ گئی ۔سینکڑوں وکلاء نے ہسپتال
میں داخل ہو کر مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو بھی نہ بخشا۔آئی سی
یو،آپریشن تھیٹرتک اڑادیا،ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنایا،انتہا تو اس وقت
ہو گئی جب دل کے مریضوں کے ماسک تک اتار دیئے ۔یہ حیوانیت کی آخری حد
تھی۔پولیس پر پتھراؤ اور پولیس موبائل جلا دی ۔وزیر اطلاعات فیاض الحسن
چوہان اور میڈیا نمائندوں کو زخمی کیا۔
وکلا اور ڈاکٹرزکو معاشرے کا پڑھا لکھا اور با شعور طبقہ سمجھا جاتا
ہے،لیکن اس واقعہ نے دنیا بھر میں پاکستان کے وقارکو شدید ٹھیس پہنچائی
ہے۔اتنی انسانیت سے گری ہوئی حرکت تو کوئی درینہ دشمن نہیں کر سکتا۔ستم
ظریفی اس وقت سامنے آئی، جب اپنی غلطی کو ماننے کی بجائے سینئرز نے جونیئرز
وکلا کا ساتھ دیتے ہوئے عدالتوں میں ہڑتال کا اعلان کر دیا اور ناراض ہیں
کہ ہمارے گرفتار وکلا جو اس گھناؤنے واقعہ میں پیش پیش تھے ،ان ملزمان کو
عدالت پیش کرتے وقت ان کے منہ پر کالا کپڑا کیوں دیا گیا،یہ معزز وکلا ہیں
،انہیں دہشت گرد بناکر پیش کیا گیا ہے ،یہ قابل قبول نہیں ،گویا ان شر
پسندوں کو شہ دی جا رہی ہے۔کیا ہسپتال پر دھاوا بولنا،دل کے مریضوں پر تشدد
دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے ؟اس پُرتشدد واقعہ نے ملک بھر میں غم و غصہ
کی لہر دوڑا کر رکھ دی ہے ۔
دوسری جانب اتنا ہولناک واقعہ ہوتا ہے،لیکن ریاست اور انتظامیہ کہیں نظر
نہیں آتی ۔وکلا اکٹھے ہوتے ہیں،ایوان عدل سے ہسپتال تک جھرمٹ کی شکل میں
پیدل چل کر آتے ہیں ۔یہ تقریباً سات کلومیٹر کا فیصلہ بنتا ہے ۔کوئی ایجنسی
ان کا مقصد نہیں سمجھ سکی،پنجاب حکومت جس کا وزیر اعلٰی ’’عمرانی شیر شاہ
سوری‘‘ہے،انہیں کوئی خبر نہیں کہ صوبائی دارالخلافہ کے مین ہسپتال میں کیا
ہونے جا رہا ہے ۔انتظامیہ خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہتی ہے۔اتنا پرتشدّت
واقعہ ہو جاتا ہے۔ابھی بھی کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔حکمران
کا کردار ذمہ دار،نگران،نگہبان اور محافظ کا ہوتا ہے ،لیکن جہاں ’’عمران
خان اور وسیم اکرم پلس‘‘جیسے حکمران ہوں،وہاں نا اہلی بھی شرما جاتی
ہے۔وزیر قانون راجا بشارت تو بادشاہ آدمی ہیں۔انہیں صرف اپنے آقاؤں کی
خوشامد کرنے کا فن آتا ہے ۔اس لئے ان سے لاء اینڈ آڈر کو سنبھالنے کا سوچنا
بیوقوفی ہے اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی کارکردگی نے صوبہ
پنجاب کے محکمہ صحت اور ہسپتالوں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔یہ تمام
حکومتی پیادے صرف بیانات کی حد تک وقت گزار رہے ہیں ۔
وکلا گردی نے دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی ہے۔حق یہ ہے کہ عدل و انصاف کو
بروئے کار لاتے ہوئے قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں،مگر کچھ نہیں ہو
گا۔عمران خان صرف نوٹس لینے تک محدود رہیں گے،وکلا سے ’’پنگا‘‘ہر گز نہیں
لیاجائے گا ۔کچھ دن بعد تمام ملزمان وکلا کی ضمانت ہو جائے گی اور آخر کیس
فارغ کر دیا جائے گا۔
یہ ڈاکٹروں اور وکلا کی ہڑتالیں دیگر محکموں میں دھرنے انتظامیہ کے لئے تو
شاید مسئلہ نہیں، لیکن عوام کے لئے انتہائی اذیت کا باعث ہیں۔حالیہ سانحہ
میں بھی انصاف ملنے کی کسی کو امید نہیں۔پاکستان سے دنیا بھر میں جانے والے
عجب پیغام نے عوام کی جگ ہسائی ہوئی ہے۔تہذیب یافتہ معاشرے کا یہ شیوا نہیں
ہوتا کہ جہاں مریض موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہوں،وہاں قانون کے
رکھوالے دھاوا بول دیں اور انہیں سزا نہ دلوانے کے لئے قانون کے رکھوالے
ہڑتالیں کریں اور دباؤ ڈالیں کہ انہیں چھوڑ دیا جائے اور حکمرانوں کا رویہ
منصفانہ ہونے کی بجائے مصلحت والا ہو۔اگر حکومت نے اس واقعہ پر اپنی نا
اہلی اور جانب داری کا مظاہرہ کیا۔عدل و انصاف نہ کیا گیا،اس سے ایک جانب
انسانیت کی ہر طرح سے تذلیل ہو گی اور دوسری جانب حکومت کے ساتھ عوام کے
اختلافات اور تحفظات بڑھ جائیں گے ۔یہ پُر تشدد رویے بڑے خطرے کی گھنٹی بجا
رہے ہیں ۔حالاں کہ ان رویوں کی بنیاد خود عمران خان نے رکھی ہے ۔سول نا
فرمانی،ہنڈی سے پیسہ منگوانے کی تحریک سے لے کر پی ٹی وی اور پارلیمنٹ
پرحملہ تک تمام تشدّت آمیز رویے تھے۔یہ مکافاتِ عمل ہے ،لیکن اب ایسے رویوں
کا اختتام ہو جانا چاہیے یہ ملک و قوم کے لئے نقصان دہ اور تباہی ہے۔اس کے
لئے حکمرانوں کو اعتدال،نرمی،صلح رحمی ،سادگی اور قناعت اختیارکرنا
ہوگی۔وزیر اعظم اور وزیر اعلٰی پنجاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس واقعہ کی
تمام تر ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے ۔کیوں کہ عدل و انصاف حکمرانی کا سب
سے بنیادی تقاضہ ہے۔ایسے واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ حکمرانوں کی توجہ
صرف سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کسی طرف نہیں ہے۔حکومت نام کی
کوئی چیز ملک بھر میں نہیں ۔اس لئے واقعہ پر غیر جانب اور بلا تفریق تفتیش
کی جائے اور بلا امتیاز انصاف کیا جائے یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں
اور ملک و قوم کی جان چھوڑیں ۔
|